خبرنامہ

ایبی ا ور نومی کی المناک موت۔۔اسداللہ غالب

ہم اسے ایبی کہتے تھے مگر وہ پہلی جماعت میں داخل ہوا تو پتہ چلا کہ اس کا نام ابراہیم تھا۔گاؤں کی مسجد میں مولوی عبد اللہ سے ہم نے اکٹھے قران ناظرہ پڑھا، سو تک گنتی سیکھی اور دس تک پہاڑے بھی یاد کئے۔پہلی سے لے کرد سویں تک ایک ساتھ تعلیم حاصل کی، اس نے مزید پڑھائی جاری نہ رکھی، پتہ نہیں کیوں، مالی وسائل کی توا سکے پاس کمی نہ تھی۔ پرائمری کلاسوں میں ا سکے پاس پتھر کی سلیٹ ہوا کرتی تھی جس سے پتہ چلتا تھا کہ وہ اہک خوشحال گھرانے کا بچہ ہے، ماں باپ کی واحد اولاد، اسلئے سارے وسائل اسی کو دستیاب تھے۔ہم اس پر رشک کرتے تھے، اس کا لباس بھی صاف ستھرا ہوتا تھا۔
پچھلے پچاس برسوں میں گاؤں سے میرا ناطہ چھوٹ گیا اور اپنے ہم جولیوں سے بھی، اب ان سے ملاقات اسی صورت میں ہوتی جب میں گاؤں جاتا اور مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتا، یہاں اپنے بچپن کے ساتھیوں سے ملتا تو ایک سرور نصیب ہوتا۔
ایبی کو میں نے آخری بار کوئی دس سال قبل دیکھا تھا، میں گھر کے دروازے کے باہر کھڑا تھا، وہ کھیتوں کی طرف سے تیزی سے چلا آرہا تھا،ا سکی شیوکچھ کچھ بڑھی ہوئی تھی۔وہ نظریں جھکائے چلے جا رہا تھا، میں نے ا سے کئی آوازیں دیں ،ا س نے کوئی دھیان نہ دیا ۔ مجھے افسوس سا ہوا کہ وہ مجھے بھول گیا ہے۔مگر میں اسے کبھی نہ بھولا تھا۔گاؤں سے آنے جانے والوں سے پوچھتا رہتا تھا کہ ایبی کیسا ہے اور کیا اسنے بھی کبھی میرے بارے میں پوچھا ہے۔
ایبی عام پاکستانیوں کی طرح ایک غیر معروف شخص تھا مگر اس کا انجام عام لوگوں جیسا نہیں ہوا، چند روز پہلے وہ ٹیوب ویل سے نہا دھو کر، تازہ دم ہو کر گھر واپس آرہا تھا، راستے میں اسے فیروز پور روڈ کو کراس کرنا تھا۔
اس فیروز پور روڈ کو اس نے پچھلے ستر برسوں میں ہزاروں بار کراس کیا تھا ۔مگر اس روز گنڈا سنگھ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب دیکھنے والوں کا غیر معمولی رش تھا۔ ایسا ہر روز ہوتا ہے، قصورا ور گرد و نواح کے قصبوں اور دیہاتوں کے لوگ کاروں، موٹر سائیکلوں، چنگ چیوں میں جو ق در جو ق بارڈر کا رخ کرتے ہیں، غروب آفتاب سے کچھ دیر پہلے قومی پرچم اتارنے کی تقریب شروع ہوتی ہے اور ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے، بھارتی ا ورپاکستانی تماشائیوں میں نعرے بازی کا مقابلہ جنون کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ تقریب تو ختم ہوجاتی ہے مگر تماشائی ا سی جو ش وجذبے سے سرشار واپسی کا سفر شروع کرتے ہیں، ان کے دماغ ابھی بارڈر کی تقریب میں الجھے ہوتے ہیں۔وہ دل ہی دل میں نعرے بازی کر رہے ہوتے ہیں اور آنکھوں ہی آنکھوں سے بھارتی تماشائیوں کو گھور رہے ہوتے ہیں ۔ انہیں دنیا و ما فیھا کی کچھ خبر نہیں ہوتی۔
ایبی ٹیوب ویل سے نہاد ھو کر،با وضو ہوکر فریش ہو چکا تھا،اسے جلدی تھی کہ مغرب کی نماز با جماعت ادا کرے، اسی سوچ میں اس نے دو رویہ سڑک پر پہلا قدم رکھا اور اس کا دماغ چکرا گیا، کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ اصل میں کیا ہوا، کیا کسی جوشیلے پاکستانی کی کار نے ا سے ٹکر ماری یا کوئی موٹر سائیکل والا لہلہاتے ہوئے ا س سے ٹکرا گیا، نجانے ایبی کتنی دیر تک سڑک کے بیچوں یچ تڑپتا رہا،ا س دوران میں سینکڑوں کاریں، موٹر سائیکلیں اس کے تڑپتے جثے کے قریب سے گزر گئیں ، کسی نے ذرا رک کر اس کے منہ میں پانی کا قطرہ تک ٹپکانے کی زحمت گوارا نہ کی، گاؤں والوں کو ا سکے انجام کی خبر تب ہوئی جب ایک شناسا شخص نے ا سے دیکھا، اس وقت تک وہ ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔
ایسے سانحے فیروز پور روڈ پر اکثر ہوتے ہیں۔اور میرے گاؤں فتوحی والہ کے باسی حب الوطنی سے سرشار تماشائیوں کی بھینٹ چڑھتے رہتے ہیں۔
بارڈر پر قومی پرچم اتارنے کی یہ تقریب روزانہ ہوتی ہے، روز حب الوطنی کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ میں کون ہوتا ہوں اس حب الوطنی کے سامنے بند باندھنے والا مگر قصور ٹریفک پولیس، قصور کا ڈی سی او اس امر کے ضرور مکلف ہیں کہ وہ ٹریفک کو قابو میں رکھنے کے کے لئے اپنا اپنافرض منصبی نبھائیں۔
کبھی خادم اعلی اس منظر کو وڈیو لنک پر دیکھیں تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں۔ ان کی سہولت کے لئے اپنے گاؤں فتوحی والا کے سرے پر میں وڈیو لنک کا رشتہ جوڑ دوں گا۔
ایبی اب ایک گزری، بھولی بسری داستان ہے مگرا سنے اپنی موت سے ریاست کی گورننس کی بے ہودگی کا پردہ چاک کر دیا ہے۔
فتوحی والہ لاہور سے قصور بارڈر تک جانے والی فیروز پورروڈ کے آخری سرے پر واقع ہے۔ایک لحاظ سے یہ باب پاکستان ہے مگر کیا باب پاکستان کے باسی اسی سلوک کے مستحق ہیں۔
میرے پاس دوسرا قصہ نومی کا ہے۔نومی کا قصہ سناتے ہوئے میرے قلم کی آنکھیں نم ہیں۔ وہ بائیس سال کا نوعمر لڑکا تھا، وہ میری بھتیجی کا بیٹا ہے۔فیصل آباد کے نواح میں چک 209آر بی میں پلا بڑھا، ا س چک کو شہر کی توسیع نگل چکی ہے۔پچھلی جمعرات کو وہ موٹرسائیکل پر گھر سے نکلا،ا س نے اپنے ساتھ ایک سترہ سالہ دوست کو بٹھایا تاکہ اس کی نوکری کے لئے کسی سے کہہ سکے۔گاؤں کی سڑک سے نکل کر وہ گجڑانوالہ روڈ پر ہولئے، میں اس سڑک پر ایک بار ہی گیاجب 1968 میں میرے ایک بھائی کی وہاں بارات گئی تھی، اس سڑک کی خستہ حالی کی وجہ سے مجھے دوبارہ اس پر سفر کا حوصلہ نہیں ہوا۔
دونوں نوجوان تھانے کے قریب پہنچے تو پیچھے سے تیزرفتاری سے آنے والی ایک بس نے انہیں زور سے ٹکر ماری، ان کی ٹانگیں موٹر سائیکل میں الجھ گئیں اور بس کے پچھلے دونوں پہئے ان کو روندتے، مسلتے، قیمہ بناتے اوپر سے گزر گئے، بس ڈرائیور نے مزید رفتار پکڑی، موقع واردات سے فرار کی ا س کوشش کو لوگوں نے ناکام تو بنا دیادمگر ڈرائیور بس سے چھلانگ لگا کر کھیتوں میں جا گھسا، وہاں سے پکڑا تو گیا اور اب پولیس کی تحویل میں ہے مگر مرنے والوں کے خاندان کو اس کی کمپنی کے مالکان دھمکا رہے ہیں کہ یہ قصہ یہیں ختم کر دو، ورنہ مزید خونریزی ہو گی، شاید دو کم سن لڑکوں کے بے گناہ خون سے ان کی ہوس خونریزی کو چین نہیں آیا۔
دیکھنے کو یہ بھی ایک حادثہ ہے، ہر حادثے کی طرح اس میں بھی مارنے والا موقع سے بھاگ نکلا۔لاہور کینٹ میں بھی ایک حادثہ ہوا تھا، ایک ریٹائرڈ کرنل کو کچل کرموقع واردات سے چیف سیکرٹری بھاگ گیا تھا مگر قانون کی پکڑ سے وہ نہ بچ سکا۔کہ مرنے والے کے لواحقین زیادہ تگڑے تھے۔
نومی کی ماں کے آنسو مجھ سے دیکھے نہیں جاتے۔ اس کی ماں میری گود میں پلی بڑھی، اس کا باپ ا وائل جوانی میں ایک حادثے کا شکار ہو کر کمر کے مہرے تڑوا کر مفلوج ہو گیا تھا اور مسلسل بائیس برس تک ایک چارپائی پر لیٹے رہنے پر مجبور تھا۔ اس کی اولاد میری اولاد کی طرح تھی ، مگر میں اپنی بھتیجی کے حالیہ دکھ درد کو بانٹنے کی سکت نہیں رکھتا۔ میں تو صرف اس معاشرے سے یہ اپیل کر سکتا ہوں کہ بے گناہوں کو کچلو ضرور مگر دم بھر کے لئے رک کر زخمی کو ہسپتال تو پہنچا دو۔ حادثے میں مارنے کی قانون میں شاید کوئی سزا نہیں مگر مرنے والوں کے لواحقین کو جو سزا عمر بھر کے لئے ملتی ہے، اس کا مداوا کون کرے گا۔