خبرنامہ

بیک چینل۔۔ پیٹھ پیچھے چھرا۔۔ ڈپلومیسی

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

بیک چینل۔۔ پیٹھ پیچھے چھرا۔۔ ڈپلومیسی

وزیراعظم نے کہا ہے کہ بھارت سے بیک چینل ڈپلومیسی دوبارہ شروع کر دی گئی ہے۔ انگریزی زبان کی اس اصطلاح کا بھارت میں یہ ترجمہ کیا جاتا ہے کہ پیٹھ پیچھے چھرا گھونپو۔ ہندو کی تو سرشت ہی یہ ہے کہ بغل میں چھری، منہ میں رام رام۔ چانکیہ اس نظریے کا خالق ہے اور بھارت نے ہمیشہ اس پالیسی کو بڑے گھناؤنے انداز میں استعمال کیا ہے۔
یہ بیک چینل ڈ پلومیسی ہی تو ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس کو اپنے فوجی افسروں کے ہاتھ آگ لگوادو اور پھر اس کا الزام آئی ایس آئی پر دھر دو۔ سہی نا ک بھارت نے اپنی پارلیمنٹ پر حملے کے لیئے کھیلا۔ اس جرم میں تو ایک کشمیری لیڈرفضل گرو کو پھانسی بھی دے دی گئی ہے لیکن پارلیمنٹ پر حملے کا سارا الزام پاکستان پر عائد کیا گیا اور بدلہ لینے کے لیے سرحد پرفوجیں متعین کر دیں۔ پاکستان کے لیئے اپنے دفاع میں اور کوئی چارہ کار نہ تھا کہ وہ ایٹمی اسلحے سے لیس میزائل عین سرحد کے اوپر نصب کر دے تا کہ وہ اپنی مار کی حد سے ایک انچ بھی آگے پیچھے نہ گریں۔ ممبئی کے سانحے میں تو دنیاپر یہی ظاہر کیا جارہا تھا کہ یہ حملہ پاکستان کی آئی ایس آئی کی مدد سے لشکرطیبہ کے نوجوانوں نے کیا ہے لیکن بیک چینل ڈپلومیسی یہ تھی کہ اس کے اپنے آدمی اجمل قصاب نے یہ سارا ڈرامہ رچایا۔ اب اس بیک چینل ڈپلومیسی کا بھانڈا ایک بھارتی انڈرسیکرٹری نے پھوڑ دیا ہے۔
پاکستان کو بھارت سے بہت عشق ہے، بھارت کو اس سے بھی زیادہ پاکستان سے عشق ہے اور وہ توواہگہ کی لکیر کو غیر ضروری سمجھتا ہے۔ بھارت نے پیسہ پانی کی طرح بہا کر پاکستان میں بھی اپنے ہم نواؤں کا ایک بہت بڑا ٹولہ اکٹھا کر لیا ہے جو اس کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے، اور واہگہ بارڈر پر ہندووں کے ساتھ مل کر موم بتیاں روشن کرتا ہے، ان کے بس میں ہوتو وہ میرے گاؤں فتوحی والہ کے سامنے قیصر ہند پر بھگت سنگھ کا میلہ بھی مشترکہ طور پر منائیں لیکن وہاں خود بھارت نے ایسے مورچے تعمیر کر رکھے ہیں جو دوسری جنگ عظیم میں جرمن اور فرانس کی سرحد پر قائم مورچوں سے بھی زیادہ مضبوط ہیں۔ اور ان کے دہانوں سے وکرس مشین گنوں کی تالیاں کسی بھی گھس بیٹھیئے پرتڑتڑانے کے لیئے بے چین رہتی ہیں۔
بیک چینل ڈپلومیسی کے کئی لبادے ہیں۔ کبھی اس کوٹر یک ون کہا جاتا ہے، کبھی ٹریک ٹو کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کھیل کی سر پرستی امریکہ بہادر کے ذمے ہے، ایک بار امریکی سنٹر لاہور نے مجھے ایسے ہی ایک وفد میں شامل ہو کر بھارت جانے کے لئے کہا، میں نے معذرت کر دی۔ مجھے بھارت پر ذرہ بھراعتمار ہیں۔ اس وفد میں محمودشام بھی شامل تھے اور وہ ان دنوں ایک ایسے اخبار سے منسلک تھے جوٹر یک ون، ٹو، تھری وغیرہ میں پیش پیش تھا۔ اس وفد کی قیادت لا ہور میں امریکی سنٹر کے ایک افسر کے سپرد تھی اور دہلی کے ہوئی اڈے پر ان کا استقبال کرنے کے لیئے بھی امریکی حکام موجود تھے لیکن لاونج میں ایک بھارتی افسر نے گرجدار آواز میں کہا کہ طارق محمود ایک طرف ہوجائے اور باقی لوگ باہر چلے جائیں۔ ہر کوئی حیران تھا کہ اس نام کا کوئی شخص وفد میں شامل نہیں تھا تو پھر بھارتی افسر کوکس شخص کی تلاش تھی۔ یہ راز اس وقت کھلا جب محمود شام صاحب ایک طرف ہو کر کھڑے ہو گئے۔ وفد کے ارکان نے متفقہ موقف اختیار کیا کہ اگر شام صاحب کو کلیئرنس نہیں ملتی تو کوئی بھی پاسپورٹ کنٹرول سے باہر نہیں جائے گا۔ بھارتیوں نے اس دھمکی کا بھی کوئی اثرنہ لیا اور جب منٹ گھنٹوں میں تبدیل ہونے لگے تو شام صاحب نے کہا کہ اگر داخلے کی اجازت نہیں دیتے تو انہیں اسی فلائٹ سے واپس پاکستان جانے دیا جائے مگر سنی ان سنی کر دی گئی اور خاصی تگ و دو اور اعلی ترین سفارتی رابطوں کے بعد طارق محمود کوکلیئر کر دیا گیا کسی کو کچھ پتا نہیں کہ طارق محمود عرف محمود شام، یکا یک بھارت کا ناپسندیدہ شخص کیوں بن گیا۔ یہ تھا بیک ڈور ڈپلومیسی کا ایک مظاہرہ جو بھارت نے امریکیوں کی آنکھوں کے عین سامنے کیا۔
برطانوی وزیر خارجہ ولیم بیگ کو برصغیر سے کیا دلچسپی لاحق ہوگئی ہے، اس کا ملک تو ہمیں چھوڑ کر اس خطے سے چلا گیا تھا۔ جاتے جاتے اس نے پنجاب کی تقسیم میں ڈنڈی مار کر کشمیر کا مسئلہ پیدا کر دیا جو دونوں ملکوں میں بار بار جنگ کا باعث بنا۔ یہ مسئلہ ابھی تک لایخل ہے۔ اور جنگ بندی کے باوجود اکا دکا تصادم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی اسلحے سے لیس ہیں اور کشمیر کا مسئلہ کی وقت بھی سلگ کر بھڑک اٹھا تو ایٹمی اسلحہ، انسانیت کی عظیم تباہی کا باعث بنے گا۔ اب بجائے اس کے کہ برطانی اپنا اثر ورسوخ استعمال کر کے، اگر کوئی ہے۔ اس مسئلے کوحل کرائے مگر وہ ایک چینل ڈپلومیسی کی بحالی کی خوشخبری سننے کے لئے بے تاب نظر آتا ہے جو ہمارے وزیراعظم نے انہیں سنا دی ہے۔ اس بیک چینل ڈپلومیسی میں کشمیر کے مسئلے کا دور دور تک ذکر نہیں ملتا، صرف دوستی اور امن کی آشاؤں کو پروان چڑھانے کی باتیں ہوتی ہیں۔ بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن کا رتبہ دینے پر زور دیا جاتا ہے، بھارت کی گوشمالی کرنے والا کوئی نہیں کہ وہ آئے روز بے گناہ کشمیریوں کا خون بہا رہا ہے اور کشمیری لیڈروں کونظر بند کر دیتا ہے۔ کشمیری خواتین کی اجتماعی آبروریزی کے گھناؤنے جرائم بھی رونما ہوتے ہیں اور یہ خواتین ساری عمر نفسیاتی مریض بن کر رہ جاتی ہیں۔ بھارت کی سینہ ز وری دیکھئے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چناب اور جہلم پر دھڑادھڑ ڈیم بنا رہا ہے جس سے آزادکشمیر کا خطہ متاثر ہورہا ہے اور پاکستان کا وسیع رقبہ بھی بنجر اور ویرانے میں تبدیل ہورہا ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ پاکستان کا حق مار کر بھارت جو پانی چوری کرتا ہے۔ ہم اس سے پیدا ہونے والی بھی خریدنے کے لیئے جھولی پھیلا رہے ہیں۔ اس عقل و دانش پر رونا آتا ہے۔
پاکستان کی خالق جماعت کی میراث کے دعویدار، قائد اعظم کے اصولوں کو کیوں پامال کررہے ہیں، وہ بھارت کی بالا دستی کے لیے کیوں کوشاں ہیں۔ بھارت کسی کو کھا نہیں جائے گا، پتا نہیں ہمیں شکست خوردہ قیادت سے واسطہ کیوں پڑ گیا۔
پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے، اس کواللہ نے ہرنعمت سے نوازا ہے، معدنیات سے لبریز سرزمین، جفاکش اورمحنتی آبادی جو دو وقت کی روٹی پر قناعت کرنے لیے تیار ہے، بس سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کا پیٹ ہی نہیں بھرتا، وہ راتوں رات امیر سے امیر تر ہونے کے جنون میں مبتلا ہیں۔ بھارت سے تجارت کے لیے مرے جارہے ہیں اور اپنی فیکٹریوں کو تالے لگوانا چاہتے ہیں۔ بھارتی ثقافت کے سامنے ہماری اشرافیہ تو کبھی کی سرنڈر کر چکی۔ پلٹن میدان کے بعد بھارت ایک اور سرنڈر چاہتا ہے، خدا نہ کرے کہ ایسا لمحہ آئے، قوم کو اس سرنڈر کے سامنے سینہ سپر ہو جانا چاہیے۔ (21 جولائی 2013ء)