خبرنامہ

بھارتی جمہوریت کا سیاہ چہرہ اور ہمارے نامہ اعمال کی سیاہ.ی….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

بھارتی جمہوریت کا سیاہ چہرہ اور ہمارے نامہ اعمال کی سیاہ.ی….اسداللہ غالب

مقبوضہ کشمیر میں آج بھارت کے یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ کشمیری تو ہر روز بھارت کے خلاف یوم سیاہ مناتے ہیں۔
بھارت اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعوی کرتا ہے، دنیا بھر کے حکمران بھارت کو سب سے بڑی جمہورہت کہہ کر زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں مگر عملی طور پر بھارتی جمہوریت نے جو گل کھلائے ہیں، ان کے پیش نظر خود بھارت کے اندر درجنوں ایسے علاقے ہیں جہاں کے عوام کے جمہوری حقوق کو بھارت کی طرف سے مسلسل پامال کیا جارہا ہے، اور کشمیر میں تو سات لاکھ بھارتی فوج نے ستر برس سے کشمیری عوام کے بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق کی پامالی کے ریکارڈ مات کر دیئے ہیں، کشمیر کے لوگ اپنا حق خود ارادیت مانگتے ہیں، آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں، یہ حق انہیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں عطا کرتی ہیں، بھارت نے ان قراردادوں کی پابندی کا وعدہ کیا تھا مگر وہ وعدہ ہی کیا جو ایفا ہو گیا کے مصداق بھارت نے اپنے تمام وعدوںکو پس پشت ڈال دیا ہے اور کشمیریوں کو غلام بنائے رکھنے کے لئے انسانیت سوز مظالم کی انتہا کر دی۔ کشمیر کے قبرستانوں میں ایک لاکھ نئی قبروں کاا ضافہ ہوا ہے جو ان شہدا کی ہیں جنہیں بھارتی درندہ صفت فوج نے سیدھی گولیاںمار کر یا جعلی مقابلوںمیں شہید کیا، کشمیر میں شہید وانی کے سانحے کے بعد نظام زندگی عملی طور پر معطل ہے، تمام حریت پسند لیڈرز نظر بند ہیں ۔ یاسین ملک کے جمہوری حق کو تو ا س قدر پامال کیا گیا ہے کہ تین برس سے اسے پاکستان میں اپنی اہلیہ اور معصوم بچی سے ملنے بھی نہیں دیا گیا، جبکہ پاکستان
نے ایک بھارتی دہشت گرد کل بھوشن کے اہل خانہ کو ملاقات کا ویزہ دیا۔ اور ساری دنیا نے اس ملاقات کا منظر دیکھا۔
کشمیر پر ایک سیاہ رات کا سایہ ہے، یہ سیاہی بھارت کے جمہوری دعووں کا ایک ہلکا سا عکس ہے۔
بھارت اور پاکستان کے مابین کشمیر کے مسئلے پر جنگ بندی کا حکم سلامتی کونسل نے جاری کیا تھا اور اس کی نگرانی کے لئے دونوں طرف امن فوج متعین کی گئی تھی مگر بھارت نے کبھی اس امن فوج کو اپنے دفاتر سے باہر قدم رکھنے کی اجازت تک نہیں دی۔ کشمیر میں دنیا کی جمہوری ا ور انسانی حقو ق کی تنظیموں کو بھی جانے کی اجازت نہیں، بھارت میں کئی غیر ملکی حکمران دورے پرا ٓتے ہیں ، وہ بھارت کے کئی شہروں کے دورے کرتے ہیں ابھی اسرائیلی وزیراعظم چھ روز کے لئے آئے ا ور چار شہروںمیں گئے مگر کیامجال کہ بھارت نے کسی غیر ملکی مہمان کو سری نگر لے جانے کی ہمت بھی کی ہو۔
اس امر میںکوئی شک و شبہ نہیں کہ کشمیری عوام پاکستان سے الحا ق چاہتے ہیں اور وہ اس استصواب کے منتظر ہیں جو اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونا ہے مگر ا سکی نوبت ستر برس میں تو نہیں آ سکی، کشمیری عوام پاکستان سے اپنے لگاﺅ اورو ابستگی کے اظہار میں کبھی پیچھے نہیں رہے ، وہ پاکستان کا یوم آزادی دھوم دھام سے مناتے ہیں، پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی فتح پر شادیانے بجاتے ہیں۔ اور جب بھی کوئی بھارت حکمران سری نگر جاتا ہے تو کشمیری عوام اپنے گھروں اور دفتروں پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں۔ اب استصواب اور کس چڑیا کا نام ہے ، کشمیری عوام تو ہر موقع پر پاکستان کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔
اگر ہم بھارتی طرز عمل ا ور اپنے طرز عمل پر غور کریں تو یقین کیجئے کہ شرم آتی ہے۔ ہماری پارلیمنٹ کہتی ہے کہ ڈرون حملے بند کروائے جائیں مگر آرمی چیف نے سینیٹ کی بریفنگ میں کہا کہ ہمیں حکم آپ نے دینا ہے، ہم امریکی ڈرون کو پاکستان کی فضائی حدود میںداخل ہونے سے پہلے مار گرائیں گے۔اسی سینیٹ کے اجلاس میں آرمی چیف نے کہا کہ حافظ سعید فلاحی کام کرتے ہیں اور کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں تو یہ آواز اٹھانا ہر پاکستانی کا فرض ہے مگر ہم نے فوری طور پر جماعت ا لدعوة ا ور فلاح انسانیت کے خلاف پابندیاں عائد کر دیں، اس کے اکاﺅنٹ بند کر دیئے اور اس کے دفاتر کو قبضے میں لینے کا عندیہ دیا، اب شکر کی بات یہ ہے کہ پاکستان میںابھی نظام انصاف زندہ ہے اور عدلیہ نے حکم دیا ہے کہ حافظ سعید ، اور فلاح انسانیت کے خلاف ہر کارروائی روک دی جائے۔یہ فیصلہ نہ آتا تو کیا معلوم ہم یو این کے وفد کے دورے کے موقع پر اسے خوش کرنے کے لئے حافظ سعید اور فلاح انسانیت کے خلاف کیا کچھ اقدام نہ کر گزرتے۔یہ جو اقوام متحدہ کا وفد آیا ہوا ہے، اسے یہ تو کہا جائے کہ وہ بھارت کیوں نہیں جاتا اور مقبوضہ کشمیر کا دورہ کر کے اپنی آنکھوں سے بھارتی جبر اور ظلم و ستم کا مشاہدہ کیوں نہیں کرتا اور یہ اقوام متحدہ کا وفد کیوں بھول گیا کہ اس کے ذمے کشمیر کا مسئلہ حل کرانے کے لئے استصواب کا انعقاد کرانا بھی ادھار چلا آ رہا ہے۔ کبھی اقوام متحدہ کا کوئی وفد کنٹرول لائن کا بھی دورہ کرے اور بھارتی فوج کی درندگی کا ماتم کرے۔ آئے روز ورکنگ باﺅنڈری اور کنٹرول لائن پر لاشیں گرتی ہیں، اقوام متحدہ نے کئی ممالک میں فائر بندی کرو ارکھی ہے، کشمیر کے علاوہ ا ور کہاں اس کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔
اصل میں ہم پاکستان خود ہی کشمیر کے مسئلے کو پس پشت ڈال چکے ہیں، ہم نے فضل الرحمن کو مراعات دینے کے لئے کشمیر کمیٹی کا سربراہ تو بنا رکھا ہے مگر کیا مجال اس کمیٹی نے کبھی کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف کھل کر احتجاج ریکارڈ کرایا ہو یا مسئلہ کشمیر کی آگہی دینے کے لئے بیرونی ممالک کے دوے کئے ہوں۔
ہم بھارت کو جتنی مرضی گالیاں دیںمگر یہ حقیقت ہے کہ ا س نے اپنے اقتدار اعلیٰ کا تحفظ کیا ہے جبکہ ہمارے اقتدار اعلیٰ کو روز تار تار کیا جاتا ہے، پارلیمنٹ اپنے آپ کو سپریم سمجھتی ہے ، عدلیہ ا ور فوج بھی کم طاقت ور ادارے نہیں اور ہماری افسر شاہی کی اکڑفوں تو دیکھنے کے لائق ہے ۔ وہ پاکستانی عوام کے سامنے شیر ہے مگر بھارت کے سامنے گھگھیانے لگتی ہے ۔بھارت کہہ دے کہ فلاں پاکستانی دہشت گرد ہے تو اس پر آ نکھیں بندکر کے آمنا و صدقنا کہہ دیتے ہیں۔اورمتعلقہ شخص یا تنظیم کا نمدا کسنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے مگر جو کچھ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے ا ور جو کچھ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے، اس پر ہم صدائے ا حتجاج بلند کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ مجھے تشویش لاحق ہے کہ جماعت الدعوة نے فروری میں بھارت کے خلاف ہفتہ سیاہ منانے کاجو اعلان کر دیا ہے، وہ ہمارے ہاں کے بھارتی شردھالووں کو پسند نہیں آئے گاا ور وہ پچھلے سال کی طرح حافظ سعید کو کہیں اس کے باوجود نظر بند نہ کر دیں کہ اب تو عدالت بھی ان کے خلاف حکم امتناعی جاری کر چکی ہے، ہم نے کشمیر کے ہمدردوں کے خلاف جو طرز عمل اختیار کر رکھا ہے، اس سے ایک اور خدشہ ہے کہ کشمیری مسلمان کہیں بدک نہ جائیں اور وہ جو پاکستان کا حصہ بننے کی ضد اور جدوجہد جانوں پر کھیل کر جاری رکھے ہوئے ہیں، اسے ترک ہی نہ کردیں، اس کا مطلب صرف یہ نہیںہو گا کہ کشمیر ہمیشہ کے لئے بھارتی غلامی میں چلا جائے گا بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہو گا کہ ہم کشمیر کے دونوں دریاﺅں جہلم اور چناب کے ایک ایک قطرے سے بھی محروم کر دیئے جائیں گے اور اس کا یہ بھی مطلب ہو گا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنی اس دھمکی کو بروئے کار لے آئے گا کہ وہ آزاد کشمیر، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے عوام کو اسی طرح ان کے بنیادی حقوق دلوائے گا جیسے بھارت نے اکہتر میں بنگلہ دیش کو دلوائے تھے۔ خدا ہمارے حال پر رحم کرے اور ان کے حال پر بھی رحم کرے جو ہماری آس میںسینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں۔ یااللہ رحم ! اب تو میرے مرشد مجید نظامی بھی نہیں رہے جو اس پر صدائے احتجاج بلند کرتے، ا نہوںنے تو آمر مطلق جنرل مشرف کو منہ پہ کہہ دیا تھا کہ کشمیر سے غداری کرو گے تواس کرسی پر قائم نہیں رہ سکو گے