خبرنامہ

تحریک ِآزادی دہشت گردی کیسے ! اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

تحریک ِآزادی دہشت گردی کیسے ! اسد اللہ غالب

دہشت گرد بھارت کو سبھی اپنے جیسے نظر آتے ہیں، امریکہ نے دنیا کا کوئی کونہ ایسا نہیں چھوڑا جہاں اس نے لاشوں کے انبار نہ لگائے ہوں، ہیرو شیماا ور ناگا ساکی میں چوتھی نسل بھی معذوری ساتھ لے کر پیدا ہوئی ہے، عراق کا فلوجہ بنا دیا گیاا ور افغانستان کا تورا بورا سرمہ بنا دیا گیا، پاکستان میں سلالہ اور ایبٹ آباد کی کھلی دہشت گردی سے بچہ بچہ آگاہ ہے، ڈرون حملوں نے پاکستان کے اقتدارا علیٰ کو پارہ پارہ کر کے رکھ دیا۔ اب کوئی شام کے بچوں کی یتیمی دیکھے، شامی خواتین کی بیوگی کو دیکھے مگر اسی امریکہ نے جس نے ساری دنیا کو کچل کے رکھ دیا ہے، وہ کشمیریوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ حریت پسند لیڈر سری نگر کی جیلوں میں ہیں، یا گھروںمیں مہینوں سے نظر بند، پاکستان کو مجبور کر دیا گیا ہے کہ وہ حافظ محمد سعید کو نظر بند کر دے، وجہ کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں۔ حافظ سعید سے کشمیریوں کی حالت زار دیکھی نہیں جاتی تھی، اس نے بس یہ اعلان ہی کیا تھا کہ کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا جائے گا اور وہ نظر بند، مگر اس صلاح الدین کا کیا قصور تھا، اس نے تو کبھی کشمیریوں کے لئے کہیں جلوس بھی نہیں نکالا۔ کشمیریوں کے حق میں کوئی نعرہ نہیںلگایا، سری نگر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دنیا دیکھ رہی ہے۔ایک معصوم، الہڑ، بے فکرے نوجوان برہان وانی کا بہیمانہ قتل کیا گیا۔ سری نگر کے گلی کوچوں میں اس کی لاش کو گھمایا گیا۔ کشمیریوں کی آنکھوں سے آنسو نہیں، خون ابل پڑا اور وہ دن اور آج کا دن، کشمیر میں آٹھ لاکھ بھارتی غاصب فوج ہر روز قتل عام کر رہی ہے، نوجوانوں کا نشانہ باندھ کر فائر داغا جاتا ہے، بچوں کی آنکھوں میں پیلٹ گولیاں فائر کی جاتی ہیں، نسل کشی کے لئے پہلے اسرائیل کی مثال دی جاتی تھی مگر نسل کشی کوئی بھارت سے سیکھے۔ کشمیری مسلمانوں کی اگلی نسلیں قبروں میں دھکیلی جا رہی ہیں اور ان کے گھروں، ان کی دکانوں ، ان کے دفتروں میں بنیئے بٹھائے جا رہے ہیں۔اور یہ خون کی ہولی کھیلنے والا بھارت قانون اور آئین اور جمہوریت اور انسانی حقوق کا علم بردار ٹھہرا ہے۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلوایا اور دہشت گرد وہ ہوئے جو خالی ہاتھ سڑکوں پر آ کر سینہ کوبی کرتے ہیں اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں، کبھی میرے جیسے قلم کار آج کی نسل کو یاد دلایا کرتے تھے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم جیتے تو کشمیری جشن مناتے ہیں،مٹھائیاں بانٹتے ہیں، گھروں پر پاکستانی پرچم لہراتے ہیں ، اب تو ہماری ا ٓج کی نسل نے آنکھوں سے دیکھ لیا کہ ادھر پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے چیمپئن ٹرافی جیت کر سجدئہ شکر ادا کیا، ادھر کشمیریوں نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے، نعرے لگانے والوں میں بڑے بوڑھے بھی شامل تھے، جنونی ہندوئوں نے کہا کہ تمہیں اتنی خوشی چڑھی ہوئی ہے تو دفع ہو جا ئو،پاکستان میں جا کر پٹاخے چھوڑو، پورے بھارت کو کشمیریوں کے رد عمل سے مرچیں لگ گئیں۔
پہلے کسی زمانے میں ہمارے مولوی فتوے لگاتے تھے، اب فتوے بازی کی اجارہ داری امریکہ اور اہل مغرب کے ہاتھ میں ہے، انہوںنے یاسر عرفات کو دہشت گرد کہا، نیلسن منڈیلا کو دہشت گرد کہا۔ اور ایک زمانے میںا لجزائری حریت پسندوں کو دہشت گرد کہا، ویت نام کے استعمار دشمن ہوچی منہہ کو دہشت گرد کہا، ایک وہ وقت بھی تھا جب امریکہ نے برطانوی استعمار کے خلاف تحریک آزادی کا علم اٹھایا تو امریکہ کی قومی قیادت کو دہشت گرد کے خطاب سے نواز اگیا، برطانوی استعمار نے جلیا نوالہ باغ میں خون کی ندیاں بہائیں، بھگت سنگھ کو پھانسی دی، اس زمانے میں گاندھی، موتی لا ل نہرو، سبھی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے، ان کے حصے میں جیلیں اورجلا وطنی آئی۔ سوویت روس نے افغانستان پر چڑھائی کی تو ساری دنیا کے مسلمان مجاہدین کو قربانی کے بکروں کے طور پر استعمال کیا گیا۔ روس کو شکست ہو گئی، وہ ٹوٹ پھوٹ گیاا ور انہی مجاہد لیڈروں کو ، لمبی لمبی داڑھیوں والوں کو وائٹ ہائوس میں استقبالیہ دیا گیا۔مگر ایک وقت آیا کہ یہی مجاہدین امریکہ کی نظروں میں دہشت گرد بن گئے اور ان کو پکڑ پکڑ کر گوانتا نامو بے کے پنجروں میں لے جا کر بند کر دیا گیا۔ وہاں ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ پاکستان پر نا حق دہشت گردی کی جنگ مسلط کر دی گئی، یہی پاکستان تھا جس میں راوی ہر سُو چین لکھتا تھا۔ یہی کراچی تھا جو روشنیوں اوررونقوں سے جگمگاتا تھا مگر اب یہی شہر اور یہی وطن عزیز ہے جہاں روز لاشوں کے انبار لگتے ہیں۔پاکستان کی فوج دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہے مگر بھارت، اور افغانستان میں دہشت گردی کی نرسریاں بند نہیںہو پائیں، ایک طرف سے ایران بھی ہمارے در پے ہے، یہ ایک چو مکھی جنگ ہے ۔ کنٹرول لائن تو ہمیشہ سے جہنم کامنظر پیش کر رہی ہے۔ عام اور سادہ مزاج شہری سمجھ نہیں پاتا کہ ڈیڑھ دو سو ایٹم بموں اور میزائلوں کے انبار کے ہوتے ہوئے اگر ہماری یہ ابتر حالت ہے تو ان کے بغیر تو ہمارا اب تک بھرکس نکالا جا چکا ہوتا۔
امریکی صدر ٹرمپ نہ تو احمق ہے، نہ بیو قوف ، نہ ہذیا ن کا مریض ، وہ لاابالی پن کا شکار بھی نہیں۔ پچھلے سارے انتہا پسند امریکی صدور ایک طرف اور اکیلا ڈونلڈ ٹرمپ ایک طرف۔ اس نے اپنے خلاف جلوس نکالنے والوں کو انتہا پسند کہہ کر گولیوں کا نشانہ نہیں بنایا مگر معصوم کشمیری بھارتی فوج کی دہشت گردی کے خلاف آواز بھی اٹھائیں تو انہیں دہشت گرد کہہ دیا گیا۔ سید صلاح الدین ہوں، علی گیلانی، یا میرواعظ، یاسین ملک یا آسیہ اندرابی یا مسرت عالم یا حافظ محمد سعید‘ وہ سب دہشت گرد قرار پاتے ہیں۔ کل تک ہماری حکومت امریکہ یا بھارت کے اشارہ ابرو کے سامنے مجبور تھی مگر لگتا ہے کہ اس کے گوٹے گٹوں کی مکھ ابھی تک ختم نہیں ہوئی، جیسے ہی امریکہ نے سید صلاح الدین کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا، پاکستان کے محکمہ خارجہ نے بھی حق و صداقت کی آواز بلند کیا اور ترنت جواب دیا کہ حریت پسندی کی حمائت کو دہشت گردی کہنا قرین انصاف نہیں۔ خدا کرے کہ ہماری حکومت اور ہماری قوم اپنے اس موقف پر قائم رہے اور ہم کشمیریوں کے شانہ بشانہ سات جولائی سے برہان وانی کا یوم شہادت مناتے ہوئے پورا ہفتہ کشمیری شہدا کی یاد تازہ کریں ، ان کی قربانیوں کو سلام پیش کریں اور سترہ جولائی کو بھارتی فوج کے ہاتھوں پہلے قتل عام اور ہولو کاسٹ کے شہدا کی قربانیوں کا تذکرہ کریں، ان کی بلندی ٔدرجات کی دعائیں کریں اور کشمیریوں کو ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھارت کے تسلط سے آزاد کروانے کے لئے ان کی اخلا قی، سیاسی اور سفارتی حمائت کریں، اگر بھارت ساری دہشت گردی، بربریت اور سفاکی کے باوجود نیک نام ہے تو پاکستان اور پاکستانی قوم کو کس چیز کا ڈر ہے!
امریکہ نے کسی کو دہشت گردکہنا ہے تو جارج واشنگٹن کوکہے جس سے حریت پسندی کا جرم سر زد ہوا اور بھارت نے کسی کو دہشت گرد کہنا ہے تو بھگت سنگھ کو کہے جس نے بم پھاڑا تھا۔

ایک زرداری ٔپوری پیپلزپارٹی پر بھاری .. کالم رئوف کلاسرا