خبرنامہ

تاریخ کا اگلاباب شہباز شریف نے لکھا….اسد اللہ غالب….انداز جہاں

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

تاریخ کا اگلاباب شہباز شریف نے لکھا….اسد اللہ غالب….انداز جہاں
مجھے اتوار کی صبح اپنے ہمدم دیرینہ شعیب بن عزیز کے گھر جا نا تھا۔ ان کے ایک بہنوئی کا حال ہی میں لندن میں انتقال ہو گیا، اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ا ور ان کے پس ماندگان کوصبر جمیل عطا فرمائے، یہ وہ دعائیں ہیں جو رسم بن کر رہ گئی ہیں۔

شعیب کا ایک پیغام اس طے شدہ ملاقات کی راہ میں رکاوٹ بن گیا، انہوںنے اطلاع دی تھی کہ ہفتہ اور اتوار کو لاہور میںنہیںہوں گے، ظاہر ہے کہ انہیں خادم اعلی میاں شہباز شریف کے ساتھ اسلام آباد جانا پڑا جنہیں میری رائے میں جے آئی ٹی نے بلا وجہ طلب کیا تھا۔ شہباز شریف کاذکر پانامہ پیپزر میں کہیں نہیں ہے، سپریم کورٹ کے دو بنچ اس کیس کی سماعت کرتے رہے، مہینوں کی اس سماعت کے دوران بھی شہباز میاں کا کہیں نام نہیں آیا،سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیا کہ مزید تحقیقات جے آئی ٹی کرے گی ، اس کو جو نام دیئے گئے تھے، اس فہرست میں بھی کہیں شہباز صاحب کا نام نہیں تھا، مگر انہیں طلب کر لیا گیا، اور انہوںنے بھی اپنے بڑے بھائی اورو زیر اعظم نواز شریف کی طرح کسی انا کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ برسوں سے کمر کی تکلیف میںمبتلا ہیں اور ایک میڈیکل سرٹی فیکیٹ بھیج دیتے تو اس عذر کوماہر تریںڈاکٹروں کا کوئی بورڈ چیلنج نہیں کر سکتا تھاْ۔پچھلے چار برس سے ملک میں سیاسی شورو غوغا برپا ہے، اس دوران بھی شہباز میاں پر کسی نے انگلی تک نہیں اٹھائی، وہ اس دوران چین جرمنی اور دوسرے ممالک کے دورے کرتے رہے، انہیں بیرونی سرمایہ کاری درکار تھی۔ ملک میں انفراسٹرکچر کی تباہ حالی پرہر کسی کو رونا آتا ہے، بجلی کی کمیابی نے تو ملک کی معیشت اورمعاشرت کو مفلوج بنا رکھا ہے۔اوپر سے ملک کو دھرنوں کے ذریعے بریکیں لگانے کی کوشش جاری تھی ، ایک کے بعد دوسرا بحران، کبھی سڑکوں پر دھما چوکڑی، کبھی بلیم گیم اپنی انتہا پر، کبھی عدالتوں کا الجھائو اور اب جے آئی ٹی کا امتحانی پرچہ۔ حکومت کے لئیے یہ رکاوٹوں کی دوڑ تھی ، ایک کے بعد دوسری رکاوٹ، یا یہ سانپ اور سیڑھی کا کھیل تھا مگر اسی بحرانی کیفیت میںمیاں شہباز شریف نے ان تھک محنت سے ملتان اور پنڈی کی میٹرو چالو کی، لاہور میں اورنج ٹرین کا طلسم کدہ شروع کیا،شہر شہر بجلی کے کارخانے، کوئی پانی پر،کوئی کوئلے پر ، کوئی تھرمل پر اور کوئی سورج کی شعائوں پر۔ یہ ایک چو مکھی جنگ تھی جسے شہباز میاں کے سوا کوئی نہیں جیت سکتا تھا ، وہ اپنے مقاصد میں کامیاب و کامران دکھائی دے رہے ہیںمگر اب جے آئی ٹی کا بلا وجہ بلاوا۔ خدا نہ کرے کہ خادم اعلی کی توجہ ان عظیم منصو بوں سے ایک لمحے کے لئے بھی ہٹے ۔
وہ کسی کر وفر کے بغیر، کسی پروٹو کول کے بغیر پیش ہو گئے، آج تک میںنے انہیں کسی پروٹو کول میں سفر کرتے نہیں دیکھا، وہ گزشتہ دور حکومت میں میرے بڑے بیٹے کی شادی کی مبارکباد کے لئے گھر تشریف لائے تھے ۔، صرف ایک گاڑی میں ￿، اب دو برس قبل بھی میری بیگم صاحبہ کی تعزیت کے لئے ؎؎؎آنا چاہتے تھے ، فون پر تو انہوںنے تفصیلی بات کر ہی لی تھی مگر ان کا کئی بار آنے کا پروگرام بنا ،ان دنوں دہشت گردی کا طوفان ابھی تھما نہیں تھا، ا سلئے سیکورٹی خطرات کی وجہ سے وہ غریب خانے پر نہ آ سکے، مجھے وہ منظر نہیں بھولتا جب میں سہیل ضیا بٹ کی پجارو میں سوار تھا اور وہ قریب سے ایک چھوٹی گاڑی میں گزرتے ہوئے بریک لگا کر مجھ سے ہمکلام ہوئے تھے۔ میں وہ لمحہ بھی نہیں بھولتا جب وہ مرشدنظامی کے گھر تشریف لائے۔، وہاں مجھے بھی بلایا گیا اور وہ ایک چھوٹی گاڑی میںمجھے ساتھ لے کر وزیر اعظم کے پاس لے گئے، اس وقت انہیں پہلی عراق جنگ پر کوئی مشاورت مطلوب تھی، شہباز شریف کومیں نے کبھی زرق برق لباس میں نہیں دیکھا، پتہ نہیں وہ کھادی کے کپڑوںمیں کیسے گزارہ کرلیتے ہیں، جے آئی ٹی کے لئے جاتے ہوئے بھی انہوں نے کسی شان و شکوہ کا مظاہرہ نہیں کیا، کہیں ہٹو بچو کا شور سنائی نہیں دیتا تھا۔ حالانکہ وہ وزیر اعلی نہ بھی ہوں تو جس صنعتی اور کاروباری امپائر کے مالک ہیں ، وہ اپنے لئے سیکورٹی کے حصار کا بندو بست کر سکتے ہیں۔کونسے چونچلے ہیں جو ہمارے سرمایہ دار نہیں دکھاتے مگر یہ اس دور کا ابو ذر غفاری ہے ۔
جے آئی ٹی نے اپنا شوق پورا کر لیا۔ میرے خیال میں جے آئی ٹی اتنی تحقیقات نہیں کرتی جتنا اپنا رعب جھاڑتی ہے۔و زیر اعظم کی طرح وزیر اعلی نے بھی جے آئی ٹی کے رعب کے سامنے سر تسلیم خم کیا اور چار گھنٹوں تک سوال جواب بھگتے۔ جے آئی ٹی کے رویئے پر اب کسی تبصرے کی حاجت نہیں رہ گئی کیونکہ بہت کچھ کھل کر سا منے ا ٓ گیا ہے۔ طارق شفیع، حسین نواز ، حسن نواز اور پھر احمد سعید کو پل صراط پر سے گزارنے کے بعد تو عوام کو پتہ چل گیا ہے کہ یہ کوئی ا حتساب کا عمل نہیں بلکہ روز حشر بپا ہے۔
بہر حال جو کچھ بھی ہو رہا ہے، شہباز شریف نے خندہ پیشانی سے اس کا سامنا کیا ہے اورا س حال میں کیا ہے کہ چین جیسی بڑی معیشت کا ملک ان پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کرتا ہے اور ان کی تین سالہ محنت اور لابنگ کے نتیجے میں چین نے پاکستان میں کھربوں کی سرمایہ کاری کا اعلان کر دیا ہے ا ور اسے اب محض سی پیک تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ ون بیلٹ ون روڈ کے عظیم ہمالیائی منصوبے کے تحت تین بر اعظموں تک محیط کر دیا گیا ہے۔ اس قدر عظیم الشان منصوبے میں شہباز شریف کے مثبت اور سرگرم کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
ایک شام کیپٹن شاہین بٹ کے گھر میں کچھ اوور سیز پاکستانی جمع تھے، وہاں چند صحافی دوست بھی تھے، وزیر اعلی میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمائش کی کہ میں کچھ اظہار خیال کروں مگر میں نے کہا کہ اس وقت مختلف ممالک سے آئے ہوئے پاکستانی بھائی یہاں جمع ہیں، آپ ان کی تسلی اور تشفی کے لئے بتایئے کہ حکومت وطن عزیز کی ترقی اور خوش حالی کے لئے کیا کچھ کر رہی ہے۔ وزیر اعلی نے صرف اورنج ٹریں کے منصوبے کا ذکر کیا جس کے لئے چینی حکومت سرمایہ کاری کے لئے رضامندہو گئی تھی، یہ حکومت اور حکومت کے مابین ایک معاہدہ تھے جس میں بڈنگ کا سوال ہی پید انہیں ہوتا مگر وزیر اعلی نے ضد کی کہ اس منصوبے کوشفاف بنانے کے لئے ضروری ہے کہ بڈنگ کی جائے، چینی حکومت نے بادل نخواتہ یہ شرط قبول کر لی، جب بڈنگ ہو گئی تو لامحالہ سب سے کم بولی والی کمپنی کو اس کے نرخوں پر کام مل جانا چاہئے تھا مگر یہاں شہباز شریف پر جذبہ حب الوطنی پھر عود کرا ٓیا ، انہوں نے اصرا ر کیا کہ بولی کی قیمت سے کم سطح پر کام شروع کیا جائے۔ اس طرح صرف ایک منصوبے میںانہوںنے کھربوں کی بچت کر لی۔ اس کردار کا حامل وزیر اعلی جب جے آئی ٹی کے سامنے تیز تیز قدم اٹھا کر جا رہا تھاتو اسے خیال تو آیا ہو گا کہ ا س کی امانت، دیانت اور شفا فیت کی قسم ایک زمانہ کھاتا ہے اور اگرروئے زمین پر کسی کو شک ہے توایک جے آئی ٹی کو۔
کیا سانپ نکالا جے آئی ٹی نے اس سے تفتیش کر کے !,!!
صرف یہ کہ میں شعیب کے گھر نہیں جا سکا۔
مگر میاں شہبازشریف نے شاہنامے کا اگلا باب لکھ دیا۔

برہان وانی کی شہادت کا ایک سال.. اسداللہ غالب