خبرنامہ

بلوچستان میں بھارت کی برہنگی۔۔۔اسداللہ غالب

ایک چوسنی گروپ کے سیاسی لیڈر نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر بھارت میں کسی مسلمان کو صدر بنایا جا سکتا ہے تو پاکستان میں اقلیتوں کو یہ منصب کیوں نہیں پیش کیا جا سکتا۔
خواہشوں اور سوالوں پر قدغن کون لگا سکتا ہے مگر حضرت بلاول اپنی پارٹی کی سربراہی چھوڑیں ، اپنے باپ زرداری کو بھی ان کے منصب سے الگ کریں اور یہ مثال قائم کر کے دکھائیں کہ سندھ میں جہاں اقلیتوں کی تعداد زیادہ ہے، وہاں سے کسی کو بھی پارٹی کی چیئر مینی پیش کر دی جائے۔ ویسے اس چوسنی لیڈر کے مشیر ا س سے بھی کم عمرا ور شیر خوار ہیں، انہیں معلوم نہیں کہ پاکستان کا وزیر قانون ایک ہندو رہ چکا ہے، وزیر خارجہ قادیانی اقلیت سے لیا گیا اور ایک مسیحی کو چوتھے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز کیا گیا، پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں جہاں ایم ایم عالم کا ڈنکا بجتا ہے، وہیں سیسل چودھری قوم کی آنکھوں کا تارا سمجھا جاتا ہے، پاک فضائیہ کے مسیحی ہیروز کی تعدا د تو درجنوں میں ہے۔ان دنوں پاکستان سنگین نوعیت کی فرقہ واریت کا سامنا کررہاہے مگر بین المذاہب ہم آہنگی میں ہماری اقلیتوں نے قابل فخر کردار ادا کیا ہے۔
یہ قصہ بر سبیل تذکرہ آ گیا ورنہ آج کا اہم تریں اشو بلوچستان سے بھارتی دہشت گرد تنظیم راکے ایک حاضرسروس نیول افسر کی گرفتاری کا ہے۔
ہم ایک عرصے سے سنتے چلے �آ رہے ہیں کہ بلوچستان میں را سرگرم عمل ہے، یہ بھی میڈیا میں آیا کہ قندھار کا قونصل خانہ بلوچ شرپسندوں کو اسلحہ خریدنے کے لئے بھاری مالی امداد دے رہا ہے، ایک سابق صوبائی وزیرا علی تاج جمالی ریکارڈ پر ہیں کہ را نے تخریب کاری کی تربیت کے لئے بلوچستان میں اڈے قائم کر رکھے ہیں۔ اور اب تو ہمارے وزیر اعظم امریکہ گئے تو انہوں نے اقوام متحدہ کو بلوچستان ہی نہیں، پورے پاکستان میں را کی دہشت گردی کے ثبوت فراہم کئے۔ مگر اقوا م متحدہ نے شاید اس رپورٹ کو داخل دفتر کر دیا ہے۔
بھارت میں پتہ بھی کھٹکتا ہے تو بلا سوچے سمجھے اس کا الزام ہماری آئی ایس آئی پر عائد کر دیا جاتا ہے، ساتھ ہی لشکر طیبہ ، جماعت الدعوہ ا ور فلاح انسانیت کو کوسنے دیئے جاتے ہیں، ممبئی حملوں کے الزام میں حافظ محمدسعید نظر بند رہے مگر پاکستان کی کسی عدالت میں ان کے خلاف کوئی ثبوت نہ پیش کیا جا سکا،لشکر طیبہ کے ایک کمانڈر ذکی لکھوی کو طویل عرصہ حراست میں رکھا گیا، اب عدالتیں ان کو رہاکر چکی ہیں مگرعملی طور پر وہ بدستور نظر بند ہیں۔ ان جماعتوں کو بھارتی دباؤ کے تحت امریکہ ا وراقوام متحدہ دہشت گرد قرار دے چکی ہیں۔
مگر تصویر کا اصل رخ یہ ہے کہ بھارت میں مالیگاؤں میں دہشت گردی ہوئی اور بے گناہوں کو نشانہ بنایا گیا، اسی طرح سمجھوتہ ایکسپریس کو راکھ کیا گیا جس میں ساٹھ سے زاید مسافر کوئلہ بن گئے ان میں اکثریت پاکستانی زائرین کی تھی۔آپ یہ سن کر کانوں کو ہاتھ لگا اٹھیں گے کہ مالی گاؤں ا ور سمجھوتہ ایکسپریس کا ایک ہی ملزم تھا جس کا نام کرنل پروہت ہے اور وہ بھارتی فوج کاحاضر سروس افسر ہے، ریل گاڑی میں آگ لگانے ا ور دھماکہ خیز مواد کے صندوق اسی کی مدد سے رکھوائے گئے ا ور ایک جوشی نامی صاحب نے یہ کام کیا جسے بعد میں ٹھکانے لگا دیا گیا، تاکہ کوئی ثبوت باقی نہ رہے، مالی گاؤں کی دہشت گردی کے الزام میں کرنل پروہت پانچ سال تک جیل کی ہوا کھاتے رہے۔اور ایک لطیفہ ا ور سن لیجئے کہ مالی گاؤں کی دہشت گردی کی تحقیقات پر مامور پولیس افسرہیمنت کرکرے کو سب سے پہلے گولیوں سے بھونا گیا۔ لطیفے کی بات یہ ہے کہ ممبئی حملوں کا الزام پھر بھی پاکستان کی آئی ایس آئی اور لشکر طیبہ پر عائد کیا گیا ۔ بھارت نے رعونت سے مطالبہ کیا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کو دہلی بھیجو، بھولے بادشاہ سید یوسف رضا گیلانی کے سر پہ وزارت عظمی کا ہما بیٹھاہو اتھا، انہوں نے آرڈر جاری کر دیا کہ یہ ملزم نئی دہلی جائے اور اپنی صفائی پیش کرے، وہ تو قوم نے راستہ روک لیا۔ یوسف رضا گیلانی کو کبھی دوبارہ وزارت عظمی پر فائز ہونے کا موقع مل جائے تو وہ بھارت سے مطالبہ کر کے دکھائیں کہ وہ سمجھوتہ ایکسپریس اور مالی گاؤں کے مجرم کرنل پروہت کو پاکستان کے حوالے کرے۔پتہ نہیں ا س یوسف رضا گیلانی میں کہاں سے ہمت آ گئی تھی کہ انہوں نے شرم الشیخ میں بھارتی وزیرا عظم من موہن سنگھ سے کہہ ڈالا کہ بھارت بلوچستان میں دہشت گردی بند کرے۔یقین کیجئے جب کبھی پاکستان کا کوئی سویلن منصب دار بھارت کے خلاف زبان کھولتا ہے تو ہمارا�آزاد میڈیا یہ رٹ لگاتا ہے کہ ایسا فوج کے دباؤ کے تحت کیا گیا، یوں لگتا ہے کہ سویلین قیادت کوپاکستان کے مفادات کی اپنے طور پر کوئی پروا نہیں ہے۔
اب بلوچستان میں جس ذات شریف کو گرفتار گیا ہے،ا س کا ٹرائل مزار قائد یا مینار پاکستان کے احاطے میں کیا جاناچاہئے اور ساری کاروائی لائیو نشر کی جانی چاہئے، بہتر ہو گا کہ یہ کیس فوجی عدالت کو ریفر کیا جائے تاکہ دو تین ہفتوں میں راحیل شریف اس شخص کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط ثبت کر سکیں۔سویلین عدالتوں میں تو یہ کیس دو تین نسلوں تک لٹکتا رہے گا۔ لائیو کیمروں کے سامنے یہ طوطا بولے گا اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے سارے پول کھول کر رکھ دے گا۔
پاکستان کے ان عناصر کی آنکھیں کھل جانی چاہیءں جو بھارت کی زبان بولتے ہیں اورا سکے الزامات کودہراتے چلے جاتے ہیں، پاکستان کی نوکر شاہی کو بھی اپنی فدویانہ روش ترک کرنا ہو گی جو پٹھان کوٹ واقعے کی تحقیقات کے لئے بھارت جا ننے کے لئے بے چین ہو رہی ہے ، اسے بھارت جا نا ہی ہے تو سب سے پہلے کرنل پروہت کو ہتھکڑیاں لگائے ا ور وہیں بھارت میں عدالت لگا کر ان سوختہ لاشوں کا حساب لے جو اس ظالم نے سمجھوتہ ایکسپریس کو آگ لگانے والے بموں سے جلا ڈالی تھیں۔کوئی ہے جو ان کے حرماں نصیب لواحقین کو انصاف دلوا سکے، اب تو را طوطا ہاتھ لگ چکا ہے، وہ جو بکے گا، اس کی روشنی میں بھارت کو کٹہرے میں کھڑا کرنا�آسان ہو جائے گا۔