خبرنامہ

ایٹمی اسلحہ چوری ہونے کا خدشہ

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ایٹمی اسلحہ چوری ہونے کا خدشہ

امریکہ کے سر پر ایک ہی بھوت سوار ہے کہ پاکستان کا ایٹمی اسلحہ چوری ہوسکتا ہے یا ہو چکا ہے۔
افغان جنگ شروع ہوئی تو حامد میر نے افغانستان کے کسی نامعلوم مقام پر اسامہ بن لادن سے ملاقات کی، ان دنوں وہ روز نامہ اوصاف کے ایڈیٹر تھے لیکن ان کی خبر ڈان نے بھی شہ سرخی کے ساتھ شائع کی جس میں اسامہ نے دعوی کیا تھا کہ اس کے پاس ایٹمی اسلحہ موجود ہے اور اگر امریکہ جارحیت سے باز نہ آیا تو وہ اس ایٹمی اسلحے کو استعمال کر کے امریکہ کو تباہ کر دے گا۔
اس خبر کا چھپنا تھا کہ امریکہ نے افغانستان کا تورا بورا بنا دیا، وہ دن اور آج کا دن، اسامہ نے اپنا ایٹمی اسلحہ کہیں استعمال نہیں کیا، یہ اسلحہ کہاں چھپارکھا ہے، اس کی خبرخوداسامہ کو ہوسکتی ہے، حامد میر دوبارہ اس سے کہیں ملیں تو پوچھیں تو سہی کہ یا شیخ!جوالگ باندھ کے رکھا ہے وہ مال کہاں ہے۔
پاکستان کے ایٹمی اسلحے کے بارے میں ایک بار پھر تشویشناک خبر یں اس وقت منظر عام پر آئیں جب طالبان نما لوگوں نے سوات پر قبضہ کر لیا ملکی اور غیرملکی میڈیا اور بالخصوص فضل الرحمن یہ کہ رہے تھے کہ طالبان اور کہوٹہ کے مابین صرف مارگلہ کی پہاڑیاں حائل ہیں۔ یہ ڈ راو ااس قدر بھیانک تھا کہ پاکستانی فوج کو فوری طور پر ایک آپریشن کرناپڑا۔ شاید اس سے کہوٹہ محفوظ ہو گیا ہوگا۔
اب ایک بار پھر پاکستان کا ایٹمی اسلحہ چوری ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی نے امریکہ کے ساتھ سکیوریٹی معاہدہ نہیں کیا جس کی بناپر امریکہ کو اپنی ساری فوج اس ملک سے نکالنی پڑ جائے گی۔ ایسا ہو جائے تو کیا کہنے مگر امریکہ کوڈر ہے کہ اس کی ساری فوج نکل گئی تو ڈرون طیاروں کے اڈے غیرمحفوظ ہو جائیں گے جہاں سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں پر حملے کیئے جاتے ہیں، امریکی اخبار نیو یارک ٹائمزکے مطابق انہی ڈرون طیاروں کے ذریے پاکستان کے ایٹمی اسلحہ کے چوری ہو جانے کی صورت میں امریکی فوری کارروائی کرسکتا ہے، اخبار نے پوری رپورٹ میں صرف ایک جگہ یہ لکھا ہے کہ بھارت کا ایٹمی اسلحہ بھی چوری ہوسکتا ہے اور اس صورت میں بھی ڈرون ہی واحد موثر ہتھیار ہے۔ اخبار نے ہر دو چار فقروں کے بعد چوری کا خدشہ پاکستان کے ایٹمی ذخائر کے بارے میں ہی ظاہر کیا ہے۔ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ پاک فوج کا کوئی انتہا پسند جرنیل بھی یہ اسلحہ ہتھیا سکتا ہے۔ پاکستان میں دفاعی امور سے متعلق ہر کوئی جانتا ہے کہ امریکی ڈرون ہمارے ایٹمی اسلحے کی سخت نگرانی کررہے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق پاکستان نے چھوٹے چھوٹے ایٹم بم تیار کر لیے ہیں جن سے بھارتی فوج کے جارحانہ حملوں کو روکا جاسکتا ہے، امریکہ نے اس قسم کے ہتھیار سرد جنگ کے زمانے میں یورپ میں ڈیپلائے کیے تھے۔ یہ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ ہمارے ایٹمی اسلحے کے بارے میں دنیا سب کچھ جانتی ہے اور ایک ہم ہیں کہ ابھی تک اپنے ایٹم بم کی شکل تک نہیں دیکھی۔ مجھے تو کہوٹہ کے جغرافیے کا بھی علم نہیں لیکن میں اس قدر خوش قسمت ضرور ہوں کہ 1987 میں مجھے ملائیشیا کا نیوکلئیر پلانٹ دیکھنے کا موقع مل گیا، میں نے اس کے اندر بھی جھانک کر دیکھا اور اس پلانٹ کے سربراہ سے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں کو یہاں کام کرتے ڈر نہیں لگتا تو جواب ملا کہ ہم یہاں اپنے آپ کو بالکل محفوظ رکھتے ہیں، اصل ڈر ہمیں سڑکوں کی ٹریفک سے لگتا ہے، جہاں قدم قدم پر جان لیوا حادثات رونما ہوتے ہیں۔ یہ صاحب پاکستان میں ہوتے تو خودکش دھماکوں سے ان کی ٹانگیں کانپ رہی ہوتیں۔
میری خواہش ہے کہ ہمارے دفاعی ادارے ایک مرتبہ ہم اخبار نویسوں کوقومی ایٹم بم کی زیارت تو کرا دیں۔ ڈاکٹر مجید نظامی بڑے دل گردے والے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ نہیں اسی میزائل کے ساتھ باندھ کر جموں کی بھارتی ناردرن فوجی کمان کے ہیڈ کوارٹر پر پھینک دیا جائے، لیکن ان کا دم غنیمت ہے، وہ قوم کی نظریاتی راہنمائی کا فریضہ ادا کرتے رہیں۔ یہ کام میں اپنے ذمے لیتا ہوں، راستے میں اس ایٹم بم کو چومنے کا موقع بھی مل جائے گا۔
نائن الیون سے ایک سال پہلے مجھے امریکہ کے ایک سرکاری دورے کا موقع ملا۔ جاوید صدیق بھی ہمراہ تھے۔ ہمیں سان فرانسسکو سے آگے مانٹرے انسٹی ٹیوٹ لے جایا گیا جہاں ہر شخص نے ایک ہی لیکچر دیا کہ ایٹمی اسلحہ دہشت گردوں کے ہاتھ لگ چکا ہے۔ یہ دعوے محض ایک فریب کے سوا کچھ نہیں، آج تک ایٹمی اسلحہ کی دہشت گرد نے استعمال نہیں کیا بلکہ تمام خودکش دھماکوں میں دیسی بارود کے اندر تیز دھار کیل اور چھرے رکھ کر کام چلایا جاتا ہے۔ اس سے دہشت گردوں کی بے سروسامانی کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس چھوٹے سے چھوٹا ایٹم بم بھی ہوتا تو ہمیں چٹھی کا دودھ یاد دلا دیتا اور ایسی تباہی مچاتا کہ گلی ہوئی چربی نمالاشوں کا نوحہ پڑھنے والا بھی کوئی زندہ نہ بچتامگر امریکہ کے پاس ایسی پروپیگنڈا مشین ہے کہ اس کے جھوٹ پر بھی سچ کا گمان ہوتا ہے، ہمارے پروپیگنڈے باز اپنے فوجی ڈاکٹروں کی میڈیکل رپورٹ کو کوس رہے ہیں جبکہ امریکی پروپیگنڈا ماہرین ہماری تباہی کے اگلے مرحلے کی منصوبہ بندی کرنے میں مصروف ہیں۔ ویسے انہیں ایسے تکلف میں پڑنے کی کیا ضرورت، اپنا گلا گھونٹنے کے ہم خود بڑے ماہر ہیں، ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کا فن کوئی ہم سے سیکھے۔ فیصلہ کن گھڑی آن چکی ہے۔ ہمارے مشیر خارجہ سرتاج عزیز امریکہ میں اسٹریٹجک مذاکرات کے لیئے موجود ہیں۔ میاں نواز شریف کو حالات کی سنگینی کا ذرا بھی احساس ہوتا تو وہ ایک با اختیار وزیر خارجہ ضرور مقرر کرتے۔ مشیروں سے کام نہ چلاتے۔ یہ مشیر وزیر اعظم سے راہنمائی کے محتاج ہیں کیونکہ وہی وزیرخارجہ بھی ہیں تو ان مذاکرات میں وزیراعظم کو خود جانا چاہئے تھا۔ فیصلہ کن گھڑی یہ ہے کہ امریکہ کوانخلا کے بارے میں اہم فیصلے کرنے ہیں اور ہم ان کی اہمیت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔شکر ہے نواز شریف نے سرتاج عزیز کو وہاں بھیجا، اگر وہ کسی حاشیہ شین کالم نویس کو وقتی طور پر وزیر کے برابر منصب دے کر واشنگٹن بھیج دیتے تو ہم کیا کر لیتے۔ ایک ملک کی شامت آئی تو حلوہ کھانے والا وہاں حکمران بن گیا، جب دشمن نے دارالحکومت کی فصیل میں جابجا شگاف کر دیئے تو حلوہ خور نے کہا کہ لوسنبھالو اپنا ملک، ہم تو چلے۔ امریکہ بے حد سنجیدہ ہے، اس نے افغانستان کی طویل ترین جنگ لڑی ہے، اب اسے اس علاقے سے جانا ہے، اس کے بعد کیا ہوگا، کیا وہی کچھ جو پہلے افغان جہاد کے بعد ہوا یا اس سے بھی بدتر۔ انجینئر گلبدین حکمت یار نے تو بڑا ہولناک نقشہ کھینچا ہے۔ پاکستان مزید خون ریزی کا متحمل نہیں ہو سکتا، افغانستان کے جسد قومی سے بھی سارا خون نچڑ چکا، اب ہم ہڈیوں کا ڈھانچہ ہیں، ہمیں کسی مسیحا کی ضرورت ہے۔ (28 جنوری 2014ء)