بے بنیاد کج نہاد کمیٹی
معمار نے پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دی تو دیوار آسان تک ٹیڑھی بنے گی۔
ہمارے معمار وزیر اعظم ہیں، ان کی پارلیمانی پارٹی نے ڈھیر سارا خون دیکھا تو آپریشن کا مشورہ دیا وزیراعظم جو بھی پارلیمنٹ میں نہیں گئے تھے، شتابی سے ایوان میں پہنچے اور چارغیرمنتخب افراد پرمشتمل ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے دی۔ پھر ایک رکن کو اس کا رابطہ کار افسر مقرر کر دیا، وزیر کا منصب انہیں پہلے ہی عطا ہو چکا تھا، اب تو وہ گویاظل الٰہی کے مرتبے پر فائز ہوگئے، افغانستان اور پاکستان کے عوام کے مستقبل کا فیصلہ ان کی مٹھی میں تھا، وہ جب تک لکھتے اور بولتے رہے، آزادی اظہار کا ڈنکا بجاتے رہے لیکن ظل الٰہی بنتے ہی میڈیا کو پہلی ہدائت یہ ملی کہ کمیٹی کو مقدس اور اوتارگائے کا رتبہ حاصل ہے۔ یعلم ان اخبارات پرتو جادواثر ثابت ہوا جو سرکاری اشتھارات کے مرہون منت ہیں۔ یہ جمہوری دور کی زبان بندی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی لیا گیا کہ کمیٹی کی تشکیل پرڈونگرے برسائے جائیں تو ہر طرف سے واہ واہ! مرحبا! کاغوغا بلند ہونے لگا۔
کمیٹی کے ارکان حسب نسب کے لحاظ سے شریف لوگ ہیں مگر انہوں نے کرنا کیا ہے۔ کسی کو اس کا علم نہیں،شاید خود کمیٹی کو بھی اس کا اتا پتا کچھ نہیں۔ بس میڈیا میں تشہیر کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیا جاتا۔ میٹی کو ابھی تک یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے شرائط و ضوابط کاتعین ہی کر سکے اورکم ازکم یہ بنیادہی طے کر سکے کہ بات چیت آئین پاکستان کی حدود و قیود کے اندر ہوگی۔ ظل الٰہی کے ایک ساتھی نے پہلے ہی کہہ دیا کہ مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں سے فوج کو واپس بلانا ہوگا، یہ پیشکش ریاست پاکستان کے سرنڈر کے مطابق ہے۔ ایسی ذلت کا سامنا شاید پلٹن میدان میں بھی نہیں ہوا تھا سقوط بغداد اور سقوط غرناطہ کے ہنگام کو بھی ایسی ذلت برداشت نہیں کرنا پڑی کمیٹی نے اس چارٹرکو آ گے بڑھانا ہے تو بہتر یہ ہوگا کہ جنرل مشرف کے ساتھ ساتھ اس کیٹ کا بھی آرٹیکل چھ کے تحت ٹرائل شروع کر دیا جائے، یہ ٹرائل آج نہیں ہوتا تو کل ضرور ہوگا۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز نہیں، اس کے ہاں دیر تو ہے، اندھیر ہرگز نہیں، مشرف بھی ظل الٰہی بنا پھرتاتھامگر اسے مکافات عمل کا سامنا کرناپڑا اور اگر سرکاری امن کمیٹی نے آئین کے منافی کوئی معاہدہ کیا تو اسے بھی تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا۔
طالبان کی طرف سے جو نام سامنے آرہے ہیں، وہ نہلے پہ دہلے کے مترادف ہے۔ حکومت کی غیرسنجیدگی تو قابل فہم تھی مگر طالبان کی طرف سے جید علمائے کرام کے ساتھ مذاق کی منطق مجھ سے بالاتر ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان علمائے دین کا طالبان کی بارہ سال حرکات سے کیا تعلق، کیا وہ خودکش بمبار جیتے رہے، کیا وہ فوج اور رینجرز پرحملوں کی منصوبہ بندی کرتے رہے، کیا سونے میں تولنے کے لائق مفتی سرفرازی کی شہادت کا سبب انہیں قرار دیا جائے۔ اور ایک مفتی نعیمی پر کیا موقوف، یہاں تو ساٹھ ہزار بے گناہ شہادتوں کی خلعت سے سرفراز ہوئے، لاکھوں گھر اجڑ گئے۔ ملک برباد ہو کر رہ گیا، اس سارے فساد کا ہمارے علمائے دین سے کیا تعلق۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ ان علما کو پاکستان کی امریکہ نواز پالیسی نا پسند ہومگر یہ کیسے مان لیا جائے کہ تاریخ کی سب سے بڑی خونریزی سے ان علما کا دور کا بھی کوئی تعلق بنتا ہے، طالبان مذاکرات کے خواہاں ہیں تو وہ اپنی صفوں سے نام سامنے لائیں، اپنے کمانڈروں اور منصوبہ سازوں کے چہرے سے نقاب ہٹائیں۔
جہاں تک امریکہ نواز پالیسی کا تعلق ہے، یہ غلط تھی یا درست، لیکن یہ حقیقت ریکارڈ پر ہے کہ ایسی پالیسی بنانے والے فوجی آمر کے دور میں ان علمائے کرام نے ایم ایم اے کے نام سے خیبر پی کے میں پانچ سال تک حکومت کی اور یہی وہ صوبہ ہے جو دہشت گردی کی نام نہاد جنگ کا مرکز ومنبع تھا، مگر ان علما نے جزل مشرف کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے صوبائی حکومت سے استعفا دیا، ن قومی اسمبلی اور سینیٹ کی سیٹیں چھوڑیں۔ محاورے کی رو سے خاموشی نیم رضا ہوتی ہے۔ تو یہ علا آج طالبان کے ترجمان اور نمائندہ کیسے ہوگئے۔
بنیادی طور پرامن مذاکرات کے لیئے سنجیدگی کا فقدان نظر آتا ہے۔ سرکاری کمیٹی کو سستی شہرت درکار ہے سوا سے مل رہی ہے۔ کیمروں کی چکا چوند انہوں نے شاید پہلی بار دیکھی ہے اور وہ اسے بھر پور طور پر انجوائے کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں ایک لمحہ کے لیئے بھی خیال نہیں آیا کہ وہ جمہوری پارلیمانی نظام کی نفی کر رہے ہیں، منتخب وزیرداخلہ کو پس پردہ دھکیل دیا گیا ہے۔ چودھری نثار شاید آج تک اپنی سیٹ نہیں ہارا اور عرفان صدیقی کوکبھی خیرات میں ہی سینیٹ کی سیٹ مل سکتی ہے ورنہ وہ اپنے محلے میں کونسلری کی سیٹ نہیں جیت سکتے، اگر انہیں کوئی شبہ ہو تو وہ آنے والے بلدیاتی انتخاب میں اپنی پاپولیریٹی کا جائزہ لے لیں، کسی خانہ ساز گیلپ پول کا سہارا نہ لیں، نہ وزیراعظم کی قربت کے ترازو میں اپنا وزن تولنے کی کوشش فرمائیں۔ میجر عامر کے قصیدے ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آتے، ان کے کسی آبائی مدرسے کی تعریفوں کے پل باندھے جارہے ہیں۔ حالانکہ اس مدرسے سے اگر کوئی جید ہستی فارغ اتحصیل ہو کر کی ہو تو اس کا کسی کو تو علم ہونا چاہیئے۔ میجر عامر کی وجہ شہرت دراصل آپریشن مڈنائٹ جیکالز ہے جس میں انہوں نے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹنے میں ایک انٹیلی جنس ادارے کے چھوٹے سے افسر کے طور پر کردار ادا کیا۔ اور وہ اس مشن میں بری طرح ناکام رہے۔ ذاتی طور پر وہ مرنجاں مرنج انسان ہیں لیکن جس ملک میں آئی ایس آئی کے کئی ریٹائرڈ سربراہ موجود ہوں، وہاں اس ادارے کے ایک میجر کی سطح کے افسر کی صلاحیتوں کی رائی کو پہاڑ بنا کر کیوں پیش کیا جا تا ہے۔ اور اس ملک میں کئی آرمی چیف بھی ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں، یہ سب طالبان کے قریب رہے یا مقابل رہے، پھر نجانے کتنے منجھے ہوئے سفارت کار ہیں جن پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ اور بیورو کریٹ جن کی زندگی ہی عام آدمیوں کی نفسیات کو سمجھنے میں گزرگئی، ان سب پر ہم نے لات ماری اور بھٹے سے چند نا پختہ اینٹیں پکڑ کر ان کی عمارت کھڑی کرنے کے لئے بنیاد میں رکھ دیا۔ جب دیوار ہی ٹیڑھی بنے گی تو اس پر استوار ہونے والی عمارت نازک تنکوں کی طرح ہوا کے ہلکے سے جھونکوں کے سامنے لرزاں رہے گی۔
افسوس! ملک کی قسمت کو بچوں کا کھیل بنادیا گیا ہے۔ (3 فروری 2014ء)