خبرنامہ

بولی والی کمیٹی

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

بولی والی کمیٹی

حکومت نے جومسئلہ حل نہ کرنا ہو اس پر کمیٹی بنادی جاتی ہے بلکہ بٹھا دی جاتی ہے۔ آج تک تو کمیٹیوں کا یہی کردار رہا بلکہ بدکردار رہا۔
اب جونئی کمیٹی بنی ہے، اس کی پہلی خای یہ ہے کہ جمہوری، پارلیمانی سیاسی نظام میں یہ نظام سے باہر کی ایک کمیٹی ہے۔
اس کمیٹی کی دوسری خامی یہ ہے کہ اس میں دو ارکان کا تعلق ایک ہی میڈیا ہاؤس سے ہے۔ اسی میڈ یا ہاؤس کے ایک صاحب نجم سیٹمی پہلے ہی اقتدار میں ہیں، اور تیسرے،رؤف طاہر ریلوے کے کھٹارہ محکمے میں گریڈ بائیس کے مزے لوٹ رہے ہیں، ان کا اصل فرض تو اپنے وزیر سعد رفیق کی مدح سرائی ہے لیکن شوی قسمت سے انہیں وزیر کے بھائی کا قصیدہ بھی لکھنا پڑا ہے۔ اجمل نیازی کو یہ بہت برالگا اور انہوں نے اس موضوع پر کھل کر لکھا اور لکھنے کاحق ادا کردیا خواب رفیق شہید بہرحال خراج تحسین کے حقدار تھے۔
حکومت کے لیے ایک ہی میڈیا ہاؤس اس قدر چہیتا کیوں ہے اور ویسے ہمارے اخبار نویسی بھائی جو اعلی اور ارفع سیاسی، اخلاقی، مذہبی اقدارکا ڈنکا بجاتے نہیں تھکتے، وہ اپنے آپ کو چھانگامانگا کے نیلام گھر یا مویشی منڈی میں بولی کے لیئے پیش ہی کیوں کرتے ہیں۔ حکومت کے معاملات سیاستدان جا نیں، اخبار نویس تو انہیں سیدھے راستے پر رکھنے کا فریضہ ادا کرتا ہے۔ اور اگر اخبارنوئیں بھی ہوں زراور ہوس جاہ میں مبتلا ہو جائے تو پھر اس کے عمر بھر کے وعظ کی حیثیت کیا ہے، وہ تو گیا بھاڑ میں۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان اخبار نویسوں میں کوئی اضافی قابلیت اور صلاحیت ہے۔ قومی امور پر مشاورت کا فرض تو اخبارنویس لکھ اور بول کر دونوں طریقوں سے ادا کرتا ہے لیکن جب جیب گرم ہونے کالالچ ہو تو پھر وہ اپنی رائے میں ڈنڈی مارے گا، یہ بددیانتی ہوگی۔
اور اب کمیٹی نے طالبان سے مذاکرات کرنے ہیں، بی کام تو وزیر داخلہ کررہے تھے، ان کے ساتھ وزیر دفاع کو بھی شامل کیا جاسکتا تھا، مگر کمیٹی کی تشکیل نے ان دو وزرائے کرام پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا۔ وزیر داخل کمیٹی کا سیکرٹری بنادیا گیا ہے، چودھری نثار اپنی ترنگ والے سیاستدان ہیں، وہ اس تنزلی کو کیسے ہضم کر پائیں گے اور وزیر دفاع کیوں منہ دیکھتے رہ گئے، وزیر اعظم اپنی ٹیم کے کپتان ہیں، انہیں اپنے ان دو کھلاڑیوں پر عدم اعتماد تھا تو وہ ان کی جگہ کسی دوسرے رکن پارلیمنٹ کو ان کے قلم دان سونپ دیتے، بیرونی عناصر اورگھس بیٹھیوں کے سر پر دستار فضیلت کیوں ٹکا دی گئی۔ اور یہ ان کے سر پرسج بھی نہیں رہی، بے جوڑ اور بے ڈھنگی لگتی ہے۔
میں تو اپنے ان سارے تحفظات کو واپس لیتا ہوں اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ کمیٹی میں جو کوئی بھی ہے، پاکستانی شہری تو ہے، ورنہ ہم کیا کر لیتے اگر اس کمیٹی میں رشید دوستم اور احسان اللہ احسان کو شامل کر دیا جا تا یا پھر بھارت کے راہول گاندھی اور نریندر مودی کے نام ان کی جگہ ڈال دیئے جاتے،جب وا ہگہ کی لکیر مٹانے کا ارادہ ہے اور بارڈر چوبیس گھنٹے کھولنا ہے تو پھر آر پار کے لوگوں میں فرق کیا کرنا، جہاں کہیں ذہن رسا موجود ہو، اس سے کام لیا جاسکتا ہے۔ آخر کتنے ہی معاملات ایسے ہیں جن میں انٹرنیشنل آربٹریشن کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اور بھارت تو ہمارا ہمسایہ ہے اور ماں جایا بنایا جارہا ہے۔
میری آج صبح مولانا سمیع الحق سے فون پر بات ہوئی، وہ سخت رنجیدہ تھے کہ جس شخص کو وہ امیر المومنین ملا عمر اور گورنرقندھار کے پاس لے گئے۔ اب وہ ہمی بلی ہمی کومیاؤں والا سلوک کرتا ہے۔
بلاول کا لب ولہجہ مجھے سخت ناپسند ہے، وہ اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کی تذلیل اورتضحیک کرتا ہے لیکن اس کمیٹی پر اس کا تبصرہ تاریخ کا حصہ بنے گا کہ طالبان سے مذاکرات کے لیئے طالبان کی کمیٹی بنادی گئی ہے۔ بلاول کو کوئی ہوشیارمشیر دستیاب ہے۔ ورنہ اس میں اتنی سیانف کہاں۔
دنیا بھر میں تنازعات کے خاتمے لیے پہلے جنگیں لڑی جاتی ہیں، جب فریقین ہلکان ہو جائیں تو پھر مذاکرات کی میز کا رخ کرتے ہیں۔ پاکستان تو اس وقت بالکل ہلکان اور بے جان ہو چکا مگر کیا طالبان بھی تھک چکے لگتا یہی ہے کہ امریکی انخلا کی صورت میں ان کے سامنے پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے کی وجہ ختم ہوجائے گی لیکن کیا ان کے سر پرست ان کو کیلا بیٹھنے دیں گے۔ میرا اندازہ ہے کہ ہرگز نہیں، وہ انہیں مسلسل پاکستان سے لڑنے جھڑنے کے لیے مجبور کرتے رہیں گے۔ یہ وہ طالبان ہیں جن کا نشانہ پاکستان ہے، افغان طالبان یک سو ہیں، انہیں فکر ہے تو آئندہ لائحہ عمل کی اور پاکستان کو اگر کسی سے مذاکرات کرنے ہیں تو وہ افغان طالبان ہیں جو ہمارے پڑوس میں ہیں اور جن کے ملک کو ہم اسٹریجٹک ڈیتھ کہتے ہیں۔ ہماری ان سے کوئی دشمنی نہیں، صرف عارضی تناؤ کی کیفیت ہے کہ ہم نے انہیں تن تنہا چھوڑ دیامگر یہ کوئی بڑا جرم نہیں، وہ ہماری مجبوریوں کا لحاظ کریں گے، ان سے مذاکرات کے لیے وزیراعظم کی موجودہ کمیٹی کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں۔ ان سے ہمارے اعلی سکیور یٹی اور سفارتی حکام کو بات کرنا ہوگی کہ وہی پاکستان کے مفادات کی کلی نزاکتوں کو سمجھتے ہیں۔ چار رکنی کمیٹی کو فاٹا کی سیرمقصود ہو تو وہ اس کش علاقے میں ضرور آئے جائے، پٹھان روایتی طور پر بے حد مہمان نواز ہوتے ہیں، عمران خان تو ان کو غیرت مند بھی قرار دیتا ہے مگر بے چارہ فاٹا کے اندر نہ گھس سکا، جب جوان تھا اور اس کی پہچان صرف کرکٹ کے کھلاڑی کی تھی تو وہ وہاں جاتا رہا اور پٹھان بھائیوں کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ اب زبانی جمع خرچ کے سوا اس کے توشے میں کچھ نہیں، سیاست کا بے رحم اور تندو تیزر یلا، پلوں کے نیچے سے بہت کچھ بہا کر لے گیا۔ کمیٹی نے بھی سیرو سیاحت سے لطف اندوز ہونا ہو تو وہ شوق پورا کر لے۔ مگر احتیاط کے ساتھ، جان بہت پیاری ہے۔
کمیٹی کے اختیارات کا تعین ہونا باقی ہے، کیا وہ وزیر داخلہ، وزیرخارجہ، وزیر دفاع، آئی ایس آئی، آئی بی، رینجرز، ایف سی، اور جی ایچ کیو کے اعلی ترین حکام کو بریفنگ کے لیے طلب کرسکتی ہے، اصولی طور پر اسے ایسا کرنا تو چاہئے اور وہ بھی نتائج سے بے پروا ہو کر۔ ہاں اسے بھارتی را اور امریکی سی آئی اے سے بھی صلاح لے لینی چاہئے کہ آخر وہ بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔
اور اگر کمیٹی سمجھتی ہے کہ وہ جھک مارنے کے سوا کچھ نہیں کر پائے گی تو اس کے ارکان خود مستعفی ہوجائیں یا وزیراعظم سے درخواست کریں کہ انہیں معاف رکھا جائے، خاص طور پر ہمارے پیارے دوست رحیم اللہ یوسف زئی اپنی عزت ضرور بچانے کی کوشش کریں۔ میجر عامرکوخفیہ کا موں کا شوق ہے، وہ اس مہم جوئی سے ہرگز الگ نہ ہوں، ایک مڈنائٹ جیکال اورسہی، اوریہ تو بڑی بھاری کمیٹی ہے، بولی والی کمیٹی۔
(31 جنوری 2014)