خبرنامہ

بھارت کو کشمیریوں کا جواب؟؟۔۔۔اسداللہ غالب

مقبوضہ کشمیر کے اوڑی سیکٹر میں بھارتی فوج کے نمبر بارہ بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پرمبینہ حملے میں سترہ بھارتی فوجی ہلاک اور دو درجن کے قریب زخمی ہو گئے۔ میں نے مبینہ اس لیے لکھا ہے کہ آزاد دنیا نے بھارت کے اس دعوے کو تسلیم نہیں کیا کہ یہ حملہ شدت پسندوں کی طرف سے تھا، بھارت عام طور پر کشمیر میں شدت پسند حملے کی ذمے داری لشکر طیبہ پر ڈالتا ہے ا ور حافظ محمد سعید کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کرتا ہے، اس بار بھارت کی زبان پر غلطی سے بھی حافظ محمدسعید کا نام نہیں آیا، پچھلے ڈیڑھ ماہ کے مصائب پر بھی بھارت نے حافظ صاحب کو مطعون نہیں کیا، قبلہ حافظ صاحب کو شکرانے کے دو نفل ادا کرنے چاہیءں۔البتہ بھارت نے یہ دھمکی ضرور دی کی حزب المجاہدین کے کمانڈر سید صلاح الدین کو بھی برہان وانی کے انجام سے دوچار کیا جائے گا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ سید صلاح الدین کا نیٹ ورک پاکستان کے اندر نہیں ہے، اور خدا ہی جانتا ہے کہ انہیں کشمیری حزب المجاہدین پر کوئی کنٹرول حاصل ہے یا نہیں۔عام طور پر اس وقت عام کشمیری نوجوان، بچے ، بوڑھے، خواتین از خودبھارتی فوج کے خلاف نہتے جلوس نکال رہے ہیں ، وہ کرفیو کی پابندیوں کو خاطر میں نہیں لاتے، ان کاسب سے بڑا ہتھیار سنگریزے ہیں جن کے جواب میں بھارتی فوج ان پر شیلنگ شروع کر دیتی ہے، آنسو گیس کا استعمال تو روٹین بن چکا ہے مگر پیلیٹ گولیوں نے نئے انداز سے ستم ڈھانا شروع کر دیا ہے، ان سے کشمیریوں کے چہروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور کوشش کی جاری ہے کہ یہ خاص طور پر ان کی آ نکھوں کو چھید کر رکھ دیں جن کی وجہ سے کشمیریوں کی بڑی تعداد کی بینائی ضائع ہو گئی ہے، اب ایک نیا ہتھیار آزمانے کی بات کی جا رہی ہے اور یہ ہے مرچوں بھرے کارتوس، ظاہر ہے ان کا نتیجہ بھی وہی ہو گا جو پیلیٹ گولیاں کرتی ہیں، فرق یہ ہو گا کہ ان سے چہرے چھلنی نہیں ہو ں گے ، صرف بینائی ضائع ہو گی۔بھارتی فوج کشمیریوں کی ا یک پوری نسل کو اندھا کیوں کرنا چاہتی ہے، اس کا جواب وہی دے سکتی ہے۔
گزشتہ روز کی کاروائی کس نے کی، شبہہ یہ ہے کہ کسی بھارتی انتہا پسند تنظیم ہی نے یہ ڈرامہ رچایا تاکہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستان کو بدنام کیا جا سکے ا ور خاص طور پر وزیر اعظم پاکستان کو ٹف ٹائم دیا جاسکے۔بھارتی وزیر خارجہ سوشما سوراج کی زبان کتنی لمبی ہے،اس سے ہر کوئی آگاہ ہے ، اوپر سے اس کے ملک کے اکٹھے سترہ فوجی مارے گئے، اب اس کے زہریلے نشتر کون برداشت کر سکے گا۔
ویسے تو اچکزئی اصول کا تقاضہ ہے کہ بھارتی سیکورٹی چیف کو برطرف کر دیا جائے جو در اندازوں سے آگاہ نہیں ہوسکا۔بھارتی آرمی چیف کے کان بھی کھینچنے چاہیءں تاکہ وہ مستقبل میں ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہونے دیں مگر بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ پاکستان پر برسنے کے باوجود بھارت کے پاس ایک بھی دلیل نہیں کہ یہ در اندزوں کی کارستانی ہے، بھارت نے پوری کنٹرول لائن پر خاردار باڑ نصب کر رکھی ہے، ان تاروں میں چوبیس گھنٹے بجلی دوڑتی ہے۔ باڑ کے پیچھے مشین گنوں سے لیس کنکریٹ کے مورچے ہیں اور تھوڑے تھوڑے فاٖصلے پر واچ ٹاور جہاں دوربینوں کا فوکس آزاد کشمیر پر مرکوز رہتا ہے۔ رات کے وقت تیز اور چندھیا دینے والی روشنیاں، جن میں معمولی کیڑی کی سرسراہٹ بھی نظرآ سکتی ہے، اسی کنٹرول لائن پر جنرل مشرف کے اعلان کے بعد سے پاکستانی فوج بھی چوکس پہرہ دیتی ہے، اس قدر فول پروف حصار کے ہوتے ہوئے کس کی مجال ہے کہ کنٹرول لائن پار کرے۔
بہر حال بھارت نے ڈرانادھمکانا شروع کر دیا ہے۔ مودی نے کہا ہے کہ مجرم بچ نہیں سکیں گے۔بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ پاکستان ایک دہشت گرد ریاست ہے۔ بھارتی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ بھاری فوج کواینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہئے، سابق وزیر دفاع چدم برم نے کہا ہے کہ بھارت کو ملکی سلامتی کو یقینی بنانا چاہئے۔ بھارت کے سابق آرمی سربراہان نے تجویز دی ہے کہ پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا جائے۔بھارتی ڈی جی ایم او نے پاکستانی ہم منصب سے فون پر بات کی ہے اور کیا پتہ کیا کہہ ڈالا۔میں نے لکھا تھا کہ مودی اس لئے یو این او نہیں جا رہا کہ وہ پیچھے بیٹھ کر خود کوئی بلاننگ کرنا چاہتا ہے، میرا یہ اندیشہ درست ثابت ہوا،اس وقت جب یہ سطور لکھ رہا ہوں، مودی صاحب ایک ا علی سطحی اجلاس کی صدارات فرما رہے ہیں جو اوڑی حملے پر غورو خوض کے لئے طلب کیا گیا ہے۔اور تو اور نئی دہلی میں متعین امریکی سفیر بھی اوڑی حملے کی مذمت میں پیچھے نہیں رہے۔وہ اب تک کس مصلحت کے تحت چپ تھے جب بھارتی افواج کشمیر میں ظلم وجبر کا بازار گرم کرتی رہیں۔
بھارتی فوجی قیادت نے اپنی حکومت سے کہا ہے کہ اسے پاکستانی فوج کو قرارواقعی سزا دینے کی اجازت دی جائے، بھارتی ایئر فورس کے مغربی اڈوں پر ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے، بھارتی فوج چاہتی ہے کہ کنٹرول لائن پار کئے بغیر توپوں ا ور مشین گنوں کی مدد سے پاکستانی مورچوں پر فائرنگ جاری رکھی جائے اور پاکستان کے گشتی دستوں کو بھی نشانہ بنایا جائے، ابھی سرجیکل اسٹرائیک یا کراس بارڈر کاروائی کا آپشن زیر غور نہیں آیا۔یہ خوف ہے پاکستان کی ایٹمی قوت کا۔ میں یہاں یہ نہیں بتا سکتا کہ بھارت کی کسی مجنونانہ مہم جوئی کا جواب جنرل راحیل شریف کس انداز میں دیں گے کیونکہ کچھ احتیاط مجھ پر لازم ہے۔
بھارتی انٹیلی جنس کا کمال یہ ہے کہ اسے حملے کی یپشگی بھنک تک نہیں پڑی لیکن پٹھان کوٹ کی طرح اسے دراندازوں کی ساری منصوبہ بندی کابعد میں سارا پتہ چل گیا ہے، بھارتی ذرائع کے مطابق درانداز پشتو بول رہے تھے، ان کا تعلق جیش محمد سے تھا ور وہ مسعود اظہر کی کمان میں تھے، بھارت نے پٹھانکوٹ حملے کا الزام بھی مسعود اظہر پر عائد کیا تھا مگراسے ثابت نہ کیا جاسکا اور تحقیقات پر مامو رمسلمان فوجی افسر کو ان کی بیگم صاحبہ کے ہمراہ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہی کچھ بھارت نے سمجھوتہ ایکسپریس اور مالی گاؤں دہشت گردی کی تحقیقات پر مامور انٹیلی جنس افسر کرکرے صاحب کے ساتھ کیاا ورا نہیں ممبئی حملے کے ابتدائی لمحات میں گولی مار دی گئی۔
بھارت کے اس ڈرامے کے لئے ٹائمنگ کا انتخاب لا جواب ہے اورقابل غور ہے، اس وقت ہمارے وزیر اعظم نیویارک میں موجود ہیں جہاں وہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں مگر اس حملے سے بھارت کو یہ جوا زمل گیا ہے کہ وہ پاکستان کو دہشت گردی کے لئے مطعون کرے۔ دوسری طرف عالی جناب بھارتی و زیر اعظم مودی صاحب کی دہشت گردی کے لئے کسی ثبوت کی ضرورت ہی نہیں، وہ اپنی زبان سے ا س کا اعتراف کر چکے ہیں، ایک یہ کہ مشرقی پاکستان کوالگ کروانے کی خواہش ہر بھارتی کی تھی، دوسرے آزاد کشمیر میں مسائل کھڑے کرنا، تیسرے گلگت میں کوئی ڈرامہ رچانا ، چوتھے بلوچستان کے مسائل کو ہوا دینا۔
مگر وہ کشمیر میں مظالم پر کیسے پردہ ڈال سکیں گے ، اب تو کشمیری مائیں سوال کرتی ہیں کہ وہ کب تک ا پنے لاڈلوں کی لاشیں وصول کرتی رہیں گی ۔وزیر اعظم نواز شریف نے ا سی تناظر میں کہا تھا کہ دنیا کو اپنی چپ کا روزہ توڑنا چاہئے۔