خبرنامہ

بھارت امریکی گود میں ۔اسداللہ غالب

بھارت کی آنیا ں جانیاں دیکھ کر میری تو ہنسی نکل گئی ہے۔جب تک سوویت روس کا بھینسا دودھ دے سکتا تھا،بھارت نے اس کے گلے کا ہار بنا رہا۔اسی کی مدد سے اس نے پاکستان کو اکہتر میں دولخت کیا۔اب بھارت نے محسوس کیا کہ دنیا کا تاج امریکہ کے سر پہ ہے تو یہ پھدک کراس کی گودمیں جا بیٹھا ہے۔
اور امریکہ کے بھی قربان جایئے کہ اس نے سمجھ رکھا ہے کہ پاکستانیوں کا حافظہ بے حد کمزور ہے، پہلے اس نے افغان جہاد میں پاکستان کو استعمال کیا اور جب دیکھا کہ الو سیدھا ہو گیا بلکہ روسی الو کی گردن مروڑ دی ہے تو وہ اس علاقے سے ایسا نکلا جیسے یہاں تھا ہی کبھی نہیں۔پاکستان کو ا س نے رسمی طور پر بھی طلاق دینا گورا نہ کی۔
نائن الیون کے بعد امریکہ کو پھر پاکستان کی ضرورت پڑ گئی، باقی دنیا کے لئے یہ دھمکی تو محض شو شا کے لئے تھی کہ یا لکیر کے ادھر یا لکیر کے ادھر، اصل میں یہ دھمکی ہمارے کمانڈو صدر مشرف کے لئے تھی جو امریکی حکومت کے کسی ادنی اہلکار کے ٹیلی فون پر نصف شب کوڈھیر ہو گیا۔امریکہ کو ورلڈ ٹریڈسنٹر میں مارے جانے والے تین ہزار کے قریب لوگوں کا بدلہ کسی نہ کسی سے لینا تھا،ا س نے پاکستان کے پڑوس میں اسامہ بن لادن کو ٹارگٹ کیا ور حضرت مشرف نے باقی فریضہ نبھانے کی حامی بھر لی، گھاٹے میں مشرف بھی نہ رہا، پاکستان کے آرمی چیف کی تنخواہ ا ور مراعات کتنی ہوں گی، اتنی تو نہیں ہوں گی کہ مشرف کے اکاؤنٹس جل تھل ہو گئے ہیں۔ مگر اللہ رحم کرے پاکستا ن ا ورا س کے عوام کے حال پر جو امریکی لڑائی لڑتے لڑتے بے حال ہو گئے بلکہ حلال کر دیئے گئے، امریکہ نے سچ مچ میں یہ لڑائی پاکستان کی بنا کر دکھا دی، دہشت گردا مریکہ کو تو بھول گئے اور پاکستانیوں کو بھوننے لگے۔
اب امریکہ شانت ہے، پاکستان بے دم ہے، شاید اکہتر کے سرنڈر کے باوجودد اس کی حالت بہتر تھی، اب دہشت گردوں کے خلاف پے در پے فتوحات ا ور شاندار کامیابیوں کے باوجود ہم بری طرح نڈھال ہوئے پڑے ہیں۔اور امریکہ بہادر مزے میں ہے، اس نے پاکستان کو ایک بار پھر رسمی طورر پر طلاق دینے کی زحمت نہیں کی اور بھارت کے ساتھ پینگیں جھولنا شروع کر دی ہیں۔دہشت گردی کی جنگ پاکستان لڑتا رہا، ہمارے ساٹھ ستر ہزار لوگ شہید ہوئے، اربوں کھربوں کی معیشت برباد ہو گئی۔مگر کیا مجال کہ امریکی صدر اوبامہ اپنی دو ٹرموں میں ایک بار بھی پاکستان آئے ہوں، وہ کئی بار افغانستان آئے ، بھارت بھی گئے مگر انہوں نے پاکستان کی طرف منہ کر کے نہیں دیکھا، اب امریکی وزیرخارجہ بھارت چلے گئے، اور بھارتی وزیردفاع امریکہ جا پہنچے، اور دھڑا دھڑ معاہدے سامن آ ئے ، یہ معاہدے کوئی کھمبیوں کی طرح نہیں اگے، پرہمیں خبر کیوں نہ ہوسکی اور اگر ہوئی تھی تو ہم نے اپنے مفادات کا تحفظ کیسے کیا، شاید کیا ہو گا، سرتاج عزیز بہتر جانتے ہوں گے یا ان سے پہلے خورشید قصوری کو زیادہ پتہ ہو گا جنہوں نے کئی ہزار صفحات کی آپ بیتی لکھ ماری اور اپنے دور میں جب ہم لوگوں کو گھر چائے پہ بلاتے اور ہم اعتراض کرتے کہ امریکہ نے ہمیں کیا دیا، وہ کہتے، عزت دی ، ابھی جس امریکی حکومتی اہل کار کو چاہوں فون کر سکتا ہوں ۔ وہ شاید اب بھی ڈائریکٹ فون پر امریکیوں سے بات کر سکتے ہوں گے مگر پاکستان کے ساتھ امریکہ کی جیسے لائن ٹوٹ گئی ہے۔
پاکستان نے امریکہ سے دوستی اور محبت ا ور عشق کا مزہ چکھ لیا، اب بھارت مزے لوٹ لے۔ امریکہ نے اس نئے نئے عشق میں بھارت سے یہ منوا لیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ بھارت کے اڈے اور دیگر فوجی سہولتیں استعمال کر سکتا ہے، یہی فوائد امریکہ نے پاکستان سے اٹھائے۔ہمارے اڈوں سے اس نے ڈرون مارے ا ور کئی بار ہمی پر مارے۔اس کی اتحادی نیٹو فورسز کے بھاری بھر کم ٹرالوں نے پاکستان کی سڑکیں ادھیڑ کر رکھ دیں۔ ابھی توبھارت یہی سمجھتا ہے کہ امریکہ اس کی لڑائی لڑے گاا ور چین کی کمر توڑے گا مگر بھارت خاطر جمع رکھے، امریکہ نے آج تک اپنا کوئی فوجی کسی دوسرے کے لئے نہیں مروایا، اور نہ آئندہ مروائے گا۔ویت نام کے بعد ا سنے کانوں کا ہاتھ لگا لئے۔
کیسی کیسی بڑھکیں ہیں جو سننے میں آ رہی ہیں۔کہا گیا ہے کہ پاکستان ڈو مور پر عمل کرے، ممبئی ا ور پٹھا نکوٹ کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے، پاکستان کے لئے یہ کرنا کچھ ایسامشکل نہ تھا مگر بھارت نے ہیمنت کرکرے کو تو مروا دیا اور وہ تفتیش رک گئی جس کی مدد سے مالی گاؤں اور سمجھوتہ کے مجرموں کا سراغ لگ سکتا تھا،ا سی طرح بھارت نے پٹھان کوٹ کے تفتیشی افسر کو مروا دیا، اب تحقیق کون کرے گا، مجرموں کے نام سامنے کیسے آئیں گے، کیا پاکستانی میڈیا میں بھارتی شردھالو ان مجرموں کے ناموں کا انکشاف کریں گے۔ اجمل قصاب کے گھر تک یہی لوگ پہنچے تھے۔
بھارت کو بلوچستان کے لوگوں کے حقوق کا غم کھائے جا رہا ہے اور گلگت اورآزادکشمیر میں ممکنہ حقوق کی پامالی کا بھی دکھ اسے ہلکان کر رہا ہے، مگر اسے مقبوضہ کشمیر میں اپنے بے انت مظالم نظر نہیں آ رہے، خالصتانی سکھوں پر اس نے ٹینک چڑھائے تھے، یہ کوئی پرانی بات نہیں، سکھوں کے دل زخمی ہیں۔سکم ، آسام ، بھوٹان، ناگا لینڈ، منی پور، میزو رام،تری پورہ ، ارون چل پردیش میں بھارت نے عوام کا گلا گھونٹ رکھا ہے۔ بھارت کو امریکی چھتری میسر آ گئی تو وہ ان علاقوں کا حشر بھی مقبوضہ کشمیر جیسا کر دے گا۔
کیا امریکہ بھارت گٹھ جوڑ میں پاکستان اکیلا رہ گیا ہے، ہر گز نہیں، چین ایسی زبان میں بھارت کو للکار رہا ہے، جو امریکہ آج تک استعمال نہیں کر سکا۔بلوچستان میں چین کے مفادات پر بھارت بری نظر تک نہیں ڈال سکتا چہ جائیکہ وہ گریٹر بلوچستان کی تشکیل کے خواب دیکھ سکے۔اور روس جسے بھارت نے ٹشو پیپر سمجھ کرپھینک دیا ہے،ا س کی طاقت کا اندازہ لگانے کے لئے بھارت کو امریکہ ہی سے رجوع کرنا چاہئے جو ایک سہانی صبح، شام پر یلغار کے لئے تلا بیٹھا تھا، مگراسی صبح کے نیویارک ٹائمز میں پیوٹن کا ایک آرٹیکل شائع ہوا اور امریکی یلغار کی ہوا نکل گئی، خود امریکہ ساری چوکڑی بھول گیا۔ ویسے روس کی طاقت کے بارے بھارت کو ترکی سے بھی پوچھ لینا چاہیئے کہ طیب اردوان صاحب کیسے ناک رگڑ کر ماسکو پہنچے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی بنانے والوں نے دھوپ میں بال سفید نہیں کئے۔ چین ا ور روس کا ساتھ ہو تو امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کا ڈر کیسا!!