خبرنامہ

پاکستان دار الفساد نہیں، آ پریشن کا نام بدلا جائے۔۔اسداللہ غالب

بسم اللہ..پوری قوم سے ایک بھول ہو گئی، ہم نے نئے آپریشن کا نام ردالفساد رکھ کر یہ تسلیم کر لیا کہ پاکستان خدا نخواستہ دار الفساد ہے۔
میں نے یہ بات کسی شررات یا پھبتی کے موڈ میں نہیں کی، انتہائی سنجیدگی سے عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ ہمیں اس آپریشن کا نام بلاتاخیر تبدیل کر دینا چاہئے تاکہ دنیا کے سامنے یہ تاثر نہ جائے کہ وہ جو ہم پہ الزام لگتا تھا کہ ہم ام الفساد اور دہشت گردی کی جڑ ہیں، اسے ہم نے قبول کر لیا ہے اور سچ مان لیا ہے۔
پاکستان در حقیقت دارلاسلام ہے۔ اس کے دارالحکومت کا نام اسلام آباد ہے یعنی امن و سلامتی کا مرکز۔
ہم تو الٹادہشت گردی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ایک کرکٹ میچ کروانے کے لئے ہم نے اپنے آرمی چیف اور چھ لاکھ فوج تک کو الجھا لیا ہے ا ور عمران خان کو یہ فقرہ چست کرنے کا موقع مل گیا ہے کہ کرفیو لگا کر توعراق اور شام میں بھی کرکٹ میچ کروایا جا سکتا ہے۔ان دنوں لاہور میں قلعہ بندیاں دیکھ کر مجھے تو شرم آتی ہے کہ ایک کرکٹ میچ کروانے کے لئے ہمیں سیکورٹی کے لا تعداد حصار کھڑے کرنے پڑے ہیں۔اس منظر کو دیکھ کر کون ہے جو پاکستان کی سیاحت کے لئے آئے گا، بیرونی سرمایہ کاری تو دور کی بات ہے، چین بھی جو سی پیک کے نام پر سرمایہ کاری کر ر ہاہے ، اس کی حفاظت کے لئے ہم نے ایک ڈویژن نئی فوج کھڑی کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے ا ور یہ بھی پڑھنے کو ملا کہ ضرورت پڑنے پر ایک مزید ڈویژن کھڑا کیا جاسکتا ہے۔
ہمیں از خود یہ نہیں ماننا چاہئے کہ ہم بدی کی جڑ ہیں، حافظ محمد سعید کو نظر بند کر کے بھی ہم نے یہی گناہ کیا ہے کہ ہمارے ہاں گناہ گار موجود ہیں، بالفرض کوئی گناہگار ہے بھی تو اس کا شفاف ٹرائل کیا جائے، ساری دنیا کے سامنے کیا جائے۔ جیسے پانامہ کا ہوا ہے، ایک بار نہیں دو بار۔ صرف بھارتی پروپیگنڈے یا کسی رکن اسمبلی کے یہ کہنے پر تو اسے نظر بند نہ کر دیا جائے کہ کیا حافظ سعید سونے کے انڈے دیتے ہیں جو ہم نے انہیں پال رکھا ہے۔اب ٹرمپ نے کہا ہے کہ پاکستان امریکہ کے لئے دشمن نمبر چھ ہے، پینسٹھ کی لڑائی میں بھارت ہمیں دشمن نمبر ایک سمجھتا تھا، اکہتر میں اس نے ہمیں دو لخت کر کے اس قابل نہ چھوڑا کہ ہم ا سکی طرف بری نظر سے دیکھ سکیں۔ پھر ہم نے اپنے آپ کو محفوظ بنانے کے لئے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ڈالی ا ور ایک دنیا ہماری بیری ہو گئی۔بھارت نے چوہتر میں پہلاا یٹمی دھماکہ کیا مگر اس پر دنیا نے وہ پابندیاں عائد نہ کیں جن کا نشانہ بعد میں پاکستان کو بنایا گیا۔بھارت کے بم کو کسی نے ہندو بم بھی نہیں کہا جبکہ پاکستان کے بم کو ہر ایک نے اسلامی بم کہا ، کیا ہم نے اس تہمت پر بم بنانے کا خیال ترک کر دیا، ہر گز نہیں، دفا ع کو یقینی بنانا ہمارا حق تھا اور ہم نے یہ حق استعما ل کیا۔ بھارت نے اٹھانوے میں پھر ایٹمی دھماکوں میں پہل کی، ہمیں جوابی دھماکوں سے روکا گیا، ہمارے ہاں ایک ایسی لابی تھی جو جوابی دھماکے کرنے کی مخالف تھی، ویسی ہی مخالف جیسی مخالف دنیا تھی، مجھے تویہ پتہ نہیں چلتا کہ ہمارے بعض عناصر کے نظریات ہمارے دشمنوں کے نظریات اور خیالات سے کیسے میل کھا جاتے ہیں۔ہمارے ایٹمی پروگرام کے وہ بھی فیشنی مخالف ہیں جن کے لیڈر بھٹو نے کہا تھا کہ ایٹم بم بنائیں گے ، گھاس پھونس کھا کر بھی بنائیں گے۔اب اس لیڈر کے حواری فیشن میں اعتراض کرتے ہیں کہ ہم نے قومی وسائل ایٹم بم پر ضائع کر دیئے اور عوام بھوک ، افلاس، بیماری اور ااندھیروں کا شکار ہو کر رہ گئے۔ان عناصر کو بھارت پر یہ اعتراض نہیں، گویا وہ چاہتے ہیں کہ ہم ایٹمی اسلحہ نہ بناتے اور سکم، بھوٹان کی طرح بھارت کے زیر نگیں بن کر زندگی بسر کرتے۔یا دلت بن جاتے۔
ہماری ایک نفسیات یہ ہے کہ بھارت کو خوفزدہ رکھیں، اس پس منظر میں ہم نے اپنے میزائلوں کے نام بھارت پر کامیاب حملے کرنے والے افغانوں کے نام پہ رکھے ہیں ان میں غوری، ابدالی ا ور غزنوی شامل ہیں۔ویسے تو بندہ داد دیتا ہے اس شخص کو جسے یہ نام سوجھے ہیں مگر افغانوں کو ان ناموں پر سخت اعتراض ہے اور حامد کرزئی نے تو مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان ان میزائلوں کے نام تبدیل کرے۔ مگر میں شرط لگاتا ہوں کہ حامد کرزئی کو آج بھی یہ کہنے کی ہمت نہیں ہے کہ غوری، غزنو ی ا ور ابدالی اس کے ہیرو ہیں ، ممکن ہے اسے پرتھوی اور رنجیت سنگھ بطور ہیرو قبول ہوں گے ۔ ابداکی ، غوری ، غزنوی کی وجہ شہرت بھارت کو تہس نہس کرنے کی ہے اور حامد کرزئی انہیں افغان ہیرو کہہ کر بھارت سے ملنے والا وظیفہ بند نہیں کروا سکتا۔اگر ہمارے دفاعی اسلحہ ساز اسلامی تاریخ کی ورق گردانی کریں تو انہیں کئی ایسے نام مل جائیں گے جن سے صرف بھارت نہیں ، ایک دنیا تھر تھر کانپتی ہے، محمد بن قاسم نے بھارت میں اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی، صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کے دانت کھٹے کئے، طارق بن زیاد نے یورپ میں مسلم سلطنت کی بنیاد رکھی، خالد بن ولید نے معلوم دنیا کو اسلامی سلطنت میں شامل کیا۔ اس ہیرو کے نام پر صرف ایک ٹینک کو موسوم کر کے ہم ان کو خراج عقیدت ہیش نہیں کر سکتے۔ اگر ہم صرف بدر کے شہیدوں اور غازیوں کے ناموں تک ہی محدود رہیں تو تین سو تیرہ ا قسام کے اسلحے کے نام ہمیں دستیاب ہو سکتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے خون سے مسلم سلطنت کے خلاف پہلی یلغار کو روکا۔اس وقت روکا جب نہ گھوڑے میسر تھے، نہ اونٹ، نہ ڈھال، نہ تیر ، نہ تلوار اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسلامی لشکر کے علم بردار کاایک ہاتھ کٹ گیا، اس نے دوسرے ہاتھ سے علم بلند کر دیا، پھر دشمن نے ان کا دوسرا ہاتھ بھی شہید کر دیا اوراس مرد جری نے لشکر اسلام کو یہ پیغام دینے کے لئے کہ ان کا سپاہ سالار میدان جنگ میں قیادت کے لئے موجود ہے اور شجاعت کے جوہر دکھا رہا ہے، اپنے دانتوں کی گرفت سے علم بلندکئے رکھا، ہم اس ہیرو کو کیسیے بھول سکتے ہیں ۔
نام میں کیا رکھا ہے، یہ شیکسپیئر نے کہا تھا۔ گلاب کو جس نام سے بھی پکارو، وہ خوشبو تو دے گا۔ مگر نام کی اپنی ایک ہیبت ہے، اللہ اکبر اور علی حیدر کا نعرہ خون کو گرما دیتا ہے اور حریف کے چھکے چھڑا دیتا ہے مگر ناموں میں جدت طرازی کا شوق اس قدر بھی نہیں بڑھ جانا چاہئے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ردا لفساد کے نام سے لڑنے کا اعلان کر دیں، یہ نام جس کسی نے بھی رکھا،ا س نے اپمی علمیت تو ثابت کر دی مگر یہ نہ سوچا کہ اس نام کے ساتھ تو ہم یہ مان رہے ہیں کہ پاکستان میں ہر سو فساد برپا ہے اور اب اس پر قابو پانے کے لئے فوج اور رینجرز کو میدان میں اترنا پڑا ہے۔یقینی طور پر ہماری تمام سیکورٹی فورسز کے جذبے لائق تعریف اور قابل ستائش ہیں مگر ذرا یہ احتیاط تو برت لی جائے کہ ہم کس نعرے کے ساتھ میدان میں اتر رہے ہیں اور کیا ہم یہ تاثر یو نہیں دے رہے کہ بھارت اٹھتے بیٹھتے اور امریکہ ہر سانس کے ساتھ ہمیں دہشت گردی کا منبع و مرکز قرار دے رہا ہے، اسے تو غیرا اردای طور پر تسلیم نہیں کر رہے۔چرچل کو جنگ کا شوق لاحق تھا، ا سنے محکمہ دفاع کانام بدل کر محکمہ جنگ رکھ دیا، اس نے قوم سے کہا کہ میں تمپہیں لڑنے کا نہیں مرنے کا حکم دیتا ہوں۔ساری دنیا میں حرب و ضرب کے لئے محکمہ دفاع کانام استعمال کیا جاتا ہے، اسلام نے جنگ اور دفاع کے بجائے جہاد کا لفظ استعمال کیا۔اس لفظ سے جدو جہد کی خوشبو آتی ہے، مارکٹائی اور قتل و غارت گری کی نہیں ، جنگ و جدل کی نہیں۔ او ریہ جہاد زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہے۔ موٹرویز بنائیں یا اورنج ٹرین چلائیں ، یہ معاشی، مواصلاتی جہاد ہے، زندگی میں آگے نکلنے کا جذبہ۔نیکی میں پیش پیش رہنے کاجذبہ۔
کیا ہمارے اربا ب اختیار،ردا لفساد کی اصطلاح پر نظر ثانی فرمائیں گے، کیا وہ کوئی ایسا نام استعمال کر سکتے ہیں جس میں قیام امن کی خواہش سامنے آئے نہ کہ پاکستان فتنہ و فساد کا مرکز و منبع، جیسا کہ ساری دنیا کا الزام ہے۔یہ الزام غلط ہے، تہمت ہے، ہمیں تو ساری دنیا نے دہشت گردی کا ٹارگٹ بنا رکھا ہے، اس وسیع تر جنگ سے لڑنے اور نبٹنے کے لئے بھی ہمیں اپنے آپریشن کا نام بدلنے کی ضرورت ہے۔
دہشت گرد پاکستان میں باہر سے آتے ہیں اور ہر ملک سے آتے ہیں۔ ان کے خلاف وسیع تر آپریشن شروع کیا گیا ہے،اس کے نام کو بھی اس کی وسعت کااحاطہ کرنا چاہپئے۔