خبرنامہ

برطانیہ میں‌ قبل از وقت انتخابات .. کالم اسداللہ غالب

برطانیہ میں‌ قبل از وقت انتخابات .. کالم اسداللہ غالب
برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیا ہے اور پارلیمنٹ تحلیل کر دی ہے، یہ انتخابات آٹھ جون کو ہوں گے۔ اس طرح ایک ماہ کے اندر برطانیہ کے لئے نئی حکومت کا فیصلہ ہو جائے گا۔برطانیہ اور امریکہ میں کوئی سیاسی زلزلہ آتا ہے تو پاکستان جیسے ملک میں بھی لوگ یا تو کسی خوش فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں یا خوف سے تھر تھر کانپنے لگتے ہیں۔
ڈیوڈ کیمرون نے استعفیٰ دیا تو عمران خان کی باچھیں کھل گئیں، اس نے بڑا اعلان کر دیا کہ کیمرون کو اپنے باپ کا نام پانامہ لیکس میں آنے پر مستعفی ہونا پڑا ہے، عمران خان اپنے آپ کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں لیکن عوام کو دھوکہ نہیں دے سکتے، کیمرون کو بریگزٹ کے ریفرنڈم میں شکست کی وجہ سے جانا پڑا اور اس نے اخلاقی طور پر مناسب سمجھا کہ وہ حکومت چھوڑ دے ،اس لئے کہ وہ اپنے ملک کے ووٹروں کو یورپی یونین کے ساتھ رکھنے میںکامیاب نہیں ہو سکا، اس کا یہ بھی مطلب تھا کہ وہ اپنے عوام کے اعتماد سے محروم ہو گیا ہے۔ بعد میں کیمرون نے پارلیمنٹ کی نشست بھی چھوڑ دی۔ اس کی بے دخلی میں پانامہ کا ذرہ بھر کردار نہ تھا،اس لئے عمران خان اپنی نرالی منطق بگھارنے میںکامیاب نہیںہو سکے مگر کیا کیا جائے کہ انسان کی امید کبھی نہیں مرتی ، خاص طور پر عمران خان کہتے ہیں کہ وہ شکست قبول کرنے والے انسان نہیں اور شکست ہو جائے توپھر میدان میں اترآتے ہیں تاکہ کھیل جیت سکیں مگر عمران خان کو کرکٹ کے کھیل اور سیاست کے کھیل میں فرق ملحوظ رکھنا چاہئے، سیاست کے کھیل میں دوبارہ آ پ کو پانچ سال بعد ہی میدان میں اترنے کا موقع میسرا ٓتا ہے مگر عمران خان ہیں کہ دھرنے کے ٹرک کی بتی کے پیچھے مسلسل لگے ہوئے ہیں۔اور اب برطانیہ کی دیکھا دیکھی پاکستان میں بھی قبل ا ز وقت الیکشن کا خواب دیکھ رہے ہیں۔لگتا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف بھی اپنے حریف کو مکمل دھوکے میں مبتلا رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور پوری طرح فارم میں ہیں، جلسوں پہ جلسے کھڑکا رہے ہیں ‘مخالفین کو للکار رہے ہیں اور جلسوں میں شیراور گیدڑ کی اصطلاحیں استعمال ہو رہی ہیں۔مگر واقفان حال سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں الیکشن تو ہوں گے مگر مقررہ وقت پر کیونکہ حکومت کے بجلی کے سارے منصوبے ابھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچے اور ان کے بغیر الیکشن میںجانا اس کے لئے ٹویٹ سے زیادہ زہر قاتل اور نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے، یہ منصوبے مکمل ہو جائیں تو پھر اسے پنجاب کے علاوہ خیبر پی کے اور سندھ میں بھی اکثریت لینے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
اب آیئے یہ دیکھتے ہیں کہ برطانیہ کو قبل از وقت الیکشن کی حاجت کیوںمحسوس ہوئی، ویسے تو حکمران پارٹی چاہے تو الیکشن کا بگل بجا دے مگر بسا اوقات کچھ مجبوریاں بھی لاحق ہو جاتی ہیں اور بعض چیلنجز اس طرح کے در پیش ہوتے ہیں کہ ان سے نبرد آزما ہونے کے لئے حکومت عوام سے دوبارہ اعتماد حاصل کرنا ضروری سمجھتی ہے۔ عام حالات میں برطانوی وزیر اعظم کو قبل از وقت پارلیمنٹ توڑنے کااختیار نہیں ہے لیکن دو تہائی اکثریت سے وہ یہ فیصلہ کر سکتا یاسکتی ہے۔ تھریسا مے نے قبل از وقت الیکشن کروانے اور پارلیمنٹ توڑنے کی قرارداد پیش کی تو ایوان نے دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت کے ساتھ اسے منظور کیا، کم و بیش ہر پارٹی نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔اس طرح تھریسا مے نے قواعد کی کہیں خلاف ورزی نہیں کی، نہ اپنی مرضی کسی پر مسلط کی۔
قبل از وقت الیکشن کیوں، یہ بہت گہرا سوال ہے۔ تھریسا مے کا خیال ہے کہ یورپی یونین سے ناطہ توڑنے کے لئے جو مذاکرات شروع ہونے و الے ہیں، ان میں وہ مضبوط پوزیشن کے ساتھ حصہ لینے سے قاصر ہے کیونکہ خود اس کی پارٹی میںبھی اختلافات ابھر رہے ہیں،اپنی پوزیشن مضبوط بنانے اور اگلے ایوان میں زیادہ نشستیں حاصل ہونے کی آس میں تھریسامے نے سوچ سمجھ کر جوا کھیلا ہے۔
یورپی یونین سے نکلنے کا ریفرنڈم برطانیہ کی حکمران پارٹی ہار گئی لیکن اب اس کے کندھوں پر ایک ایسا بوجھ آن پڑا ہے جسے اٹھانا اس کی مجبوری ہے ، وہ ایک ایسا ا قدام پایہ تکمیل کو پہنچانے کی پابند ہے جس کے لئے وہ دلی طور پر تیار نہیں لیکن عوام کے فیصلے کو رو بہ عمل آنا ہے اورا س کے راستے میں کوئی دیوار کھڑی نہیں کر سکتا۔مبصرین کا کہنا ہے کہ نئے الیکشن سے قطعی یہ امید نہ لگائیں کہ اس سے ریفرنڈم کے نتائج الٹ سکتے ہیں، بس زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ حکمران پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہو گی اور وہ آزادی کے ساتھ یورپی یونین کے باقی ستائیس ممالک سے معاملات طے کرنے کی پوزیشن میںہو گی، گویا ایک ذرا سی کمزوری کودور کرنے کے لئے قبل ا ز وقت الیکشن کا کھڑاک کیا گیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی کا مسئلہ بھی چل رہا ہے جس میں اگرچہ فیصلہ آ چکا ہے مگر اس فیصلے کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں، حکومت کو ان کا بھی سد باب کرنا ہے۔
الیکشن کا انعقاد تھریسا مے کے وزیرا عظم ہوتے ہوئے کیا جائے گا، مگر کسی نے وہاں یہ مطالبہ نہیں کیا کہ کوئی غیر جانبدار یا نگران حکومت بنائی جائے، پاکستان میں نگران حکومتوں کے لئے واشنگٹن سے وزیر اعظم امپورٹ کئے گئے مگر برطانیہ ایک مہذب ملک ہے، اسے نہ تو امپورٹڈ آئٹم درکار ہے ، اور نہ نگرانوں کے نام پر کوئی ایسی حکومت جو انجنیئرڈ نتائج مرتب کرے۔وہاں ہمارے پرانے زمانے کی ایسی کوئی آ ئی ا یس آئی بھی نہیں جو اپنے پیارے اور لاڈلے سیاستدانوں کو جتوانے کے لئے بھاری رقوم فراہم کرے۔ یہ لاڈ صرف پاکستان جیسے ملک میں ممکن ہے۔
اس وقت برطانیہ کے پڑوس فرانس میں بھی الیکشن کا رن پڑا ہے ۔ پہلے رائونڈ میں کسی کو اکیاون فی صد ووٹ نہیں پڑے، دوسرے رائونڈ کا بخار چڑھا ہوا ہے اور وہی کچھ ہو رہا ہے جو امریکی الیکشن میں ٹرمپ اور ہیلری کے مابین ہوا، پتہ نہیں دنیا میں جمہوریت کے مائی باپ جمہوری اصولوں کو پامال کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔