خبرنامہ

بقا اور فنا کے درمیان

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

بقا اور فنا کے درمیان

جالوجالو! آگن جالو! نئی نسل اس نعرے کا مطلب نہیں جانتے مگر ان دنوں ہمارے کئی ٹی وی یہی نعرہ بلند کر رہے ہیں۔
کئی عشرے پیچھے کی طرف جست لگا کر ہم ستر اور اکہتر کے شکنجے میں ہیں۔ ان دنوں مشرقی پاکستان کا میڈیا پاک فوج اور مغربی پاکستان کے ظلم کی داستانیں بیان کر کے مشرقی صوبے کے لوگوں کے ذہنوں میں زہر بھر رہا تھا۔ اس کی پشت پر بھارتی میڈیا بھی چستی سے کھڑا تھا اور دنیا بھر کے اخبارات اور ریڈیو سٹیشن بھی پاکستان کے خلاف زہر اگل رہے تھے۔
آج ہم اس معاملے میں خودکفیل ہیں۔ ساری مہارت ہم حاصل کر چکے، ہاں، اغیار ہماری اس کیفیت پر بھنگڑے ڈالنے کے لئے آزاد ہیں۔ اب بی بی سی، وائس آف امریکہ، ڈوئچے ویلے اور آکاش وانی کی ہمیں حاجت نہیں رہی۔ ہم اپنا کریا کرم خود کر سکتے ہیں۔
نئی دہلی میں ایک جشن کا سماں ہے۔ ہم اپنی آئی ایس آئی اور ساتھ ساتھ فوج کی طبیعت صاف کرنے میں مصروف ہیں۔ ہماری بحر یہ تو خشکی پر کوئی کاروائی کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی، پھر بھی ہم نے اس سے درگزر نہیں کیا۔ لاہور میں ایک نیول کا لج موجود ہے، اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور کراچی میں ایک اڈے پر بحریہ کے جاسوس جہاز اورین کھڑے تھے، ہم نے ان پر بھی دھاوا بول دیا تھا۔ پی اے ایف کے جہاز قبائلی علاقوں میں بمباری کرتے ہیں، اس جرم میں کامرہ کو دو مرتبہ نشانہ بنایا گیا۔ اور آخری کوشش میں اواکس طیارے کو تباہ کیا گیا۔ بحریہ کے اورین اور فضائیہ کے اواکس کا دہشت گردی کی جنگ میں کوئی کردار نہیں لیکن یہ ملک کے دفاع کے لیئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، بھارتی اڈوں سے اڑنے والے ہر جہاز کو ساڑھے چار سو کلو میٹر دور سے دیکھ سکتے ہیں، اس لئے ان کے پرخچے اڑانے ضروری تھے۔ مسلح افواج کے مورال پرمگدر چلانے کا عمل بھی ساتھ ساتھ جاری رہا۔کبھی لاہور میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ کبھی پنڈی میں جی ایچ کیو کا محاصرہ بھی کسی جرنیل کی شہادت اور کبھی درجنوں اہل کاروں کو ایک قطار میں گولی سے اڑانے کا مشغلہ اور ان کی گردنیں کاٹ کر فٹ بال کے گیند کے طور پر ان کا استعمال عوام کو جب بھی نشانہ بنایا گیا تو صرف اس لیئے کہ کسی کو پتانہ چل سکے کہ اصل ٹارگٹ کون ہے۔ عوام تو گیہوں کے ساتھ گھن کی طرح پس گئے۔
اب اصل کھیل سامنے آ گیا ہے۔ فائنل کی سیٹی بجا دی گئی ہے۔ دن رات فوج کے خلاف پروپیگنڈا جاری ہے۔ کبھی آزادی اظہار کے نام پر کبھی لا پتا افراد کے نام پر کبھی عدلیہ کی آزادی کے نام پر کبھی مطلق جمہوریت کے نام پر کبھی شہری آزادیوں کے نام پر یہ سب کچھ ہونا چاہئے تھا مگر اس سے پہلے ہمیں امریکی نیٹو اور بھارتی افواج کے ظلم وستم کا پردہ تو چاک کرنا چاہئے تھا۔ میں سلام کرتا اپنے میڈیا کو اگر اس نے روزانہ چوبیس گھٹنے کے ٹاک شوز کشمیریوں کی ابتلا پر مرکوز کیے ہوتے، میں اپنا قلم اپنے نوخیز میڈیا کے سامنے سرینڈر کر چکا ہوتا اگر اس نے بھارت کے طول وعرض میں بھارتی افواج کی بربریت کو ایک لمحے کے لیے بھی موضوع بحث بنایا ہوتا۔ میں ان مہا کلا کاروں کے سر پر دستار فضیلت رکھتا اگر انہوں نے ثابت کیا ہوتا کہ سمجھوتہ ایکسپریس کو آگ بھارتی فوج کے حاضر سروں کرنل نے لگائی۔ ہمارے میڈیا والے روزانہ وا بگہ کے پار جاتے ہیں، کاش! انہوں نے بابری مسجد کے کھنڈرات پر بھی دونوافل ادا کیئے ہوتے۔ وہ لاہور میں بھگت سنگھ کی یادگار پرتو مشعلیں جلاتے ہیں، کیا انہوں نے دہلی کی شاہی مسجد کی سیڑھیوں پر بھی کوئی موم بتی روشن کی۔
وہ زمانہ لد گیا جب لاہور مال روڈ پر ادیبوں، شاعروں کے جلوس کے آگے صفدر میرا پنی گھن گرج آواز میں یہ رزم نامہ پڑھتا تھا کہ میں پھر جلایا جاؤں، میں پھر شہید ہوں، میں پھر جلایا جاؤں، میں پھر شہید ہوں۔ اور ریڈیو اور ٹی وی پرنور جہاں کی آواز گونجتی تھی کہ میر یا ڈھول سپاہیا۔ تینوں رب دیاں رکھاں۔
اورآج ڈھول سپاہی کو ہر ایک نے طعنوں کے تیروں کی زد میں رکھا ہوا ہے۔
یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا، اس کی بعض جائز وجوہات ہیں، فوج اس ملک میں حکمران رہی، جو کہ نہیں ہونا چاہئے تھا لیکن بھٹو کی حکومت ٹوٹنے اور فوج کی حکومت بننے پر پی این اے نے حلوے بانٹے، پی این اے میں کون نہیں تھا، اے این پی، مسلم لیگ، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام فنکشنل لیگ، پی ڈی پی اور ہر کوئی۔ نواز شریف کا تختہ الٹا تو لاہور کی بیڈن روڈ پر لڈو بانٹے گئے۔ بھٹو اور نواز کی حکومت میں کوئی تو خرابی ایسی تھی جس سے نجات ملنے پرگھی کے چراغ جلائے گئے۔ اور محترمہ بے نظیر اور نواز کی محاذ آرائی نے کیا گل نہیں کھلائے، الزامات، تمہتیں، طعنے، مقدے نیب ریفرنس۔
مگر ساراغضب فوج پر۔ بارہ برس سے دہشت گردوں نے اسے الجھارکھا ہے، امریکی اور نیٹو فوجوں نے اسے تگنی کا ناچ نچایا۔ بھارت نے علیحدگی پسندوں کی پیٹھ ٹھونکی۔ زرداری دور میں اس جنگ کو ہماری جنگ کہا گیا فوج کو قدرے اطمینان رہا مگر اب ایک دم امن کو موقع دینے کے نام پر سارے اکٹھے ہو گئے ہیں، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، تحریک انصاف، جے یوآئی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اورکس کس کا نام لوں، سبھی نے آل پارٹیز کانفرنس میں کہا کہ امن کو موقع دیا جائے، فوج دیکھتی رہ گئی، اس کے لوگ بارہ سال سے مر رہے تھے اب بھی مرتے رہے۔ پھرمشرف کا مقدمہ چلا اور حکومتی لشکر مشرف کی آڑ میں فوج پر پل پڑا۔ فوج کا کوئی قصور تھا تو وزیراعظم، آرمی چیف کو بلا کر وارننگ دے سکتے تھے مگر میڈیا کی توپوں کے دہانے کھول دیئے گئے، اب کراچی کی واردات نے تو ڈرٹی بموں کی بارش کر دی ہے،فوج جان بچانا بھی چاہے تو اسے کوئی جائے اماں نہیں ملتی، وہ تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف دیکھتی ہے تو سب اپنے نظر آتے ہیں۔
ستر اور اکہتر میں مشرقی پاکستانیوں پر بھارتی پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا، اب بھارتی پیسہ بھی ہے۔ ڈالروں کا ڈھیر بھی ہے، اور خودکش جیکٹوں کا ڈراوا بھی ہے۔ سیاستدان، میڈیا اور دہشت گرد میمنہ قلب اور میسرہ پر مور چہ انداز ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ انہوں نے فوج کا کامیاب گھیراؤ کرلیا ہے مگروہ کیا جانیں کہ ساڑھے چھ عشروں کی ماری نحیف ونزار ریاست کا گلا ان کے شکنجے میں ہے۔ بقا اور فنا کے درمیان کوئی فرق باقی رہ گیا ہو تو مجھے ضرور بتایئے گا۔
(25 اپریل 2014ء)