خبرنامہ

بنگلہ دیش کے ایوارڈ کی واپسی..کالم اسداللہ غالب

بنگلہ دیش کے ایوارڈ کی واپسی..کالم اسداللہ غالب

دنیا کا ہر ملک بیرونی شہریوں کو ایوارڈ سے نوازتا ہے۔ اور ہم اس کا تذکرہ بڑے فخر سے کرتے ہیں، خاص طور پر نوبل انعام کا اور دیگر کئی انعامات کا۔ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت نے چند پاکستانیوں کو ایک ایوارڈ دیا۔ اس پر پاکستان میں کچھ حلقوں نے تنقید کی کہ ایک متنازعہ ایوارڈ کیوں قبول کیا گیا۔ متنازعہ اس لئے کہ بنگلہ حکومت نے تاثر یہ دیا تھا کہ یہ ایوارڈ ان لوگوں کے لئے ہے جنہوںنے بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک میںمدد کی۔پاکستان کے لئے یہ تحریک علیحدگی کے مترادف تھی بلکہ اسے بغاوت بھی تصور کیا گیا۔ بنگلہ دیش کی حکومت اگر ان تمام غیر ملکیوں کو یہ ایوارڈ دینا چاہتی جنہوںنے اس کی ا ٓزادی میںمدد کی تو صرف بھارت کے ایک ارب لوگوں کو ایورڈ دیتے دیتے حسینہ واجد کے ہاتھ پاﺅں پھول جاتے کیونکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا ہے کہ ہر بھارتی شہری نے بنگلہ دیش کے آزادی کی تحریک میں حصہ لیا اور ہر ایک کی خواہش تھی کہ بنگلہ دیش آزاد ہو، اسی طرز پر مودی نے اگلی بات یہ کر دی ہے کہ وہ بلوچستان،آزاد کشمیرا ور گلگت کے لوگوں کو بھی ان کے حقوق دلوا کر رہے گا، پاکستان کے مزید ٹکڑے کرنے کی یہ ایک اور دھمکی ہے۔
بنگلہ دیش اگر ایوارڈ دیتے ہوئے یہ اعلان کرتا کہ یہ ان غیر ملکیوں کے لئے ہے جنہوںنے پاک فوج کے آپریشن کی مخالفت کی تھی تو اسے سب سے پہلے جنرل صاحبزادہ یعقوب خان کو یہ ایوراڈ دینا چاہئے تھا جنہوںنے جنرل یحییٰ خان ا ور ان کے کور کمانڈرز کا یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا اور مشرقی کمان چھوڑ کر ڈھاکہ سے پنڈی چلے آئے تھے۔
مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کیوں ہوا، کیااس کاکوئی جواز تھا، جی ہاں ، صرف ایک جواز تھا کہ وہاں کی آبادی کا بڑا حصہ بغاوت پر اتر آیا تھا، ان میں سے کچھ لوگ فرار ہو کر سرحد پار بھارت میں چلے گئے تھے اور وہاں بھارتی فوج سے دہشت گردی کی ٹریننگ لے رہے تھے۔ بس یہی جواز۔ مگر ہم نے بلوچستان میں کئی بار فوجی آپریشن کیا، کیوں کیا اس کی وجوہ آپریشن کرنے والی حکومتیں جانتی ہوں گی، بھٹو نے کیا ، بعد میں ہر حکومت نے کیا، اور اب تک جاری ہے، فوجی ا ٓپریشن ہم نے اپنے کئی اور علاقوںمیں بھی کئے، سوات، مالا کنڈ اور فاٹا، یہاں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے یہ آپریشن ہوئے۔ یہ دہشت گردی سب کو نظر آ رہی تھی ، سوات کے چوک میںروزانہ گلے کاٹے جا رہے تھے۔فوجی آپریشن سندھ کے ڈاکووں کے خلاف بھی ہوا، اور یہ کراچی تک پھیل گیا، جہاں سے ہم نے دعوی کیا کہ ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر سے جناح پور کے نقشے برا ٓمد ہوئے۔ یہ آزاد کراچی کے نقشے تھے۔
کم و بیش ہمارے تمام فوجی آپریشن متنازع ہی رہے ، خاص طور پر جب شمالی وزیرستان میں ضرب عضب شروع کیا گیا۔ اس وقت ایک شور مچ گیا کہ نہیں پہلے مذاکرات کئے جائیں۔ ان مذاکرات کے لئے دو ٹیمیں بھی بن گئیں، دہشت گردوں کی طرف سے بھی مذاکراتی ٹیم کے لئے نامزدگی ہو گئی مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اس دوران میں ایک تلخ بحث یہ شروع ہو گئی کہ کیا دہشت گروںکے خلاف شہید ہونے والے پاک فوجی جوان اور افسر شہید ہیں یا نہیں۔ مولانا فضل الررحمن اورمولانا منور حسن نے انہیں شہید ماننے سے انکار کر دیا، ان کا خیال یہ تھا کہ ہم امریکی جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ دہشت گرد امریکہ کے خلاف نبرد آزما ہیں، ا سلئے وہ شہید ہیں۔اگر پشاور میں ایک اسکول کے ڈیڑھ سو کے قریب بچے دہشت گردی کا شکار نہ ہوتے تو ہم اسی کج بحثی میں الجھے رہتے اور ضرب عضب پر قومی اتفاق رائے نہ ہو سکتا۔
مگر اسی ضرب عضب نے کراچی کا رخ کیا اور پھر سے وہی مسئلہ کہ ایم کیو ایم کو نشا نہ کیوں بنایا گیا، ادھر ایک ا عتراض یہ بھی وارد ہوا کہ اسی طرح کا آپریشن پنجاب میں کیوںنہیں کیا جاتا۔کراچی کے آپریشن پر ایم کیو ایم نے بھی شور ڈالا اور پیپلز پارٹی نے بھی۔ پیپلز پارٹی کو اعتراض کرنے کی سخت سزا بھگتنا پڑی کہ زرداری صاحب کچھ عرصے کے لئے جلا وطن ہو گئے یا کر دیئے گئے۔
فو جی آپریشن کی بات کہاں سے چلی تھی اور کہاں پہنچ گئی۔ مشرقی پاکستان کے فو جی ا ٓپریشن کی حمایت بھٹو صاحب نے سب سے پہلے یہ کہہ کر کی کہ شکر ہے، پاکستان بچ گیا۔ جس جنرل ٹکا خان نے یہ آپریشن کیا، انہیں بھٹو صاحب نے آرمی چیف بھی بنایا، یہی جنرل ٹکاخان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل بھی بنے اور ان کی حکومت میں پنجاب کے گورنر بھی، ا س کا مطلب یہ ہوا کہ پیپلز پارٹی اور بھٹو صاحب اس آپریشن اور اس کو کرنے والوں کو کس قدر عزیز رکھتے تھے مگر فوجی آپریشن کی ساری سزا جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں کو ملی، انہیں حسینہ واجد کی حکومت نے چن چن کر پھانسی پر لٹکایا۔ حسینہ واجد، پاک فوج کے افسروں پر بھی جنگی جرائم کے مقدمے چلانا چاہتی ہے، شاید چلا بھی دے ا ور غیر حاضری میں انہیں سزائیں بھی سنا دی جائیں۔
پاکستان میں کچھ لوگوںنے حسینہ واجد کے ا س فعل پر سخت تنقید کی اورا س سے ایوارڈ وصول کرنے والوں کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان ایوراڈ پانے والوں میں مرحوم وارث میر بھی شامل تھے، ان کے بارے میں کہا گیا کہ انہوںنے فوجی آپریشن کی مخالفت میں لکھا تھا۔ فو جی آپریشن کی مخالفت میں لکھنا یا حمایت میں لکھنا ایک انفرادی فعل ہے ا ور اپنی اپنی سوچ میں ہر شخص آزاد ہے۔ وارث میر جب تک زندہ رہے ، کسی نے انہیںا س سوچ کے اظہار پر تنقید کا نشانہ نہیں بنایا مگر جب ان کے لئے ایوارڈ ان کے بیٹے حامد میر نے وصول کیا تو بہر حال ان پر منفی تنقید ضرور ہوئی۔اس تنقید میں میںنے بھی حصہ ڈالا جس پر حامد میر مجھ سے خفا رہے۔ مگر میں نے ان پر ہمیشہ واضح کیا کہ فو جی آپریشن کی مخالفت اور چیز ہے اور پاکستان توڑنے کی حمائت اور چیز ہے، دونوں میں زمین آسمان کافرق ہے۔یہ حقیقت اپنی جگہ پر مسلمہ ہے کہ یہ فو جی آپریشن پاکستان کودو لخت کرنے کا سبب بنا مگر پاکستان ٹوٹنے کی واحد وجہ یہی آپریشن نہ تھا بلکہ اس کے پیچھے بھارت کی سازشیں صاف نظر آ رہی تھیں ، اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے پہلے ساری دنیا کا چکر لگایا اور اس مذموم فعل کے لئے فضا ہموار کی ا ور مغربی پاکستان کے خلاف زہر اگلا۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ حامد میر کو بھارت اور بنگلہ دیش کے اس گٹھ جوڑ کی سمجھ آ گئی ہے اور انہوں نے وہ ا یوارڈ واپس کرنے کاا علان کر دیا ہے جو ان کے والد مرحوم کو حسینہ واجد نے عطا کیا۔ حامد میر نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ بنگلہ دیش بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے ا ور پاکستان دشمنی میں ملوث ہے۔
میں حامد میر کے اس فیصلے کوسراہتا ہوںاور امید رکھتا ہوں کہ پاکستان کے دوسرے لوگ جنہوںنے یہ ایوارڈ وصول کیا، ان کا ضمیر بھی جاگے گا اور وہ بھارت بنگلہ دیش گٹھ جوڑ کو بھانپ جائیں گے ا ور اپنا اپنا ایوارڈ واپس کر دیں گے۔
پروفیسر وارث میر مرحوم سے میرے انتہائی دوستانہ تعلقات تھے، مجھے ان کے خلاف بعض حلقوں کے متعصبانہ رویئے سے سخت نفرت تھی، ان حلقوں نے پروفیسر صاحب کی زندگی اجیرن بنا کے رکھ دی تھی، میں صاف طور پر سمجھتا تھا کہ یہ لڑائی نظریا ت کے بجائے مفادات پر مبنی ہے۔ پروفیسر صاحب کے سبھی مخالفین بونوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے تھے ۔ کہاں علم و حکمت کا ایک پہاڑ اور کہاں جہالت کے ڈھیر ۔ کوئی مقابلہ ہی نہ تھا ان میں ۔وارث میر صاحب نوائے وقت کے لئے لکھتے رہے اور میں ڈپٹی ایڈیٹر کی حیثیت سے ان کے تمام مضامین خوشدلی سے چھاپتا رہا۔مجھے یاد ہے کہ ایک بار دولتانہ صاحب نے کہا کہ وہ نوائے و قت کے دفتر میں آ کر ایک انٹرویو دینا چاہتے ہیں ، اس پر آمادگی کے لئے میںنے ان کے بیٹے جاوید دولتانہ کو استعما ل کیا جو گورنمنٹ کالج میں چھ برس تک میرے ساتھ پڑھتے رہے۔ میں نے اس انٹرویوکو معتبر بنانے کے لئے اپنے ساتھ پینل میں پروفیسر وارث میر صاحب کو شامل کیا اور اس انٹرویو میں دولتانہ صاحب سے ہم نے یہ اعتراف کروا لیا کہ نوائے وقت کی بندش کے سلسلے میںان کا فیصلہ غلط تھا، دولتانہ صاحب نے اس تاریخی غلطی کے ا زالے لئے معافی بھی مانگی۔
پروفیسر وارث میر ترقی پسندانہ خیالات کے علم بردار تھے۔ میں خود رجعت پسندی کا مخالف ہوں ۔یہی وہ نکتہ ہے جس نے ہم دونوں کوقریب تر کر دیا تھا۔ میں صاف کہتا ہوں کہ پنجاب یونیورسٹی ہی نہیں، اس پورے دور میں پروفیسر وارث میر جیسا بلند پایہ نثر نگار، مفکر اور مصلح اور کوئی نہ تھا۔ شکر ہے کہ ان کے بیٹے نے اپنے والد گرامی جیسی بلند پایہ شخصیت کو متنازع ہونے سے ہمیشہ کے لئے بچا لیا ہے، شکریہ حامد میر!