خبرنامہ

بنگلہ ماڈل کے بعد ترکی ماڈل

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

بنگلہ ماڈل کے بعد ترکی ماڈل

ترکی میں سابق آرمی چیف کو بغاوت کے جرم میں عمر قید کی سزا سنادی گئی ہے۔ ان کے ساتھ سینکڑوں فوجیوں، وکلا اساتذہ حتیٰ کہ صحافیوں کوبھی بغاوت کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔
ترکی کے ایک پروفیسر نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا آج کوئی جانتا ہے کہ سقراط پر مقدمہ چلانے والے پانچ سوججوں کا نام کیا تھا۔ جنھوں نے سابق ترک آرمی چیف کو سزا سنائی ہے، وہ بھی تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو جائیں گے۔ یہ ہے جدید ترکی کا وہ ماڈل جس کی بھونڈی نقل ہمارے ہاں بھی امپورٹ کرنے کا خدشہ ہے۔ فوج اور سول سوسائٹی کا تصادم تیسری دنیا کا ایک نا ختم ہونے والا المیہ بن گیا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ فوج عوام کے لیے نجات دہندہ ٹھہر تی ہے اور پھر دوسرا منظر سامنے آتا ہے۔ یہی فوج کٹہرے میں کھڑی ہوتی ہے۔ پاکستان میں جنرل مشرف پر کتنے مقدمے چل رہے ہیں، کوئی شخص ایک سانس میں نہیں گنواسکتا۔ یہ ر ہاتر کی ماڈل کی فوج کو رگڑا کیسے دینا ہے۔
مگر پہلے بنگلہ ماڈل کی بات ہو جائے۔ اس ضمن میں چار باتیں سامنے آتی ہیں۔ پہلا یہ کہ ایک ملک کی تخلیق کے لیے جدوجہد کی جاتی ہے، دوسرا منظر یہ کہ اس ملک کو توڑا جاتا ہے۔ تیسرا یہ کہ فوج اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ سے جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی پر نہیں چڑھنے دیا جاتا اور چوتھایہ کہ جس پاکستان کے قیام کے لیئے خود بنگالی مسلمانوں نے جدو جہد کی، اس کو توڑنے کی سازش کا توڑ کرنے والی فوج کے حامیوں کو قید و بند کی سزائیں سنائی جاتی ہیں۔ پاکستان میں اس ماڈل کو کاپی پیسٹ کرنے کی کئی بار کوشش کی گئی مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اس لیئے کہ یہاں فوج اور عدلیہ کے درمیان نیا گٹھ جوڑ نہیں ہو سکا۔ یہ گٹھ جوڑ اس وقت تک تو دیکھنے میں آیا جب ا کیلے فوج نے اقتدار پر قبضہ جمالیا تو عدلیہ نے اس کے غیر آئینی اقدام کو سند جواز عطا کر دی مگر اب عدلیہ نے اپنی چین آف کمانڈ الگ تشکیل دے لی ہے۔ پاکستان کے بعض سیاستدانوں کو ترکی کا نیاماڈل بڑادلکش لگتا ہے۔ ترک فوج ایک عرصے تک ملک کی مدار الحمام بنی رہی۔ اب اس کی طاقت کے جن کو بوتل میں بند کرنے کی کوشش ہورہی ہے، سابق آرمی چیف کو سزا اسی کھیل کا حصہ ہے۔ دیکھئے پاکستان میں سابق آرمی چیفس کو سزائیں سنانے کاعمل کب شروع ہوتا ہے، ابھی تو نوبت ٹرائل تک ہی پہنچی ہے۔
فی الحال پہلا مرحلے میں فوج کو سول کے تابع لانے کا منصوبہ ہے۔ سابق دور میں آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا جو اسی عجلت میں واپس لے لیا گیا۔ موجودہ حکومت نے نوٹی فیکیشن جاری کرنے کے بجائے عملی اقدام کیا، وزیراعظم، ایک صوبے کے وزیراعلی اور وفاقی وزیر داخلہ کو ساتھ لئے، آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر جا پہنچے۔ اس بریفنگ کا استحقاق وزیراعظم کو آئینی طور پر حاصل ہے مگر وفاقی وزیرداخلہ اور ایک صوبائی چیف منسٹرکسی لحاظ سے بھی اس ادارے کے معاملات میں دخیل نہیں ہو سکتے۔
موجودہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں چارماہ پڑے تھے، ان کے جانشین کا فیصلہ ستمبر کے آخری دنوں میں ہوسکتا تھالیکن ایک اخبار میں کسی سیکشن افسر کی تیارکردہ سینیارٹی لسٹ شائع کروادی گئی جس کی بنیاد پر ہر کوئی کیفے لگا رہا ہے کہ کون بنے گا آرمی چیف۔ میاں نواز شریف کے پہلے دور میں یہی کام جنرل اسلم بیگ کے ساتھ ہوا، ان کی ریٹائرمنٹ میں چھ ماہ باقی تھے کہ جانشین کا اعلان کر دیا گیا، اس وقت شبہ یہ تھا کہ اسلم بیگ کوئی شرارت کرنے والے ہیں لہذا ان کے پر کاٹنے ضروری تھے مگر اب جنرل کیانی نے تو اپنی دو ڈرموں میں ایک لمحے کے لیئے شرارت کا تاثر نہیں ہونے دیا، پھر کیا قیامت آ گئی ہے کہ ان کے جانشین کو محدب عدسوں کی مدد سے تلاش کیا جارہا ہے اور بی ایچ کیو کے ہر جرنیل کے کوائف کا پلندہ بھرے چوکوں میں الٹ پلٹ کر دیا گیا ہے۔ میاں صاحب جب یہ اصول طے کر چکے ہیں کہ وہ سینئر موسٹ کا تقرر کریں گے تو پھر یہ ساری تکا فضحیتی کس لیئے، میڈیا کیوں چسکے لے رہا ہے۔ وزیر اعظم نے تو جنرل مشرف کے بارے میں بھی کہا تھا کہ وہ ان کو معاف کر چکے مگر اب مقدموں کا ایک انبار لگا دیا گیا ہے۔ شروع میں تو مشرف کو ایک کچہری سے دوسری کچہری اور ایک تھانے سے دوسرے تھانے تک گھسیٹا گیا۔ اس پرمشرف کے کٹڑ مخالفین بھی چیخ و پکار کر اٹھے کہ مقدے شوق سے چلاؤ مگر تذلیل کا ہے کو۔
اصل میں یہ سب تر کی ماڈل کی نقل ہے، ترکی سے صرف میٹروبس ہی نہیں ملتی، فوج کو تھلے لگانے کا ہنر بھی ملتا ہے، اسرائیل کوجن دو ایک اسلامی ملکوں نے تسلیم کر رکھا ہے، ان میں تر کی سرفہرست ہے مگر یہ تر کی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا دعویدار بنتا ہے۔ دوسری طرف یہی ترکی نیٹو کا سرگرم اور فعال رکن ہے اور افغانستان میں اس کی فوجیں پہلے دن سے موجود ہیں اور امریکی اور برطانوی فوجیں نکل بھی جائیں تو ترک فوج افغانستان میں موجودرہے گی، کیا یہ ترکی کسی دوسرے ملک کی فوج کو انقرہ میں اترنے کی اجازت دے گا۔ میں فوج کے آئینی حدود سے تجاوز کے حق میں نہیں لیکن اگر اس پر مقدے چلانا ہیں تو ان سب پر مقدمے چلانے ہوں گے جو اس کی آمریت میں شریک رہے، عدلیہ جس نے ہر مارشل لا کو جائز قرار دیا، سیاستدان جو اس کی گود میں پلے بڑھے، جنہوں نے آمر کوڈیڈی کہا یاکسی آمر نے ان کو اپنی زندگی عطیہ کر دی یا انہوں نے آمر کے قلم تحفے میں مانگے شیشے کے گھر پر پتھر وہ پھینکے جوخود اس کے اندر نہ بیٹھا ہو۔ اور میڈیا بھی صوفی نہ بنے، ایک حمید نظامی تھے جو آمریت کی گٹھن میں خالق حقیقی سے جا ملے، اور ایک ڈاکٹر مجید نظامی ہیں جنہوں نے آمر سے کہا تھا کہ جمہوریت کا کیڑا میرے دماغ میں بھی ہے مگر کتنے ایڈیٹر تھے جو بھاگ بھاگ کر وزارتوں میں جا بیٹھے یا ان کے چیلے چانٹے وزارتوں کے مزے کرتے رہے۔
فوج کانمدا کسنے کا جنون تو کئی لوگوں پر طاری ہے، کیری لوگر بل میں تو اس کے لیے باقاعدہ شہ دی گئی ہے۔ امریکہ بھی بڑی عجب چیز ہے کبھی اسے پاکستانی فوج کا اقتدار اچھا لگتا ہے اور کبھی وہ جمہوریت کا نقیب بن جاتا ہے۔ اب اس کی کوشش ہے کہ دنیا کی اس بہترین فوج کے کس بل نکالے جائیں، اس کے ایٹمی دانت خدانخواستہ توڑ دیئے جائیں۔
میں امید رکھتا ہوں کہ نئے وزیراعظم امریکی چالوں سے ہوشیار رہیں گے۔ انہوں نے تو امریکی دھمکیوں کو پرکاہ کے برابر اہمیت نہیں دی تھی اور ایٹمی دھماکے کئے تھے، انہیں تو اس فوج کے مفادات کا پہر یدار ہوتا چاہیئے۔ یہی پاکستان کے مفادات کا تقاضا ہے۔ (18 اگست 2013ء)