خبرنامہ

بھارتی دہشت گرد کل بھوشن اورد استان امیر حمزہ۔۔۔اسداللہ غالب

قربان جاؤں عمران خاں کے جس نے بچوں کو ساری دنیا کا جغرافیہ حفظ کرا دیا ہے۔میرے پوتے عمر نعیم نے مجھ سے پوچھا یہ جو عمران خان پانامہ پانامہ کرتا ہے، کیا یہ کسی ملک کا نام ہے۔ میں نے بتایا کہ یہ ایک ملک ہے ا ور اس کے علاوہ عمرا ن خان ایک ا ور ملک کی گردان بھی کرتا رہتا ہے اور وہ ہے آئس لینڈ۔ عمر نے لیپ ٹاپ پر گوگل کا نقشہ کھولا اور پانامہ اورآئس لینڈ پر ایک نظر ڈالی، پھر میں نے کہا ذرا ، پاکستان ا ور بھارت کا نقشہ بھی دیکھ لو اور پھر خود ہی فیصلہ کر لو کہ ہمیں پانامہ ا ور آئس لینڈ کیا نقصان پہنچا سکتے ہیں اور اکیلا بھارت کس قدر تباہی نازل کر سکتا ہے۔
میری یہ بات آٹھویں جماعت کے طالب علم عمر نعیم کے ذہن کے اوپر سے گزر گئی مگر عمران خان کوضرور سمجھ آ گئی ہو گی۔ عمران نے بڑے سلیقے سے پاکستانیوں کی توجہ بھارتی خطرات سے ہٹا دی ہے ا ور پانامہ جیسے للی پٹین ملک کی طرف مبذول کرا دی ہے، یہ کوشش عمران نے حالیہ کرکٹ سیریز کے دوران بھی کی تھی ا ورا سکے ساتھ شیخ رشید اورڈاکٹر قادری بھی نئی دہلی میں جا ملے تھے، وہ تو اللہ بھلا کرے کہ ہم ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوئے ، اگر جیت جاتے تو عمران ، رشید اور قادری نے دلی کے چاندنی چوک میں بھنگڑا ڈالنا تھا۔
پانامہ دنیا میں آبادی کے اعتبار سے119 ویں نمبر پر آتا ہے اور بھارت سوا ارب آبادی کے ساتھ دوسرے نمبر پر ، پاکستان کہیں چھٹے نمبر پر ہے۔ بھارت کے لوگ اگر عمران خان کی طرح تہیہ کر لیں کہ وہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دیں گے تو ہماری بیس کروڑ آبادی ان کے پاؤں تلے آ کر کچلی جائے گی۔ہر ایک بھارتی کے پاؤں کے نیچے چھ پاکستانی دبے، کراہ رہے ہوں گے۔
میں نے مولانا امیر حمزہ کو بلایا کہ دل کے پھپھولے مل بیٹھ کر پھوڑیں۔امیر حمزہ کا تعلق آپ لشکر طیبہ سے جوڑیں ، یا جماعت الدعوہ سے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ آپ وہی بولیں گے جو بھارت ان کے بارے میں بولتا ہے،مولانا امیر حمزہ بھارتی الزام تراشی کی زد میں آ کر کئی بار قید تنہائی کاٹ چکے ہیں اور ان کے لیڈر حافظ محمد سعید بھی بار بار کی بھارتی بلیم گیم کے زخم خوردہ ہیں۔کہنے کو اقوام متحدہ بھی انہیں دہشت گرد قرار دے چکی مگر اس اقوام متحدہ پر کون یقین کرے گا ، ا سکی تو تین قراردادیں ہیں کہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے ا ورا س کاحل ایک غیر جانبدارانہ استصواب کے ذریعے نکالا جائے گا مگرا قوام متحدہ کی کس نے سنی ہے۔ یہی اقوام متحدہ فلسطینیوں کے حقوق کی بات بھی کرتی ہے مگر اسرائیل نے کب یہ حقوق دیئے۔اور نہ دنیا کو مظلوم فلسطینیوں کی کوئی پروا ہے۔
امیرحمزہ پھٹ پڑے کہ کل بھوشن پکڑا گیاا ور ہمارے جسد قومی پر جوں تک نہ رینگی، ا س نے را سے اپنا تعلق تسلیم کیا، وہ مانا کہ بلوچستان کی علیحدگی کے لئے کام کر رہا ہے مگر قوم نے اس کو بھلا دیا، ایک بھارتی دہشت گرد کشمیر سنگھ بھی تھا جس نے اعتراف کیا تھا کہ مکتی باہنی اس نے بنائی ہے، اس نے پاکستان کے طول وعرض میں دھماکے بھی کئے اور بے گناہوں کا خون بہایا مگر ہمارے ایک وزیر انصار برنی ا سے اپنی جھنڈے والی کار میں بٹھا کر امرتسر چھوڑآئے، ایک بھارتی کرنل پروہت نے تسلیم کیا کہ اس نے سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکے کر کے اسے آگ لگائی تھی جس میں پاکستانی مسافروں کی لاشیں کوئلہ بن گئیں مگر ہم نے اس کی حوالگی کا کبھی مطالبہ نہیں کیا، ا سکی تفتیش پر مامور بھارتی پولیس افسر کرکرے کو ممبئی حملے کے آغاز ہی میں گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اس طرح اس کے سارے ثبوت مٹا دیئے گئے اور اب بھارتی عدالتوں نے اسے بے گناہ قرارد ے دیا ہے، ممبئی حملوں کے بعد بھارت نے پھنکا رتے ہوئے کہا کہ آئی ا یس آئی کے سربراہ کو نئی دہلی بھیجو، ہمارے وزیر اعظم نے یہ مطالبہ مان لیا مگر شکر ہے کہ قوم آڑے آ گئی۔اب پٹھان کوٹ کے بھارتی اڈے پر حملہ ہوا، بھارت نے وہی پرانی الزام تراشی شروع کر دی، ہم نے بھارت کے نخرے اٹھانے کے لئے اپنی تحقیقاتی ٹیم بھارت بھجوا دی مگر بھارت نے اسی حملے کے مسلمان تفتیشی افسر کو اس کی بیوی سمیت نصف شب کے اندھیرے میں ہلاک کر دیا۔
داستان امیر حمزہ ختم ہونے کو نہیں آ رہی تھی ۔ وہ ایک ا یک ورق پلٹ رہے تھے کہ بھارت کوئی الزام بھی لگائے تو ہم آمنا و صدقنا کہہ دیتے ہیں، وہ جن لوگوں کو نامزد کرتا ہے، ہم ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیتے ہیں،بھارت میں پتہ بھی گرے تو وہ حافظ سعید کو مطعون کرنے لگتا ہے ا ور ہمارے میڈیا نے جیسے بھارت کے ہاتھ پہ بیعت کر رکھی ہو، وہ دو قدم آگے جا کر لشکر طیبہ اور جماعت ا لدعوہ میں کیڑے تلاش کرنے لگتا ہے۔کوئی کیمرہ مین اجمل قصاب کے گاؤں فرید کوٹ جا پہنچتا ہے، کہانیاں تراشی جاتی ہیں کہ ا س گاؤں کے اردگرد سفید پوش پہرہ دے رہے ہیں۔مگر اسی پاکستانی میڈیا نے نہ کشمیر سنگھ سے پوچھا کہ آپ کوکس نے حق دیا تھا کہ پاکستان کو توڑنے کے لئے مکتی با ہنی کھڑی کریں اور بے گناہوں کو دھماکوں میں ہلاک کریں، نہ کسی نے کل بھوشن پر اپنا کیمرہ مرکوز کر کے اس سے کوئی سوال جواب کیے ہیں۔اس کے بجائے ہمارا میڈیا اور ساری جماعتیں پانامہ لیکس پر آہ و فغان کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
امیرحمزہ جو رونا رو رہے تھے، وہ کوئی ایسابھی غلط نہیں، بے وجہ نہیں۔ عمران خان پانامہ پر کبھی دھرنے کی دھمکی دیتا ہے ، کبھی جاتی امرا کے گھیراؤ کاا علان کرتا ہے، اپوزیشن جماعتیں پانامہ پر دن رات نت نئے بیانات جاری کرتی ہیں مگر کسی نے اصل خطرے کی طرف دھیان نہیں دیا، کل بھوشن رنگے پاتھوں پکڑا گیا۔ ہماری فوج بھی چیخ رہی ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے لئے بھارت کوشاں ہے، ہمارے وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں یہ الزام دہرایا اور ہم نے بھارتی دہشت گردی کے ثبوتوں کے ڈھیر بھی ڈوسیئرز کی شکل میں اقوام متحدہ کے حوالے کئے ،مگر کیا مجال کہ ا تنے بڑے خطرے پر کسی نے تشویش کا اظہار بھی کیا ہو، نہ کوئی واہگہ جا کر بھارت کے خلاف دھرنا دیتا ہے، نہ بھارتی ہائی کمیشن کا گھیراؤ کیا گیا ہے، نہ کوئی جلسہ بھارتی مذمت کے لئے سجایا گیا ہے، بس ڈھول کی تھاپ، رقص و سرود ،چھن چھنا چھن اور پائلوں کی جھنکار میں پانامہ کا سیاپا، یہ پانامہ ہمارے وزیر اعظم سے شاید ہی استعفے لے سکے ، ان کے دو بچوں کا تو کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔مگر بھارتی را کے دہشت گرد کل بھوشن اورنہ جانے ا سکے کتنے ا ور ساتھی دہشت گرد ہماری صفوں میں گھسے ہوئے ہیں، وہ ہمارے چیتھڑے اڑاتے رہیں گے۔ داد دیں اپنی افواج کو جو ان کی راہ میں حائل ہیں، ورنہ ہمیں تو کل بھوشن کا کوئی ہوش ہی نہیں۔
امیر حمزہ نے سوال کیا کہ بھارتی وزیر اعظم کے اس اعتراف کے بعد کہ وہ پاکستان توڑنے میں شامل ہے توا سکے بعد بھارت کے دہشت گرد ہونے میں کیا شک و شبہہ باقی رہ جاتا ہے، صد حیف! کہ ہمارے پاکستانی بھائی پھر بھی ہمیں ہی دہشت گرد سمجھتے ہیں اور ہمارے فلاحی کاموں کے راستے میں بھی رکاوٹ ہی رکاوٹ، کوئی ٹی وی فلاح انسانیت کی بھلائی کی کاوشوں پر بھی کیمرہ مرکوز نہیں کرتا۔
یہ رہی نئی داستان ا میر حمزہ جس کی سطر سطر سے دکھ ٹپکتے ہیں