خبرنامہ

تحریک آزادی کشمیر اور حافظ محمد سعید کے آنسو…اسداللہ غالب

تحریک آزادی کشمیر اور حافظ محمد سعید کے آنسو…اسداللہ غالب

میں اقوام متحدہ کی ان قرارداوں کو درخوراعتنا نہیں سمجھتا جن میں حافظ محمد سعیدکی تنظیموں پر پابندی لگائی گئی ہے اور ان کے دباﺅ کے تحت پنجاب حکومت نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے حافظ سعید کو نظر بند کررکھا ہے۔
میرے ا س موقف کی وجہ یہ ہے کہ بھارت نے اسی ا قوا م متحدہ کی ان قراردادوں کو جوتی کی نوک پر رکھا ہے جن میں کشمیر کا مسئلہ طے کرنے کے لئے استصواب کاا صول متعین کیا گیا تھا، اور یہ بھی واضح رہے کہ یہ قراردادیں اس وقت منظور کی گئیں جب بھارت خود اس مسئلے کے حل کے لئے اقوام متحدہ گیا تھا اور بھارت سے کوئی اور نہیں ، اس کا باپو پنڈت نہرو بھاگم بھا گ نیو یارک میں سلامتی کونسل میں پہنچا تھا۔
مشرف کو طعنہ دیاجاتا تھا کہ اس نے قوم کے بیٹے بیٹیوں کو امریکہ کے ہاتھ فروخت کر کے بیرونی بنک اکاﺅنٹ لبا لب بھرلئے ۔ وزیر اعظم نوازشریف نے اقوام متحدہ کے گزشتہ اجلاس میں کی گئی تقریر میں خم ٹھونک کر مظلوم کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی مذمت کی اور انہوںنے عالمی برادری سے کشمیریوں کو بھارت کی بد تریں غلامی سے آزاد کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔
میرا حوصلہ اسوقت اور بڑھ جاتا ہے جب مجھے یہ یادا ٓتا ہے کہ کشمیرکی آزادی کے پہلے حامی قائد اعظم تھے جنہوںنے افوج پاکستان کو حکم دیاکہ وہ اسے بھارتی جارحیت سے محفوظ رکھیں۔
کشمیر کے حق میںبات کرنے کا جواز مجھے قائد اعظم کے اس قول سے بھی ملتا ہے کہ یہ پاکستان کی شہہ رگ ہے۔
اور مجھے یہ بھی یاد ہے کہ آج کشمیر کا جو حصہ پاکستان کے پاس ہے،اسے قبائلی جہاد کے نتیجے میں بھارتی چنگل سے چھڑایا گیا تھا۔
سو اگر حافظ محمد سعید کشمیر کی آزادی کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں تو وہ کونساجرم کرتے ہیں، یہ جرم تو پوری حریت کانفرنس کر رہی ہے، کشمیر کا بچہ بچہ کر رہا ہے۔
آزادی حاصل کرنا جرم ہوتا تو جارج واشنگٹن دنیاکا سب سے بڑا دہشت گرد قرار پاتا ، مگر وہ امریکی قوم کا ہیرو ہے، آزادی کا حصول جرم ہو تا تو نیلسن منڈیلا بھی بڑے دہشت گردوں کی فہرست میں شمار ہوتا ، اسے امن کا نوبل انعام تو نہ ملتا، اورا ٓزادی کا حصول جرم ہوتا تو یاسر عرفات بھی دہشت گرد ہی کہلواتا، اسے جنرل اسمبلی میں ایک تاریخ ساز خطاب کے لئے مدعو نہ کیا جاتا۔
او آزادی کا حصول جرم ہوتا تو برما کی آنگ سو چی کہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے گل سڑ رہی ہوتی، نہ وہ نوبل انعام کی حق دار ٹھہرتی، نہ اپنے ملک کے اقتدارا علی کی باگ ڈور سنبھالتی۔
اور میں کتنی مرتبہ بتاﺅں کہ میرے مرشد تحریک آزادی کشمیر کے سب سے بڑے حامی تھے تو اگر حافظ محمد سعید اس تحریک کا حامی ہے تو وہ میرے مرشد نظامی کے نقش قدم پر چلنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔
اگر کسی ملک میں باہر سے مداخلت جرم ہوتی تو یہ جرم امریکہ ا ور برطانیہ عراق میں کر چکے ہیں ، ان ممالک نے عراق میں لاکھوں افراد کو دہشت گردی کا نشانہ بنایاا ور ستم ظریفی یہ ہے کہ جس رپورٹ پر عراق کا فالودہ نکالا گیا، وہ رپورٹ من گھڑت تھی، اسے برطانوی انٹیلی جنس نے گھڑا اور اب برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر اپنے اس جرم کا اعتراف کر کے قوم سے معافی مانگ چکے ہیں۔
کسی ملک میں بیرونی مداخلت جرم ہوتی تو شام میں امریکہ، روس، ترکی ، نیٹو کے درجنوںممالک اورسعودی عرب کیسے مداخلت کر رہے ہیں۔اور جو داعش شام میں جہاد کا دعوی کر رہی ہے ، اسے امریکی کانگرس باقاعدہ بحث و تمحیص کے بعد فنڈز اور اسلحے کی منظوری دیتی ہے۔ لیبیا میں نیٹو نے غدر مچایااورا سی کے طیارے سے فائر کئے جانے والے میزائل نے کرنل قذافی کو نشانہ بنایا۔
یہ ساری مداخلتیں جائز ہیں اور صرف کشمیر کی آزادی کی تحریک کی حمائت جرم، اس رویئے کو کون تسلیم کرے گا، اس دلیل کو کون مانے گا۔
حافظ محمدسعید پر یہی الزام ہے کہ وہ تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کرتے ہیں اور انہیں اسی جرم کی بار بار سزا ملتی ہے، بار بار نظر بندی، ان کے اکاﺅنٹس بند ، ان کی ملک کے اندر نقل و حرکت بند اور بیرون ملک سفر کی پابندی کے لئے پاسپورٹ بھی ضبط، آپ حیران نہ ہوں، ان کا پاکستانی شناختی کارڈ بھی ضبط کیا جاچکا ہے، اس ایک اقدام کے بعد حافظ محمد سعید دنیا کے کسی ملک کے شہری نہیں رہے۔ مجھے نہیںمعلوم کہ پاکستان کے ایک شہری کو پاکستان کی پہچان سے کس طرح محروم کیا جاسکتا ہے۔اگر وہ پاکستانی شہری نہیں رہا تو پاکستان میںنظر بند کیوں ہے۔
یہ بھی عجب بات ہے کہ پاکستان میں بھارتی دہشت گرد کل بھوشن کو پاکستان آرمی چیف اور صدر پاکستان سے اپیل کا حق ہے مگر حافظ سعید اس قانونی استحقاق سے بھی محروم۔ اور اگر ان کے وکلا ءکہیں اپیل کرتے بھی ہیں تو اس کی سماعت کی نوبت ہی نہیں آتی۔
ابھی حافظ سعید نظر بند نہیں ہوئے تھے کہ وہ ایک ہوٹل میں میڈیا بریفنگ کے لئے تشریف لائے، انہوںنے اعلان کیا کہ پانچ فروری کے یوم یک جہتی کو سال بھر مناتے رہیں گے، ادھر انہوںنے یہ اعلان کیا، ادھر ان کی نظر بندی کے احکامات جاری ہو گئے، سیکورٹی مسائل کی وجہ سے وہ جلدی رخصت ہونے لگے تو میںنے انہیں ایک الگ کمرے میں بٹھا کر چائے کاایک کپ پینے کی دعوت دی، ہم بورڈ روم میں داخل ہوئے تو ان کے سیکرٹری کے فون پر گھنٹی بجی۔۔ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے ایک حریت پسند نوجوان تھے جن کا نام میں ان کے مفاد میں نہیں لکھ رہا مگر انہوںنے اپنا پور اتعارف کرایا کہ وہ شہید برہان وانی کے مشن کو آگے بڑھانے کی آرزو سے سرشار ہیں اورا س ضمن میں کشمیر کاہر نوجوان سرپہ کفن باندھ چکا ہے اور بھارتی فوج کے جبر سے اب کوئی خوف زدہ نہیں ہے۔ ان قربانیوں کے صلے میں انشا اللہ بہت جلد کشمیر بھارتی تسلط سے آزاد ہو کر پاکستان کا حصہ بنے گا، اس نوجوان نے کہا کہ شاید میں وہ ساعت سعید دیکھنے تک زندہ نہ رہوں کیونکہ بھارتی مظالم میں تیزی آ چکی ہے اور وہ جبر اور ستم کا ہر حربہ آزما رہی ہے۔ایسے ماحول میں مجھے ہر لمحے اپنی شہادت نظر آرہی ہے مگر شہادت سے پہلے میری ایک آرزو تھی کہ میری آپ جیسی شخصیت سے بات ہو جائے جو کشمیر یوں کی سانس سانس میں حمائت کرتی ہے۔
یہ سن کر حافظ محمدسعید آبدیدہ ہو گئے، مجھے ان کے بلکنے کی آواز آ رہی تھی اور پھر دو نوں ہاتھوں سے انہوںنے اپنے چہرے سے آنسو صاف کرنے کی کوشش کی۔
مجھے ان کے سیکرٹری نے بتایا کہ ایک سال قبل اسی طرح کی ایک کال برہان وانی نے کی تھی، وہ کئی روز سے بات کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر حافظ صاحب اس لئے کال سننے کے لئے تیار نہ تھے کہ کہیں اس کال کی وجہ سے برہان وانی پر کوئی پہاڑ نہ ٹوٹ پڑے ، پھر بار بار برہان وانی کال کرتے رہے، آخر حافظ سعید مجبور ہو گئے کہ کال سن لیں۔ برہان وانی نے کہا کہ میں بھارتی فوج کے مکمل نرغے میں ہوں مگر کئی روز سے ڈٹا ہوا ہوں۔میری ایک آرزوتھی کہ ایک بارا ٓپ کی آواز سن لوں ، پھر شہادت کو گلے لگانا میرے لئے آسان ہو جائے گا۔
آج حافظ سعید نظر بند ہے ، وہ کس کا قیدی ہے،بھارت کا قیدی کل بھوشن رحم کی اپیلوں کا حق رکھتا ہے مگر حافظ سعید نہیں جانتے کہ مودی سے اپیل کریں یا ٹرمپ سے۔