خبرنامہ

بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں وزیراعظم کی شرکت.. کالم اسداللہ غالب

بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں وزیراعظم کی شرکت.. کالم اسداللہ غالب

چین میں بیلٹ اینڈ روڈ فورم اس لئے بھی یادگار رہے گا کہ اس میں وزیراعظم کے ہمراہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور وفاقی وزرا بھی شامل تھے جس سے پوری دنیا کو قومی یکجہتی اور اتفاق و اتحاد کا درخشاں پیغام ملا۔ جس قدر اس فورم کو عالمی سطح پذیرائی ملی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان بلکہ آدھی سے زیادہ دنیا کے لئے گیم چینجر ثابت ہو گا۔ بیجنگ میں ہونے والی ون بیلٹ ون روڈ فورم کانفرنس دو دن جاری رہی اور اس میں انتیس ممالک کے سربراہان شریک ہوئے ۔چینی صدر شی جن پنگ‘ وزیراعظم نواز شریف‘ روسی صدر ولادی میر پوٹن اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سمیت درجنوں ممالک کی اہم ترین حکومتی شخصیات نے فورم سے خطاب کیا اور اسے تین براعظموں بلکہ پوری دنیا کی معاشی ترقی کے لئے ایک سنہری اقدام قرار دیا۔
فورم سے وزیراعظم نواز شریف کا خطاب انتہائی مدلل‘ جاندارارور استدلال پر مبنی تھا۔ انہوں نے جہاں درپیش علاقائی مسائل کا ذکر کیا ،وہیں اس عظیم منصوبے کی اہمیت بھی واضح کی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ 3 براعظموں کو ملا رہا ہے، منصوبے سے ایشیا، افریقا اور یورپ کو آپس میں ایک دوسرے سے ملانے میں مدد ملے گی جس سے دنیا کے 65 ممالک مستفید ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ شاہراہ ریشم کی یاد تازہ کرتا ہے، اس میگا پراجیکٹ کے تحت منصوبے نہ صرف غربت کے خاتمہ کا باعث بنیں گے بلکہ ان منصوبوں سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔ وزیراعظم نے بجا فرمایا کہ ایسے منصوبے خوشحالی لانے کا باعث بنتے ہیں کیونکہ کسی ملک میں جس قدر جہالت اور اندھیر نگری ہو گی وہاں دہشت گردی اور انتہا پسندی پھلے پھولے گی۔ اس دہشت گردی کو ختم کرنے کا ایک راستہ تو یہ ہے کہ دہشت گردوں کا صفایا شروع کر دیا جائے لیکن اس ایک کام سے متوقع نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ دہشت گردی کو جب تک جڑوں سے نہیں اکھاڑا جائے گا، وہ اسی طرح پھلتی پھولتی رہے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک چین دوستی شہد سے میٹھی اور سمندروں سے گہری ہے اور اس کی واضح مثال سی پیک منصوبہ ہے جس پر تیزی سے عمل درآمد ہو رہا ہے۔ اب ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ سی پیک کے ساتھ منسلک ہو کر اس کو بھی چار چاند لگا دے گا۔
یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ کے تحت کاشغر سے گوادر تک گیس ، پٹرول پائپ لائن کی تعمیرکا کام کیا جا چکا ہے اور کوئلے اورشمسی توانائی سے متعلقہ پراجیکٹس تعمیری مراحل میں ہیں۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ جسے ہم سی پیک کہتے ہیں اس کے ذریعے پاکستان اور چین روڈ،ریل اور ہوائی ذرائع آمدورفت کی بدولت اپنے اندرونی تعلقات میں تیزی کے ساتھ اضافہ کر سکیں گے۔ دونوں اطراف کی مرکزی اور مقامی حکومتیں سی پیک کی تعمیر و ترقی میں یکساں دلچسپی لے رہی ہیں تا کہ اسے جلد از جلد مکمل کر کے خطے اور علاقائی ترقی کو نئی زندگی بخشی جا سکے ۔
ون بیلٹ اینڈ ون روڈ فورم سے خطاب میں چینی صدر شی جن پنگ نے بھی بڑی پتے کی بات کی کہ اب کوئی بھی ملک تنہا معاشی ترقی نہیں کر سکتا۔ وہ زمانے لد گئے جب اکیلا ملک دوسرے کو پچھاڑ دیتا تھا۔ ایسا ہوتا تو جاپان آج چین سے آگے نکل چکا ہوتا۔ چین کی برتری کی بڑی وجہ یہی ہے کہ یہ دنیا کو ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے۔ اسی لئے اب وہ دور آ چکا ہے جس میں تمام ممالک کو مل کر جدوجہد کرنا ہو گی اور اپنا اپنا حصہ حاصل کرنا ہو گا۔ اب ڈیڑھ انچ کی مسجد بنانے کی بجائے باہمی اتحاد و اتفاق سے ہی خطے کے ممالک ترقی کے زینے طے کر سکتے ہیں۔ بھارت نے اس فورم کا بائیکاٹ کیا ہے تو یقینا اس کا اسے نقصان ہی پہنچے گا۔ وہ امریکہ پر زیادہ انحصار کرتا ہے لیکن علاقے میں چین بڑی سپر پاور اور زیادہ اثرو رسوخ کا مالک ہے۔ امریکہ مگر بھارت کو چین کی طرح مضبوط اور اس کے مقابلے میں تیار کرنا چاہتا ہے۔ چین کو اس امر کا پورا ادراک ہے جبھی تو اس نے سی پیک کو دو ممالک تک محدود رکھنے کی بجائے ون بیلٹ ون روڈ جیسے فورم تک پھیلا دیا اور 65ممالک کو اس میں شامل کر لیا۔ ان ممالک میں سے کون چاہے گا کہ وہ دنیا کے ساتھ تجارت نہ کرے اور اپنی معیشت اور برآمدات میں اضافہ نہ کرے۔ ون بیلٹ ون روڈ کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے یہ 65ممالک چین کے ساتھ سڑک اور ریل کے جدید نظام سے منسلک ہو جائیں گے ۔و ہ چین سے اشیا منگوا بھی سکیں گے اور اس کے راستے میں موجود تمام ممالک سے ٹریڈ بھی کر سکیں گے۔ اس کی اہمیت کا اعتراف ترک صدر رجب طیب اردوان نے کر لیا اور فورم سے خطاب میں کہا کہ اس فورم سے دنیا کا مستقبل وابستہ ہے ۔ اسی طرح روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے بھی فورم کی بھرپور حمایت کی اور کہا وہ اس منصوبے میں سرمایہ کاری کیلئے تیار ہیں۔یہ تمام عالمی رہنما اس کانفرنس سے پرامید لوٹے کیونکہ اس سے ان کے ممالک میں تعلیم، سیاحت اور ثقافت کے شعبوں میں روابط کو فروغ ملے گا اور ان کے عوام خاطر خواہ ثمرات سمیٹ سکیں گے۔
یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ میری ٹائم سلک روڈ بھی اس منصوبہ کی ایک کڑی ہے۔اس منصوبے سے گوادر اور کاشغر کے درمیان آئل پائپ لائن کے ذریعے ایک ملین بیرل ایک دن میں سپلائی کیا جا سکے گا ۔ اس کی افادیت کا ادراک وزیراعظم نواز شریف نے ان الفاظ سے کیا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ سرحدوں کا پابند نہیں اور اس منصوبے سے خطے کے تمام ممالک مستفید ہو سکتے ہیں جب کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سے بین البراعظمی تعاون کا نیا دور شروع ہو رہا ہے۔ چائنا ریلوے ایکسپریس منصوبہ باہمی روابط کیلئے پل ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سی پیک منصوبے کے باعث دنیا بھر سے سرمایہ کار پاکستان کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں اور اب ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سے پاکستان میں ترقی کے نئے در کھلیں گے۔ پاکستان کی 65 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان منصوبوں کی مدد سے نوجوان نسل کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسے عالمی سطح کے منصوبوں سے امیر اور غریب ممالک کے درمیان فرق کم ہوگا۔
پاکستان کو اس دورے میں خصوصی اہمیت حاصل رہی۔ اس کی ایک وجہ وزیراعظم نواز شریف اور ان کی ٹیم کی وہ کمٹمنٹ تھی جو انہوں نے چین کے ساتھ کی ہے۔ تمام منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے اور چین کو یقین ہے کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں بھی پاکستان بھرپور دلچسپی لیتے ہوئے اپنا کردار ادا کرے گا۔