وہ نصف صدی سے سیاست میں ہیں اور میرے دل و دماغ کے قریب ہیں ۔ انہوں نے ہمیشہ شرافت کی سیاست کی ہے۔ ان کی جوانی بھی بے داغ ہے۔مگرذاتی زندگی کے آخری ایام میں وہ ایک شدید کرب سے گذر رہے ہیں ۔ وہ مجھے بھائیوں کی طرح عزیز ہیں ، میں نے ان سے تنہائی میں بھی ملاقاتیں کی ہیں اور عزیز م احمد وقاص ریاض کے ساتھ بھی ان سے ملتا رہا ہوں۔ میں سمجھتا تھا کہ اقبال گجر اور وقاص ریاض کے درمیان برادری کی وجہ سے قربت قائم رہی ہے ، لیکن اب اقبال گجر اور ان کے بیٹے احسن گجر کے خلاف پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا کی طوفانی مہم چلی ہے تومجھ پر یہ راز کھلا کہ وقاص ریاض کی بہن احسن گجر کی پہلی بیگم ہیں ۔ جناب وقاص ریاض سے میرے الگ سے مراسم ہیں ، اوران کی ابتدا ءسن2000ءمیں اس وقت ہوئی جب میں امریکہ کے سرکاری دورے سے فارغ ہوکر نیویارک میں سردار نصر اللہ کا مہمان بنا ۔ سردار نصر اللہ صاحب کی وساطت سے مجھے نیویارک کی اشرافیہ سے میل ملاپ کا موقع ملا ۔ وہاں کئی لوگوں سے ملاقاتیں رہیں، میرے ذہن میں ایک اچھوتا منصوبہ تھا ، کہ پاکستان سے تیار کرکے ایک اخبار امریکہ میں شائع کیا جائے ۔
یہ منصوبہ سردار نصراللہ اور احمدوقاص ریاض کو بھی بے حد پسند آیا ۔ کیونکہ یہ ایک کم خرچ اور بالا نشین منصوبہ تھا۔ ان دنوں نیویارک میں کئی اردواخبارات شائع ہورہے تھے ۔ میں نے تخمینہ لگایا کہ نیویارک میں اخبار کی ایک ہفتے کی لاگت میں پاکستان سے چار اخبار تیار کرکے بھجوائے جاسکتے ہیں ۔ اس اچھوتے منصوبے میں دو مزید افراد بھی شامل ہوگئے ۔ نیویارک میں اخبار کے انتظام میں احمد وقاص ریاض کو کلیدی کردار ملا۔ 14اگست 2000ءکو اس کا پہلا شمارہ شائع ہوا تو اس سے امریکہ میں اردو اخبار کی اشاعت میںپہلی بار ایک انقلاب برپا ہوگیا ۔ نائن الیون تک یہ اخبار ملت اوور سیز کے نام سے شائع ہوتا رہا ۔ نائن الیون نے نیویارک میں اس اخبار کی ٹیم کو شدید مالی بحران سے دوچار کردیا، تو وقاص ریاض صاحب نے اپنی ادارت میں گلوبل ٹائمز کا اجراءکیا ، جسے لاہور سے تیار کرکے بھجوانے کےلئے مجھے ذمہ داری سونپی گئی ۔
ان دو، چار برسوں کے اندر وقاص ریاض صاحب کے ساتھ میری بے حد قربت پیدا ہوگئی ۔ اس دوران وہ نیویارک سے واپس آکر لاہور میں آباد ہوگئے اور 2018ءکے الیکشن سے قبل انہیں نگران کابینہ میں وزارت اطلاعات کا قلمدان سونپا گیا۔ اپنی وزارت سنبھالنے سے پہلے وہ اکثر میرے پاس پاک عرب سوسائٹی میں آیا کرتے تھے ۔ وہ سینیٹر گلزار کے بیٹے سینیٹر وقار کے سیاسی مشیر کے طور پر کام کررہے تھے ۔ اس دوران انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں نوازشریف کو چھوڑکر عمران خان کے حق میں لکھنا شروع کردوں ۔ انہوں نے یہاں تک پیش کش کردی کہ وہ عمران خان کو میرے گھر لاسکتے ہیں ۔ میں نے ان سے نہیں پوچھا کہ عمران سے ان کا کیا تعلق ہے ؟ مگر میں نے ان سے اتنا ضرور پوچھا کہ عمران خان حکومت میں آئےں تو ظاہر ہے ان کے سبھی اچھے برے کام میرے کالموں کا موضوع بنیں گے۔ 2018ءکے الیکشن کے نتائج کسی حادثے سے کم نہیں تھے ۔ یوں لگا جیسے کالی بلا نے ملک کے عوام کو گھیرے میں لے لیا ہے ۔
وقاص ریاض کی نگران حکومت کے بعد سے معاشی بدحالی کا ایسا جھکڑچلا کہ خاص طور پر میڈیا ڈھیر ہوکر رہ گیا۔ وہ دن اور آج کا دن ان چھ برسوں میں ہزاروں صحافیوں کی طرح میں بھی بے روزگاری کے دن گذار رہا ہوں ۔ بہرحال بات اقبال گجر اور وقاص ریاض سے شروع ہوئی تھی، جن کی تعلق داری کے راز رفتہ رفتہ افشاءہوتے چلے گئے ،اور عوام کو یہ خبریں سننے کو ملیں کہ احسن گجر نے دو شادیاں کررکھی ہیں ۔ ا ن کی دوسری بیگم فرح خان یا فرح شہزادی عمران خان کی نئی بیگم بشریٰ بی بی کے بہت قریب ہیں ۔ اور انہی کے گھر میں اس نئے جوڑے کی شادی خانہ آبادی کی رسم ادا ہوئی ۔ اس سے مجھے پتہ چلا کہ وقاص ریاض مجھے عمران خان کی طرف کیوں کھینچنا چاہتے تھے ، عمران خان تو جیسے ان کے گھر کے ایک فرد معلوم ہوتے تھے ۔
یہاں تک تو سب خیر گذری ، لیکن عمران خان کی حکومت کا دور آگے رینگنے لگا اور پنجاب میں ایک غیرمعروف شخص عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنادیا گیا تو احسن گجر اور فرح خان کے بارے میں نت نئی کہانیاں منظرِ عام پر آنے لگیں ۔ میں بھی ایک باپ ہوں اور اس حیثیت سے جب میں اپنے آپ کو برادرم اقبال گجر کی جگہ پر رکھ کر سوچتا ہوں تو میرا انگ انگ لرز اٹھتا ہے ۔ اللہ سے دعاتو یہ ہے کہ اولاد کی وجہ سے کسی والدین کو کبھی کوئی پریشانی، کوئی دکھ، کوئی صدمہ نہ دیکھنا پڑے۔ خاص طور پر اقبال گجر جیسے شریف النفس باپ کے کرب کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ۔ جب ان کی اولاد اور بہو پر کروڑوں کی دیہاڑیاں لگانے کے الزامات عائد کئے جارہے تھے تو معلوم نہیں کہ میرے بھائی اقبال گجر کس جگرے سے یہ سب کچھ برداشت کرپائے ۔؟
میڈیا کے سوالا ت کی بوچھاڑ سے بچنے کے لئے انہیں کہنا پڑا کہ ان کا تعلق اپنے بیٹے احسن گجر سے کٹ چکا ہے ، وہ اپنی الگ زندگی گذار رہا ہے اور وہ اس کے کسی قول وفعل کے ذمہ دار نہیں ۔میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ اقبال گجر کا رشتہ مذہب سے بہت گہرا ہے ۔ کیونکہ ایک مرتبہ میں نے انہیں اپنی انٹرنیٹ اسلامی لائبریری پراجیکٹ کے کارِ خیرکی سرپرستی کے لئے درخواست کی تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں نے اس لائبریری میںحضرت سید عبدالقادر جیلانی ؒ کی کتاب ”غنیہ الطالبین“ بھی شامل کی ہے؟ میں نے کہا کہ مجھے اردو بازارسے اس کا کوئی اچھا نسخہ نہیں ملا تو اقبال گجر نے مجھے اپنی ذاتی لائبریری سے غنیہ الطالبین کا ایک خوبصورت اور دیدہ زیب لے آﺅٹ والا نسخہ ہدیہ کیا تو اسے میں نے سکین کرکے چند دنوں میں انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کردیا ۔ میں نے پھر سرپرستی کی بات کی تو انہوں نے مجھے اپنے بیٹوں سے ملنے کے لئے کہا ۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں وقاص ریاض صاحب کے ہمراہ مین مارکیٹ گلبرگ کے سامنے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب کے بنگلے کے ساتھ ایک زیرتعمیر عمارت کے دفتر میں پہنچا ۔ میرا خیال ہے کہ وہاں احسن گجر صاحب بھی موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ لاہور میں انکے ایک پلازہ کی بنیادیں ابھی کھڑی نہیں ہوئیں اور گوجرانوالہ میں ان کی ایک رہائشی کالونی کا مسئلہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے ،جس کے درمیان سے ریلوے لائن گذرتی ہے اور ریلوے والے نہ تو انڈر پاس بنانے کی اجازت دیتے ہیں اور نہ اوور ہیڈ برج کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبے سرے چڑھےں اور کاروبار شروع ہو تو وہ ضرور سپانسر کرنے کے بارے میں مثبت قدم اٹھائیں گے ۔ اسکے بعد میری ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی ۔ تاآنکہ عمران دور میں مبینہ الزامات کا سلسلہ چل نکلا۔
عمران حکومت کے خاتمے کو ایک سال سے زائد عرصہ ہوچلا ہے ، لیکن کبھی سننے میں نہیں آیا کہ احسن گجر یا ان کی بیگم فرح کیخلاف کوئی قانونی کارروائی کی گئی ہو؟ تاہم ان کی کردارکشی کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لیتا ۔ ایک باپ کے طور پر اقبال گجر کے دل و دماغ پر جو ہتھوڑے چلتے ہونگے ،ان کا مداوا کون کریگا۔؟
9مئی کے سانحے کے بعد سینکڑوں یا ہزاروں گھروں میں بہن بھائی یا اولادکی وجہ سے ایک ماتم کی سی کیفیت ہے ۔ والدین اپنی جوان اولاد کی کارستانیوں کی وجہ سے اسی کرب سے دوچار ہیں جن کا سامنا برادرم اقبال گجر کو ہے ۔ ان سارے والدین کو جرم بیگناہی کی سزا بھگتنی پڑرہی ہے ۔