خبرنامہ

بنی گالہ کا چندہ باکس۔۔اسداللہ غالب

نیشنل ایکشن پلان کے تحت چندہ خوری ممنوع قراردے دی گئی ہے، اب جسے چندہ خوری کرنی ہے تو وہ وزارت داخلہ سے رجوع کرے ا ورا یک ا جازت نامہ حاصل کرے جسے این او سی کہا جاتا ہے، ملک بھر کی دکانوں اور عوامی مقامات سے مختلف تنظیموں کے چندہ باکس اٹھا دیئے گئے ہیں۔
چندے کا دھندہ ایسا ہے جسے ا س کی لت پڑ گئی ، سو پڑ گئی، وہ اسکے لئے نت نئے راستے تلاش کر لیتا ہے۔ملک میں ایک عمران خان اکیلا ایسا کھلاڑی نہیں جس نے اپنے پروفیشن سے بے بہا دولت کمائی ہو، کئی گلو کاروں،ادکاروں ا ور ادکاراؤں نے بھی اپنے فن سے کافی مال بنایا ہے مگر عمران خاں نے ان سب کو ایک ایساراستہ دکھایا کہ اپنا مال تو اکٹھا ہو گیا، اب لوگوں کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرو اور کوئی ایسا خیراتی منصوبہ بنالو کہ چھت پھاڑ کر آپ پہ ہن برسنے لگ جائے۔عمران خاں نے پیسہ اکٹھا کرنے کے لئے ایک مارکیٹنگ ٹیم کھڑی کی جس میں شامل جوہر قابل ایسے ایسے ہتھکڈے تجویز کرتے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے، غالب یہ شعر کہہ کر بدنام ہو گیا کہ بنا کرفقیروں کا ہم بھیس غالب، تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں۔غالب نے تو فقیروں کا بھیس بنایا ، آج کے فقیر تھری پیس سوٹ پہنتے ہیں، گلے میں بو لگاتے ہیں ا ور دنیا بھر کے مہنگے تریں ہوٹلوں میں ڈنر رکھتے ہیں جس کی ایک ایک پلیٹ کے نرخ سن کر عقل دنگ رہ جائے، یہ تو آپ میرے ایک کالم میں پڑھ چکے کہ ایک مرحلے پر عمران خان نے چندہ خوری کے لئے یہ طریقہ سوچاکہ وہ ایک ڈنر کریں گے جس میں بھارتی اداکارائیں شامل ہوں اور ان کی قربت میں بیٹھنے والوں پر بھاری قیمت کا ٹکٹ لگا دیا گیا، اس اسکیم کے سامنے اسلامی جمعیت طلبہ دیوار بن کر کھڑی ہو گئی، تو عمران خان، قاضی حسین احمد کے پاس منت سماجت کے لئے پہنچ گئے کہ ایک نیک اور فلاحی کام کی تکمیل میں رکاوٹ کیوں ڈالتے ہیں، ا س موقع پر امیر العظیم کو عمران خان پر رحم آ گیا اور یہ متبادل تجویز دی کہ آپ یہ بے غیرت ڈنر منسوخ کریں ، ہم آپ کے ساتھ گھومیں گے ا ور ہر دروازے پر دستک دے کر اتناہی چندہ اکٹھا کر کے دیں گے ، اس پر عمران خاں نے بھارتی ادکاراؤں کی تقریب کینسل کی،اور جماعت اسلامی کے کارکنوں نے عمران کے لئے بھیک مانگی۔ اس طرح ایک رستہ نکل آیا کہ جب کبھی کسی کو بڑی رقم اکٹھی کرنی ہو تو وہ بھارتی ادکاراؤں کوکھانے پر بلا لے، ظاہر ہے جماعت اس میں روڑہ ا ٹکائے گی تو پھر بات یہاں طے پائے گی کہ مجوزہ رقم جماعت کے کارکن اکٹھی کرنے میں مدد کریں گے۔ یہ ایک معقول راستہ ہے ، بس آزمائش شرط ہے ، نیکی اور پوچھ پوچھ۔ کسی بھی فلاحی کام کا منصوبہ بنائیں ، جماعت اسلامی کو بلیک میل کریں اور اس کے ذریعے مطلوبہ چندہ اکٹھا کر لیں۔ یہ نسخہ صرف پاکستان کے اندر کارگر ہے ، بیرونی دنیا میں عمران خاں کی طرح آپ آزاد ہیں، دنیا کے مہنگے تریں ہوٹلوں میں فنڈ ریزنگ کا ایونٹ رکھیں،آپ پر ڈالروں کی بارش ہو گی، اب آپ کی مرضی کہ عمراں خان کی طرح اس چندے کی مدد سے آف شور کمنیاں قائم کر لیں جیسا کہ ہمارے وزیر اطلاعات نے قوم کو یہ اطلاع فراہم کی ہے۔عمران خان نے بلیم گیم میں پہل کی ہے ، اوراس کو کلائمیکس تک پہنچا دیا ہے، دھرنے کے دنوں کالب ولہجہ پھر سے دیکھنے کو مل رہا ہے ، اب جواب میں اسے کڑوی کسیلی سننا تو پڑیں گی۔
ایک بارلاہور کے زمان پارک میں، ملک کے چوٹی کے کالم نگاروں کے ساتھ، میں بھی گیا، یہ گھر ذرا فراخ تو تھا ، مگرا سکے ڈارئنگ روم کی دیواروں کا پلستر ادھڑ رہا تھاا ور روشنی کے لئے چالیس واٹ کامٹی سے اٹا ہوا بلب ہی میسر تھا، اس وقت تک عمران خان کے پاس اربوں نہیں تو کروڑوں روپے تو کرکٹ کی کمائی کے ضرور ہوں گے مگر ان کے پاس اس قدر فالتو رقم نہیں تھی کہ وہ اس گھر کی خستگی کو دور کر سکیں، اب سناہے کہ بنی گالہ میں ان کا ایک عظیم الشان محل ہے جسے پہلی بار دیکھ کر ہمارے ایک کالم نگار کی آ نکھیں اس قدر خیرہ ہو گئیں کہ وہ پکارا ٹھا کہ یہ محل تو کسی وزیر اعظم کے شایان شان ہے۔اس لمحے سے یہ محل کسی وزیر اعظم کی تلاش میں ہے ، عمران خان خوابوں میں تو وزیر اعظم کا رول ادا کر سکتے ہیں مگر ان کے ہاتھ کی لکیروں پر ابھی وزیر اعظم بننے کی لکیر نے جنم نہیں لیا ، وہ اپنی ا س ادھوری خواہش کو پورا کرنے کے لئے خیبر پی کے، پر وزیر اعظم کی طرح مسلط ہیں۔ مگر کس قانون کے تحت، پاکستان کا قانون اور آئین تو پارٹی سربراہ کو حکومت کی نکیل تھامنے سے روکتا ہے، یہاں جمہوریت ہے، صوبے میں ایک شخص وزیرا علی منتخب ہو چکا ہے مگر اسے بنی گالہ کے خیالی اورتصوراتی وزیر اعظم نے مفلوج بنا رکھا ہے۔ عمران تو پھر بھی پارٹی کا سربراہ ہے، ان کے گھر میں ایک خاتون نے مختصر عرصے کے لئے قیام کیا ، وہ بھی خیبر پی کے، کی ملکہ بن گئیں اور ان کے پروٹوکول دیکھنے کے لائق تھے۔
کرکٹ کے دھندے میں تو ہر کوئی مالا مال ہو ا، وہ بھی جو کرکٹ کھیلنا نہیں جانتا ، وہ جوئے سے کمائی کر لیتا ہے، مگر عمران خاں نے کرکٹ کی کمائی پر قناعت نہ کی،ا سے خیراتی منصوبہ مل گیا اور اب پیسہ اکٹھا کرنے کی کوئی حد نہیں۔اس قدرصدقہ خیرات اور زکوات تو ان مدرسوں کو نہیں ملتی جو ایک صدی سے تفسیرا ور حدیث کا سبق پڑھا رہے ہیں ، جہاں نامی گرامی مفسرین اور محدثین نے زندگیاں گال دیں ، مگر نجانے عمران خان ان کا بھی امام کیسے بن گیا۔نہ وہ مفسر ہے، نہ وہ محدث ہے، نہ وہ فقیہہ ہے مگر وہ ان سب سے زیادہ پیسہ اکٹھا کرتا ہے، نیشنل ایکشن پلان نے ان نیک روحوں کے لئے فنڈ ریزنگ پر قدغن عائد کر دی مگر عمران خان کو کھلی چھٹی حاصل ہے، ایک ہسپتال اس کا لاہور میں قائم ہے، دوسرا پشاور میں کھڑا ہو گیا ، کراچی کے لئے ا سے زمین ڈیفنس میں ملنے کی خبریں شائع ہو گئی ہیں۔اس نے میانوالی کے جنگلوں میں ایک یونیورسٹی بنا ڈالی ہے ، اس کے لئے اسے مزید زمین چاہئے،ا سنے زمین مالکان کو حکم دیا ہے کہ وہ کچھ لے دے کر زمین یونیورسٹی کے حوالے کر دیں، زمین مالکان اڑے ہوئے ہیں کہ وہ نسل در نسل ا س زمین کے مالک ہیں، مگر عمران خا ں نے دھمکی دے ڈالی ہے کہ اب تو کچھ پیسہ مل جائے گا مگر جب اس کی مرکز میں حکومت بن گئی تو وہ مفت میں ا س زمین پر قبضہ جما لے گا۔
بنی گالہ کا محل کیسے کھڑا ہوا، کئی برسوں میں ملکوں ملکوں اکٹھا ہونے والے چندے کا حساب کہاں ہے، اور معصوم بچوں کے جذبات سے کھیل کر ان کے جیب خرچ پر ہاتھ صاف کرنے والا کبھی اس کی بھی صفائی پیش کرے۔
بنی گالہ کے چندہ باکس میں کچھ رقم باقی رہ گئی ہو تو عمران خان کسی روز اسے پشاور اورا سکے گرد ونواح میں حالیہ بارشوں کی زد میں آکر ہلاک ہونے والے خاندانوں میں تقسیم کرنے کا حوصلہ دکھائیں۔اس کا ثواب ایک درجن شوکت خانم ہسپتالوں سے زیادہ ملے گا۔ دل بدست آور کہ حج اکبرا ست۔