خبرنامہ

بھارت سے امن کی بھیک

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

بھارت سے امن کی بھیک

جنرل ضیاالحق جب چاہتے، جہاز پڑتے اور عمرہ کرنے چلے جاتے۔ لوگ کہتے کہ وہ اپنی بیٹری چارج کروانے گئے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف بھی عمرہ کر آئے ہیں۔ آتے ہی انہوں نے ایک اعلی سطحی اجلاس میں برصغیر پر منڈلانے والے خطرات کا جائزہ لیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ قیام امن کے لیئے اگلے ماہ وہ نیویارک میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کے منتظر ہیں۔
سمجھوتہ بس کو امرتسر میں بلوائیوں نے روک لیا، یہ بس بھارت کی ملکیت ہے، پاکستان کی ملکیت سمجھوتہ بس نئی دہلی کھڑی ہے جس کی حفاظت کے لیے پاکستان نے بھارت کوذمے دار ٹھہرایا ہے۔ نئی دہلی ہی میں پاکستان کے ہائی کمشن پر حکمران کانگریس کے غنڈوں نے حملہ کیا، ہمارے دفتر خارجہ نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ ہمارے ہائی کمشن کی حفاظت کا فریضہ ادا کرے۔ بھارت نے آزادکشمیر کے تتہ پانی سیکٹر میں بلا اشتعال فائرنگ کر کے ایک شہری کو شدید زخمی کر دیا ہے، بھارت کا الزام ہے کہ پاک فوج نے پو چھ سیکٹر میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سات ہزار راؤنڈ فائر کئے، بھارت کو بھی جوابی فائرنگ کرنا پڑی۔ اور اس کی فوج نے پانچ ہزار راؤنڈ فائر کیئے۔ بھارت نے کنٹرول لائن کی نئی خلاف ورزی سیالکوٹ کے بجوات سیکٹر میں کی ہے۔ بھارت نے نچلی سطح کے مذاکرت کا سلسلہ معطل کر رکھا ہے اور بھارتی میڈیانے ملک کے اندر خون کی کیفیت طاری کر دی ہے۔ من موہن سنگھ پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ نواز شریف سے مجوزہ ملاقات نہ کریں۔
چودہ اور پندرہ اگست کی نصف شب کو کلدیپ نائر کی قیادت میں بھارتی صحافی واہگہ بارڈر پر شمعیں روشن کرتے ہیں، بھارت میں دونوں جانب کے صحافی، ادیب اور دانشور امرتسر میں امن میلہ منعقد کرتے ہیں، یہ سلسلہ پندرہ برس سے جاری ہے لیکن بھارتی حکومت نے پہلی بار اس پاکھنڈ کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ بھارت کے ایک گروگھنٹال بابا رام دیو نے مطالبہ کیا ہے کہ مرنے والے پانچ بھارتی فوجیوں کے بدلے پاک فوج کے پاس جوان شہید کر کے انتقام کی پیاس بجھائی جائے۔ اس کا نعرہ ہے ایک کے بدلے پانچ۔ شیوسینا کے فلم ونگ نے بھارتی فلم سازں کو دھمکی دی ہے کہ وہ پاکستانی آرٹسٹوں اور گلوکاروں کا بائیکاٹ کریں ورنہ شیوسیناا پنے طریقے سے نپٹے گی۔
یہ سارا شورو غل پانچ بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کی پیداوار ہے۔ ان میں سے چار کے تابوت بہار کے شہر پٹنہ پہنچے۔ ریاست کے وزیراعلی ستیش کمارنئی دہلی کے دورے پر تھے، اخبارنویسوں نے بہار کے ایک وزیر بھیم سنگھ سے پوچھا کہ ریاست کے کسی وزیر نے ایر پورٹ پر تابوت وصول کرنے کی زحمت کیوں نہیں کی۔ وزیر نے ترت جواب دیا کہ لوگ فوج اور پولیس میں مرنے کے لیے جاتے ہیں، ان کی لاشوں کے استقبال کی کیا ضرورت ہے۔ اخبارنویس تو اس کے گلے پڑ گئے، اس نے پھر کہا کہ فوجیوں کو مرنے کے لیئے تنخواہوتی ہے۔ اخبار نویسوں نے مزید شور ڈالا تو اس نے کہا کہ تم لوگ بھی گھروں میں بیٹھے ہوتے اگرتمہیں اخباری ڈیوٹی کے لیے تنخواہ نہ مل رہی ہوتی۔ اس نے اخبار نویسوں سے پوچھا، کیا تمہارا باپ ایئر پورٹ گیا تھا۔ کیا تمہاری والدہ نے وہاں جا کر بین ڈالے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے بیان پر بھارت میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا، اور ریاستی وزیراعلی ستیش کمار نے لوگوں کے جذبات ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنے وزیر کو معذرت پر مجبور کیا۔
اب ذرا اس بیان پر پر نظر ڈال لیجئے جو بھارتی وزیردفاع نے بی جے پی کے دباؤ میں آ کر دیا۔ اس کا کہنا ہے کہ کنٹرول لائن پر پاک فوج کے خصوصی دستوں نے کارروائی کی ہے جنہیں پاک فوج کی مدد حاصل تھی۔ پہلے بیان میں کہا گیا تھا کہ بیس لوگ کنٹرول لائن کے اندرگھس آئے جن کو پاک فوج کی وردی میں ملبوس افراد کی معاونت حاصل تھی۔ کیا دونوں بیان ایک جیسے نہیں ہیں۔ دوسرے بیان میں یہ کہنا کہ پاک فوج کے خصوصی دستوں کو پاک فوج کی معاونت حاصل تھی، اس سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ جب خصوصی دستے بھی پاک فوج کے تھے تو پھر ان کومزید فوری معاونت کی کیا منطق۔ وزیر دفاع نے بیان بدلے بغیر یہ تاثر دیا ہے کہ اس نے بیان بدل لیا ہے۔ الفاظ کے ہیر پھیر سے اس نے اپنی اپوزیشن کو تو بیوقوف بنالیا ہے لیکن عالمی مبصرین کووہ گمراہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا، امریکی ردعمل میں بھی کہا گیا ہے کہ پاک فوج اس واقعہ میں ملوث نہیں، کم از کم بھارت یہ ثابت نہیں کر سکا۔
تو پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے۔ قصہ یہ ہے کہ امن کی خواہش کا اظہارصرف ہمارے وزیراعظم کی طرف سے ہے۔ اور ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار والا معاملہ ہے۔ اوپر سے امریکہ بہادر کا دباؤ ہے کہ مذاکرات کریں۔ ضرور کریں لیکن کوئی مذاکرات کے لیئے تیارتو ہو۔ اندرا گاندھی کو موقع ملا تو اس نے پاکستان کو دولخت کردیا اور یہ اعلان بھی فخر سے کیا کہ نظریہ پاکستان کوخلیج بنگال میں ڈبو دیا۔ ان کی لاڈلی بہو سونیا گاندھی کا کہنا ہے کہ اب بھارت کو پاکستان پر جارحانہ یلغار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، ہم نے پاکستان کو ثقافتی میدان میں سرنڈر پر مجبور کر دیا ہے۔ راہول گاندھی سینہ چوڑا کر کے کہتے ہیں کہ میری دادی نے پاکستان کا (خدا نخواستہ) کریا کرم کر دیا۔ اس سوچ والے ملک کے ساتھ میاں نواز شریف مذاکرات کرنے چلے ہیں تو ضرور کوشش کر دیکھیں۔
بھارت پھنکار رہا ہے۔ ہم نے ابھی تک کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس تک منعقد نہیں کیا۔ اور جو اعلی سطحی اجلاس ہوا بھی ہے، اس کا حاصل یہ کہ نیویارک والی ملاقات ضرور ہونی چاہئے۔ یہ ملاقات اسی صورت ہوگی جب بھارتی اپوزیشن بی جے پی اور حکمران کانگریس کی عقابی سیاست نرم پڑے گی۔ پاکستان میں وزیراعظم کو کوئی بتائے کہ حضور ملک کا مفاد کیا ہے۔ عمران خان بھی اسی وکٹ پر کھیل رہے ہیں۔ پی پی پی کا داؤ نہیں لگا ورنہ پاکستان کو بھارتی چوکھٹ پر سجدہ ریز کر دیتی۔ کوئی کسر باقی ہے تو اب پوری کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔
عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت بھارت سے امن کی بھیک مانگ رہی ہے۔ (13 اگست 2013ء)