خبرنامہ

تحریک آزادی کشمیر کی کہانی، امیر العظیم کی زبانی…اسداللہ غالب

تحریک حریت اور تاریخ حریت کومجسم شکل میں دیکھنا ہو تو آپ امیر العظیم کو دیکھ لیں۔ میں انہیںقومی آزادی کا انسائیکلو پیڈیا بھی کہتا ہوں ۔
جہاد افغانستان کا ایک ایک حرف انہیں زبانی ازبر ہے، جہاد کشمیر تو ان کے نوجوانوں نے اپنے خون سے لکھی ہے اور خالصتان کی تحریک نے ان کے ذہن رسا سے جنم لیا۔امریکہ ناحق سید صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دیتا ہے، ویسے ہم نے امریکہ کے اس فتوے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے، ہو سکتا ہے کہ امریکہ امیر العظیم کے سر کی قیمت مقرر کر دے اور بھارت بھی اس کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہو تو شاید ہم آزادی کے جذبوں سے لبریز اس شخص کو گوانتا نامو بھجوا کر کچھ ڈالر کما لیں ۔ میرے مرشد مجید نظامی توپیش کشیں کرتے رہے کہ انہیں گوانتانامو لے جا کر پنجرے میں بند کر دیا جائے مگر کس میں ہمت تھی کہ مجید نظامی کی طرف میلی آ نکھ سے بھی دیکھتا اور کس میں ہمت ہے کہ امیر العظیم کا بھی بال بیکا کر سکے۔
پانچ فروری کو ہر سال یوم یک جہتی کشمیر منایا جاتا ہے، یہ دن امیرالعظیم کے ذہن کی اختراع ہے۔ہوا یوں کہ انیس سو اٹھاسی میں مقبوضہ کشمیر کے الیکشنوں میں شدید دھاندلی ہوئی۔ الیکشن دھاندلی، بر صغیر کے ممالک کا طرہ امتیاز ہے یا ماتھے پر کلنک کا بد نما ٹیکہ۔ مگر مقبوضہ کشمیر مں کچھ زیادہ ہوا، اس الیکشن میں ایک سیٹ پر سید محمد یوسف نامی نوجوان امیدوار تھا، وہ الیکشن جیت چکا تھامگر جب اعلان ہو اتو کسی دوسرے کو کامیاب قرار دے دیا گیا،اس اثناءمیں سید محمد یوسف کو گرفتار کر کے تھانے میں بند کر دیا گیا، سارے ثبوت مٹانے کے لئے ان کے الیکشن ایجنٹ یاسین ملک کو بھی حوالہ حوالات کر دیا گیا اور جس مخالف امید وار کی کامیابی کاا علان کیا گیا تھا وہ درندے کے طرح تھانےءکی حوالات میں ان دو قیدیوں پر جھپٹ پڑا اور مار مار کر لہو لہان کر دیا، جب کبھی سید محمد یوسف رہا ہوئے تو کنٹرول لائن پار کر کے آزاد کشمیر چلے آئے اور سید محمد یوسف کے بجائے سید صلاح الدین بن گئے۔ امریکہ نے اگر کسی سید صلاح الدین کو دہشت گرد قراردیا تو وہ اس مادی دنیا میں پیدا ہی نہیں ہوا، نہ اس نام سے اس کی کوئی قانونی پہچان ہے۔ امریکی حکومت کے کسی کلرک نے مودی کی خوشنودی کے لئے ایسے ہی مکھی پہ مکھی مار دی ہے، کہتے ہیں کہ نقل را عقل باید، امریکہ میں عقل ہوتی تو وہ ساری دنیا کی نفرت کا نشانہ کیوں بنتا۔
مقبوضہ کشمیر کے انتخابات میں ایک طرف یہ دھاندلی ا ور دوسری طرف راجیو گاندھی نے نخوت سے کہا کہ کشمیر میں حق استصواب مانگا جاتا ہے مگر یہ جو ہر چار پانچ سال بعد الیکشن ہوتے ہیں، یہ حق استصواب ہی کا تو استعما ل ہے۔ کشمیریوں کی امنگوں کا اس سے بھونڈا مذاق کیاا ڑایا جاتا۔ کشمیری بپھر گئے، یہ وہی قوم تھی جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ توپ کو دھوپ میں رکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تپ جائے گی تو ٹھس بھی کر دے گی۔ مگر اب ایک نئی کشمیری قوم میدان میں تھی، دنیا میں تبدیلی کی ہوائیں چل رہی تھیں، دیوا برلن ٹوٹ چکی تھی، مشرقی یورپ کے ممالک روس کے پنجے سے آزاد ہو رہے تھے ا ور خود سوویت روس پارہ پارہ ہو گیا تھا۔ بھارت میںخالصتان کی تحریک نے بھی کشمیری نوجوانوں کو حوصلہ دیااور وہ سر پہ کفن باندھ کر سڑکوں پر نکل آئے۔ پاکستان ا س ساری صورت حال سے بے خبر تھا، بھارتی فوج درندوں کی طرح بربریت کا مظاہرہ کر رہی تھی، بستیوں پر چڑھائی، گھر بلڈوز، نوجوانوں کے سینوں میں سیدھی گولیاں، عفت مآب کشمیری خواتین کہ ان کی طرف کبھی سورج کی کسی کرن تک نے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا تھا، انہیں بالوں سے پکڑ کر سڑکوںپر گھسیٹا جاتا، ان کے تن بدن کے کپڑے تار تار کر دیئے جاتے، بھارتی فوجی جنون میں قہقہے مارتے اور انہیں کھینچ کر اپنے بنکروں میں لے جاتے جہاں ان سے اجتماعی زیادتی کا گھناﺅناکھیل کھیلا جاتا۔بھارت کے ظلم وستم کا سلسلہ ا س قدر دراز ہوا کہ کشمیری اس کی تاب نہ لا سکے، وہ پہاڑوں کی برفانی چوٹیاں عبور کر کے پناہ کے لئے آزاد کشمیر آنے لگے، برف سے ان کے ہاتھ پاﺅں گل چکے تھے اور کئی ایک کی جان بچانے کے لئے ان کے گلے سڑے اعضا کاٹنے پڑتے۔ یہ صورت حال عبدالرشید ترابی نے آنکھوں سے دیکھی، وہ آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی کے سرابراہ تھے، انہوںنے قاضی حسین ا حمد کو یہ ساری درد ناک داستان سنائی، قاضی صاحب تڑپ کر رہ گئے، وہ خود مظفر آباد پہنچے اور کشمیری مظلوموں کی حالت زار دیکھ کر بلک بلک کر ورنے لگے۔ اس سفر میں امیر ا لعظیم ان کے ساتھ تھے۔، انہوں نے ان سے تجویز مانگی کہ ان مظلوموں کی کس طرح مدد کی جا سکتی ہے ا ور بھارت کو بر بریت کے کھیل سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔ امیرالعظیم نے ایک پرچی پر چند تجاویز لکھیں ،کہ ان میں سے جوبہتر اور قابل عمل ہو ، اسے اختیار کر لیا جائے، قاضی صاحب نے ایک پریس کانفرنس میں ساری تجاویز قوم کے سامنے پیش کر دیں ، ان میں سے ایک یہ تھی کہ پانچ فروری کو یوم یک جہتی کشمیر منایا جائے، یہ دن تب سے آج تک منایا جا رہا ہے ۔
پانچ فروری کو یوم یک جہتی کشمیر منانے کی تجویز دینے والے امیرالعظیم کو میںنے فون کیا ، کہنے لگے کہ میاںوالی میں ہوں، امیر جماعت قبلہ سراج الحق ساتھ ہیں۔ میںنے سراج الحق صاحب سے بات کی کہ برہان وانی کا یوم شہادت قریب ہے،پھر یوم شہدائے جموں ہے اور اسی مہینے میں یوم الحاق پاکستان بھی ہے، آپ اس میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں ، انہوں نے ساری تفصیل بیان کی کہ ان کی جماعت ہی نہیں پوری پاکستانی قوم مظلوم کشمیریوں کے ساتھ آج بھی سینہ تانے کھڑی ہے اور آٹھ جولائی سے انیس جولائی تک عشرہ شہدائے کشمیر منایا جائے گا، جماعت کے کارکن شہر شہر ریلیاںنکالیں گے ا ور مرکزی احتجاجی جلوس اسلام ا ٓباد کے آب پارہ چوک سے روانہ ہو گا جس کی قیادت وہ خود کریں گے۔
ایک روز قبل میںنے امیر العظیم سے ملا قات کی ، طویل گفتگو ہوئی، مگر میںنے ابتداءہی میںکہا کیا یہ حقیقت نہیں کہ کشمیر میں موجودہ تحریک آزادی کا آپ یا کوئی اور پاکستانی کریڈٹ نہیں لے سکتا، یہ تحریک برہان وانی کے خون سے پھوٹی ہے۔امیرالعظیم نے فوری جواب دیا کہ کشمیر کی موجودہ تحریک کے پیچھے اب کسی بیرونی قوت کا ہاتھ نہیں۔، نہ ہم لوگ اس کا کریڈٹ لینے کا دعوی کرتے ہیں، میں تو خود برہان وانی سے بے خبر تھا اور جس روز ا سکی شہادت عمل میں آ ئی ،ایک خالصتانی لیڈر کے گھر میں بیٹھا انڈین ٹی وی چینل دیکھ رہا تھا کہ یکا یک بریکنک نیوز چلنے لگیں اور بھارتی فوج نے دعوی کیا کہ اس نے حزب المجایدین کے ایک مرکزی لیڈر کو ٹھکانے لگا دیا ہے، اس کانام برہان وانی بتایا گیا ، میںنے مضطرب ہو کر چینل بدلنے شروع کئے، ہر اسکرین پر یہی خبر چنگھاڑ رہی تھی، مگر جو تبصرے اور تجزیئے کئے جا رہے تھے، ان سے بوکھلا ہٹ نمایاں تھی۔ سبھی کاکہنا تھا کہ مرکزی لیڈر کو تو راستے سے ہٹا دیا گیا مگر اس کے حامیوں کو کنٹرول کرنامشکل ہو جائے گا، ان تبصروں سے اندازہ ہوا کہ براہن وانی کس قدرمقبول لیڈر تھا اور پھر وہی ہوا جس کا بھارتی تجزیہ کاروں کو ڈر تھا، وادی کشمیر ایک بار پھر آپے سے باہر ہو گئی، دکانیں بند، ہسپتال بند، سرکاری دفاتر بند،سڑکوں پر ہو کا عالم ، صرف بھارتی فوج کے ٹرکوں کی بریکیں چیخ رہی تھیں۔ وہ دن اورا ٓج کا دن ، پورا ایک سال ہونے کو ہے، وادی کشمیر کے نوجوان ہر طرح کی قربانی دے رہے ہیں مگر ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی، بھارت اس تحریک کا الزام نہ آئی ایس آئی پر لگا سکا ہے، نہ کسی اور بیرونی قوت پر اس لئے کہ یہ تحریک خود کشمیریوں کے زور بازو سے چل رہی ہے، یہ بازوئے حیدر کرار ؓ ہے۔