خبرنامہ

بھارت کے بھکاری

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

بھارت کے بھکاری

ہم نے انگریز اور ہندو سے آزادی بھیک میں نہیں حق کے طور پر لی تھی اور قائد اعظم کی قیادت میں مسلمانان ہند نے اس کے لیئے ایک عظیم جدوجہد کی تھی۔ آج ہم اپنی تاریخ فراموش کر چکے اور بھارت سے امن کی بھیک مانگ رہے ہیں۔
پاکستان کوروگ اسٹیٹ ثابت کرنے کے لیئے بڑے جتن کیے گئے، رفتہ رفتہ ہم کمزور دفاعی پوزیشن میں دھکیل دیئے گئے۔ اب ایک بھارتی انڈرسیکرٹری نے بھارتی دہشت گردی اور بلیم گیم کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ اور ہماری عزت رکھ لی ہے۔
مگر اس میں ایک کھنڈت پڑ گئی ہے۔ میں عدلیہ کے انتہائی احترام کا قائل ہوں۔ مگر اس کا ایک حالیہ فیصلہ محل نظر ہے۔ ہماری سپریم کورٹ نے فیصلہ سنادیا کہ آئندہ کوئی بجٹ خفیہ نہیں ہوگا، گویا ہم جو کچھ بھی خفیہ طور پر کریں گے، ہمارا آڈیٹر جنرل ان خفیہ کارروائیوں کا آڈٹ کرنے کا پابند ہوگا۔ عدالت نے کہا تو ہے کہ حساس قومی معاملات افشانہ کیئے جائیں مگر حمودالرحمان کمیشن رپورٹ بھارت نے افشا کر دی اور ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ الجزیرہ کی با کمال ر پورٹنگ کے نتیجے میں منظر عام پر آگئی تو پھر ایک آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے کسی اہل کار سے خفیہ اداروں کی کارروائیوں کی تفصیل حاصل کرنا کسی کے لیے بھی مشکل کام نہیں ہوگا۔
مثال کے طور پر ہمارا کوئی خفیہ ایجنٹ الف ب پ اپنے اصلی نام کے بجائے ایکس وائی زیڈ کے جعلی نام سے سرحد پار کرتا ہے۔ اس کے تمام اخراجات اور ہرقل وحرکت کی تفصیل آڈیٹر جنرل کے ریکارڈ میں آجائے گی۔ اس رپورٹ کو اگر دوسرا ملک حاصل کر لے تو اسے محض الزام لگانے کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ وہ شواہد کی روشنی میں ہمیں نکو بنائے گا کہ ہمارا فلاں شخص فلاں نام سے فلاں مقام پر موجود تھا اور ہم اس حقیقت کو جھٹلانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔ عدالت کے سامنے میڈیا کے خفیہ کھانوں کا مقدمہ تھا مگر فیصلہ سب اداروں کے خفیہ کھاتوں کے بارے میں آ گیا۔
ہم تو دنیا کے سامنے ننگے ہو جائیں گے لیکن ہمیں بھی پتا نہیں چل سکے گا کہ برطانوی ایم آئی فائیو یاسکس نے کتنے ملین پاؤنڈ ہمارے کس چینل کو عنائت فرمائے یا بھارتی رانے کتنے بلین روپے ہمارے کس اخبار پر نچھاور کیئے یا امریکی سی آئی اے نے کتنے ملین ڈالر خفیہ طور پر ہمارے میڈیا، ہماری این جی اوز یا ہماری بیورو کریسی یا ہمارے نتخب نمائندوں کو دان کیئے اور کس مقصد کے لیئے کیئے۔
دنیا میں ملک پہلے بنتے ہیں، ان کا آئین بعد میں بنتا ہے کسی ملک کی سکیوریٹی، آزادی، اقتدار اعلی کاتحفظ پہلے ہے اور آئین اس کی ضمانت دینے کا پابند ہے مگر مجھے خدشہ ہے کہ نئے عدالتی فیصلے نے اس فریضے پربعض قدغنیں عائد کردی ہیں۔ وزیر اطلاعات نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ماضی کے بجٹ اخراجات کا بھی آڈٹ کروایا جائے گا، اس سے تو سارا بھید ہی کھل جائے گا کہ ہم نے اپنا ایٹمی پروگرام پروان چڑھانے کے لئے کس ملک کے کسی ادارے یا فردکوکتنی ادائیگی کی اور اگر یہ آڈٹ رپورٹ امریکہ کے ہتھے چڑھ گئی اور ضرور چڑھ جائے گی تو پھر پاکستان کا اللہ ہی حافظ وناصر ہوگا۔ ڈاکٹرقد پر ایک بار پھر معافیاں مانگنے کی تیاری کر لیں۔
آج تو بھارتی انڈرسیکرٹری نے ہماری عزت رکھی ہے۔ ہماری آئی ایس آئی بھی بری ہوگئی، حافظ سعیدبھی بے گناہ ٹھہر ے، ذکی الرحمن لکھوی بھی مزید عتاب سے محفوظ ہو جانے چاہئیں،لشکر طیبہ اور جماعت الدعوہ کی بدنامی کا مسئلہ بھی ختم ہو گیا۔ اور مجموعی طور پر ہماری فوج بھی نیک نام ثابت ہوئی کہ اس نے نہیں، خود بھارت نے اپنے ملک میں دہشت گردی کا ڈرامہ رچایا۔ بھارت افضل گورو کی پھانسی میں بھی کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا، اس پرتو الزام تھا کہ اس نے بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کیا جبکہ بھارتی انڈرسیکرٹری کہتا ہے کہ یہ حملہ بھارتی خفیہ اداروں نے خود کیا۔ اورممبئی حملے جو دوروز تک دنیا کے ٹی وی چینلوں پر تماشہ بنے رہے اور جن میں اجمل قصاب کو پھانسی دی گئی، وہ بھی بھارت کی اپنی کارستانی نکلے۔ اب تو ہمارا وہ میڈیا منہ چھپائے پھرتا ہے جو اجمل قصاب کے پاکپتن کے نواح میں مبینہ گاؤں فرید کوٹ کی جھلکیاں دکھانے کے جنون میں مبتلا رہا۔ یہ اجمل قصاب جس کو پھانسی دی گئی، اس کا اعترافی بیان تمام ٹی وی چینلز پر چلا ہے اور وہ میراٹھی زبان بول رہا ہے اور اپنے کسی بھگوان سے معافیاں مانگتا سنائی دیتا ہے۔ کیا پاکپتن کے علاقے میں میراٹھی زبان بولی جاتی ہے، ہمارے مخصوص میڈیا کو ذرا قومی غیرت کا احساس نہیں اور وہ بھارت کے الزامات کو سچ ثابت کرنے تلارہا۔
بھارت میں سمجھوتا ایکسپریس کا سانحہ ہوا، اس کا الزام بھی پاکستان پرلگا،لشکر طیبہ اور جماعت الدعوہ پر لگا، آئی ایس آئی پر لگا مگر اس جرم میں پکڑا کون گیا، بھارتی فوج کا ایک حاضر سروس افسر۔ مالی گاؤں میں سانحہ ہوا، اس کا بوجھ بھی آئی ایس آئی پر لادا گیا مگر پڑے کون گئے، بھارتی فوج کے ہی حاضر سروس افسر اور جو پولیس افسر، اس کی تحقیقات کر رہا تھا، اسے بھی سانحے کے ابتدائی لمحات میں اسی اجمل قصاب نے گولیوں سے بھون دیا۔
میری خواہش ہے کہ امن کی آشاوالے اور سیفما مل کر بھارتی دہشت گردی کے بے نقاب ہونے پر ایک سیمینارکریں اور یہ سیمینار دنیا بھر کے چینلز پراسپانسر بھی کریں تا کہ بھارت کا مکروہ چہرہ اقوام عالم کے سامنے بے نقاب ہو سکے۔ مگر سیفما اور امن کی آشاوالے بھول کر بھی ایسا نہیں کریں گے۔
دنیا ہمیں سبق دیتی ہے کہ کچھ عرصے کے لیے کشمیر کو بھول جاؤ حالانکہ ہمیں سبق یہ ملنا چاہئے کہ کچھ عرصے کے لیئے بھارت کو بھول جائیں۔ بلکہ فارن آفس میں پاک بھارت تعلقات کی فائل کسی ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جائے۔ بھارتی انڈرسیکرٹری نے جو راز اگل دیئے ہیں، اس کے بعد بھارت سے کسی نیکی کی توقع عبث ہی نہیں، گناہ کبیرہ بھی ہے، ہمارے کچھ لوگوں کے ذہن میں بھارت سے دوستی اور محبت کا کیڑا پل رہا ہے، یہ کیڑا ہماری بر بادی اور بدنصیبی کا باعث ہے،بہتر ہے کہ ہیلوگ اپنے ذہن میں کیڑے مار دوا کا چھڑکاؤ کریں، ویسے یہ چھڑکاؤ کا بھارت کے انڈرسیکرٹری نے کرہی دیا ہے۔
آج تک ہم بھارت سے امن کی بھیک مانگتے رہے، اب اس کے ایک انڈر سیکرٹری نے بھارت کومجبورکر دیا ہے کہ وہ ہم سے امن کی بھیک ما نگے مگر مجھے ڈر ہے کہ ہمارے عادی بھکاریوں کی ذہنیت نہیں بدلے گی۔ (18 جولائی 2013ء)