خبرنامہ

برقع پوش سکیور یٹی پالیسی

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

برقع پوش سکیور یٹی پالیسی

وزیراعظم کو تربیلا جانے کی جلدی تھی، ان کے لیئے سکیورٹی پالیسی کی کوئی اہمیت ہوتی تو وہ تر بیلہ کا فیتہ چند گھنٹے بعد بھی کاٹ سکتے تھے۔ وزیر داخلہ نے سکیور یٹی پالیسی پر پالیسی تقریرکی، انہوں نے بتایا کہ اس کے تین حصے ہیں جن میں سے ایک حصہ خفیہ ہے، باقی دو حصوں میں کیا ہے، یہ بھی فی الحال خفیہ ہیں۔ اسپیکر نے کہا ہے کہ پالیسی پرنٹ ہورہی ہے۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ یہ پالیسی ابہام کا شکار ہے حکومت کا فرض ہے کہ اس پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت کسی ابہام کا شکار نہیں، البتہ وزیر داخلہ کی تقریر سے کوئی ابہام پیدا ہوا ہے تو اسے مشاورت سے دور کیا جائے گا۔ وزیر داخلہ نے میڈیا کے سامنے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے پالیسی پر نظر ڈالے بغیر تنقید کر دی، وہ خود ابہام کا شکار ہیں اور انہی کے دور میں دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوا۔
یہ پالیسی کسی کو دی نہیں گئی تو اس پرنظر کیسے ڈالی جاسکتی تھی، وزیر داخلہ نے یہ ابہام دورنہیں کیا۔ حکومت نے ایک پالیسی بنائی، اسے کابینہ سے منظور کروا کرقومی اسمبلی میں اس کا اعلان کردیا۔
پچھلے سال صدر اوبامہ نے ڈرون پالیسی کا اعلان کیا، ان کی تقریر سے پہلے اس کا مسودہ حکومتی ویب سائٹ پر موجودتھا، مجھے یاد ہے جب اوبامہ نے پہلا حلف لیا تو میں ایکسپریس ٹی وی میں کام کر رہا تھا، ابھی اوبامہ نے حلف لیا نہیں تھا مگر میں نے اس تقریرکونیٹ سے اتار کر اردو میں ترجمہ کیا اور ٹی وی ناظرین کے سامنے پیش کر دیا۔ اس میں میرا کوئی کمال نہیں، جمہوریت اور ٹیکنالوجی کا کمال تھا۔
ہماری جمہوریت میں اندھیرے میں رکھتی ہے۔
کیا کسی کوعلم ہے کہ حکومت کی سکیور یٹی پالیسی کیا ہے، اور اس فقرے کا مطلب کیا ہے کہ مذاکرات اور آپریشن ساتھ ساتھ چلیں گے۔ مذاکرات کرنے والی کمیٹیاں تو کئی ہفتوں سے خاموش ہیں تو کیا اب دو ہزار وزنی بم اورباوئزر المعروف رانی توپوں کے گولوں کی زبان میں مذاکرات کئے جارہے ہیں۔
محبت گولیوں سے بورہے ہو۔
عمران خان تو اب بھی کہتا ہے کہ ہم امریکی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس کے سر پر امریکی جنگ کا ہوا بری طرح سوار ہے، جب سے مغرب کے ساتھ اس کی طلاق واقع ہوئی ہے، اسے شاید مغرب سے بیر ہو گیا ہے۔
وزیر داخلہ کی زبانی پتا چلا کہ ہمارے ملک میں چھبیس انٹیلی جنس ادارے ہیں۔ وزیر داخلہ نے یہ نہیں بتایا کہ ملک میں ہسپتال کتنے ہیں، اسکول، کالج کتنے ہیں بجلی بنانے اور تقسیم کرنے والے ادارے کتنے ہیں اور حکومت کرنے والے افراد کی تعداد کیا ہے اور ان سب کی کارگزاری کیا ہے۔ کیا حکومت کا کوئی ارادہ ہے کہ وہ تمام ہسپتالوں، اسکولوں،کالجوں وغیرہ کو ایک اتھارٹی کے نیچے لائے۔ اگر نہیں تو حکومت یہ خیال دل سے نکال دے کہ وہ زرداری کی طرح آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت لا کر لگام دے سکتی ہے یا ملٹری انٹیلی جنس کی رپورٹیں وزیروں کی میز پرگھمائی جاسکتی ہیں۔
اور ذکر پر سکیورٹی پالیسی کا۔ ن لیگ کی حکومت ہے، فیصلے اس نے کرنے ہیں، زیادہ سے زیادہ پارلیمنٹ اور کابینہ کی مشاورت سے مگر اس نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیئے فیصلہ آل پارٹیز کانفرنس میں بیٹھ کر کیا۔ یہ آئین سے بالاتر اقدام تھا۔ اور جب امن مذاکرات کے لئے کمیٹی بنائی گئی تو یہ بھی سراسر پارلیمنٹ سے باہر کے افراد پرمشتمل۔ اسے گورننس، ڈپلومیسی اور جنگ یا امن میں سے کسی شعبے کا تجربہ نہ تھا۔ دہشت گردوں نے کمیٹی کو مذاکرات میں مصروف رکھا اور خود جی بھر کے خونریزی کی۔ عوام کے صبرکاپیمانہ اس وقت اچھلا جب کراچی میں کمانڈوز کو بھک سے اڑا دیا گیا اور افغانستان میں ایف سی کے دو درجن اہل کاروں کے گلوں پر چھری پھیر دی گئی، ان کی لاشیں ٹرکوں سے اس طرح پھینکی گئیں جیسے کارپوریشن کے ٹرکوں سے کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے۔ میں نے ہمیشہ یوٹیوب کے کھلنے کی مخالفت کی ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ حکومت چند گھنٹوں کے لیئے یو ٹیوب سے پابندی ہٹائے تا کہ لوگ دہشت گردوں کی سفاکی، بر بریت، ہلاکو خانی اور چنگیزیت کا نظارہ کرسکیں۔ میں نے کرنل امام کی شہادت کی وڈیوفلم دیکھی اور میری راتوں کی نیند اڑ گئی، میں نے ایک درجن سکیوریٹی قیدیوں کو ایک قطار میں کھڑا کر کے ان کے ہاتھ باندھ کر، پشت سے ان کو گولیاں مارنے کا منظر دیکھا ہے اور میرے دل و دماغ پر وحشت طاری ہوگئی ہے۔ شاید ایسے منظر جہنم میں بھی دیکھنے کو ملیں۔ میں نے چند روز پہلے کوہاٹ میں خونر یز ی کی بھیانک تصویریں دیکھی ہیں، میں خدا کے واسطے اپیل کرتا ہوں کہ ہمارے نوجوان اپنے موبائل فونوں کا استعمال روکیں اور ایسے مناظر انٹرنیٹ پر نہ ڈالیں معصوم بچے ان کو دیکھ کرچیخیں مارنے لگتے ہیں۔ ایک کتاب بڑی مشہور ہوئی تھی کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا لیکن یہاں تو مرنے سے پہلے جو دیکھنے کومل رہا ہے، اللہ اس سے بچائے۔ حکومت نے ضرور کوئی پالیسی بنائی ہوگی، اسے کئی پردوں میں بھی لپیٹنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس برقع پوش پالیسی کی منظوری دیتے ہوئے شاید ہی کابینہ کے ارکان نے اسے پڑھا ہو۔ ایک مرتبہ جنرل مشرف نے ایڈ یٹروں کو مدعو کیا، وہ دہشت گردی کی نئی پالیسی کے خدوخال وضع کرنا چاہتے تھے، ہم سب کا خیال تھا کہ جنرل صاحب ہم سے مشاورت کے بعد کوئی پالیسی بنائیں گے لیکن اس وقت ہرکوئی حیران رہ گیا جب مشرف نے کہا کہ اس پالیسی کی کابینہ نے منظوری دے دی ہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی کلمات کہنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، ایک دم کہہ اٹھے کہ جب پالیسی بناکرمنظور بھی کر لی تو ہم لوگوں کو کیوں بلالیا گیا۔ آج کسی جرنیل کی حکومت نہیں، تیسری مرتبہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم سریر آرائے سلطنت ہیں مگر کیا انہوں نے بھی وہی کیا ہے جو ایک آمر نے کیا تھا، پالیسی بھی بنالی، کابینہ سے منظوری بھی لے لی اور قوم کولولی پاپ دے رہے ہیں کہ آپ کے مشوروں سے اس کا ابہام دور کیا جائے گا مگر مشاورت کیسے ہوگی، پالیسی کا کوئی ایک نکتہ تک باہرنہیں آیا۔
جنرل مشرف پھر بھی اچھا تھا، اس نے اپنی پالیسی کا ایک نکتہ بتادیاتھاکہ کشمیر کی جنگ آزادی اب جاری نہیں ر ہ سکتی دنیا اس کو دہشت گردی سمجھتی ہے۔
اب دہشت گردوں کے ساتھ کھلی ہمدردی کا اظہار کرنے میں کسی کو ہچکچاہٹ نہیں۔ کیا یہی ہے نئی سکیور یٹی پالیسی۔
میں نے سکیورٹی پالیسی کا برقع سرکا کر اندر جھانکا ہے۔ پہلے خفیہ حصے میں کرکٹ ڈپلومیسی کی تفصیل ہے۔ اور بال ٹمپرنگ کے سارے طریقے، مزے مزے کے۔ (28 فروری 2014ء)