خبرنامہ

تخت طاؤس عمران کے حوالے کب کیا جائے گا۔۔اسداللہ غالب

مجھے خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ وزیر اعظم اپنا منصب بدست خود اور برضا و رغبت عمران خان کو سونپ سکتے ہیں، یہ کچھ بعید از قیاس بات نہیں۔
ایک مغل بادشاہ نے کسی کے رخسار پر تل دیکھا تو بے ساختہ کہہ اٹھا کہ میں ا س پر سمر قندو بخارا کی سلطنت قربان کر سکتا ہوں۔
برطانیہ عظمی کے ایک امیر کبیر یہودی خاندان کی چشم و چراغ نے عمران خاں سے طلاق تو لے لی مگرا سے بنی گالہ کا تین سو کنال پر محیط وسیع وعریض محل گفٹ کر دیا، عمران کے گوشوارے میں ا س کٹیا کی جو قیمت بتائی گئی ہے،اس میں دو کنال کا گھر خریدنا بھی ممکن نہیں، بہر حال مزاج یار میں جو آئے۔
آثار بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم اپنے پتے ایک ایک کر کے شوکر رہے ہیں، گھر کے راز داں رؤف طاہر کا کہناہے کہ پہلی تقریر کے وقت بھی یہ آپشن موجود تھا کہ تحقیقات سپریم کورٹ کے حوالے کر دی جائیں مگر وزیر اعظم نے یہ آپشن کسی دوسرے وقت کے لئے سنبھال کر رکھ لیا اور ان کی اگلی تقریر میں یہ سامنے بھی آ گیا،تعلیم وتربیت بچوں کا ایک رسالہ ہوتاتھاجسے ہم سب پڑھتے رہے ہیں۔ اس میں ایک صفحہ ہوتا تھا، دماغ لڑایئے، اب آپ بھی ذہن پر زرو دیں کہ وزیر اعظم کے پاس اورآپشن کیا ہیں ، رؤف طاہر ہر آپشن کا ذکر اس وقت ہی کریں گے جب خود وزیر اعظم اس کا اظہار کر دیں گے، مگر ہمیں یہ اندازہ لگانا چاہئے کہ وزیر اعظم اپنا آخری آپشن کب استعمال کریں گے۔ میں تو ان کی درازی عمرا ور درازی اقتدار کے لئے ہمیشہ دعا گو رہتا ہوں، بندہ کسی کا برا کیوں سوچے مگر مجبوریاں آخر مجبوریاں ہوتی ہیں، آپ بتائیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ عمران اور نواز شریف میں ایک خاموش مک مکا ہو چکا ہے ا ورا سکے تحت نواز شریف کو اقتدار چھوڑنا ہی پڑ اتو وہ اسے سونے کی طشتری میں رکھ کر عمران خان کے قدموں میں رکھ دیں گے۔عمران خان نے اپنے قوم سے خطاب میں ایسے ہی دعوی نہیں کیا کہ وہ متبادل وزیراعظم ہے ،ا سلئے کہ ا سکی پارٹی نے ن لیگ کے بعد سب سے زیادہ ووٹ لئے ہیں، عمران نے درمیان میں بھٹو اور بے نظیر، دو شہیدوں کی پارٹی کو پرکا ہ کے برابر اہمیت نہیں دی، بے چارے خورشید شاہ تلماتے تو ضرور ہوں گے مگر وہ اسی سلوک کے مستحق ہیں۔
عام آدمی کو عمران خان کی گیدڑ سنگھی کی سمجھ نہیں آئی،وزیر اعظم اس سے لڑتے بھی ہیں اور اس کی عزت افزائی بھی کرتے ہیں، وہ جو مطالبہ کرتا ہے ،ا سے منظور کئے چلے جاتے ہیں،دھرنے کے بعد دھاندلی پر عدالتی کمیشن بھی عمران کے مطالبے پر بنا۔ اورا سوقت بنا جب دھرنے میں اکیلا عمران خان اورا س کی ہونیو الی بیوی باقی رہ گئی تھی ۔ اس عدالتی کمیشن نے جو فیصلہ دیا ،عمران نے اسے مسترد کر دیا، وزیراعظم کہتے ہیں کہ عمران اگلے عدالتی کمیشن سے بھی یہی سلوک کرے گا مگر پھر بھی انہوں نے نیا کمیشن بنا دیا ہے ۔
چند برس پہلے نواز شریف کی لندن میں حالت بگڑی، اب بھی نواز شریف نے چیک اپ کے لئے لندن کا سفر کیا مگر عمران ان کا پتہ کرنے نہیں گیا، عمران کی کمر پر چوٹ آئی تو نواز شریف کا دل پسیج گیا ۔ کیسا نخریلا ہے یہ کپتان۔ کیا جادو ہے اس کی سیاست میں۔ کبھی یہ راز وزیرا عظم سے سمجھنے کی کوشش کروں گا۔
کہیں اس کے رخسار مبارک پر کوئی تل تو نہیں ہے۔
جمہوریت کی بقا کے لئے ضروری ہو تو نواز شریف عمران کو ایوان سے وزیرا عظم منتخب کروا دیں۔خورشید شاہ کو تو کوئی قبول نہیں کرے گا۔مارشل لا اورعمران خان کے درمیان چوائس ہو تو ہر ذی ہوش عمران خان کے حق میں ووٹ دے گا،اس لئے وزیر اعظم زیادہ تاخیری حربے اختیار نہ کریں ، اپنے سارے پتے جلدی جلدی شو کردیں۔عوام تو صبر سے انتظار کر سکتے ہیں مگر عمران خان ان تاخیری حربوں پر سیخ پا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔
میرے نزدیک پانامہ لیکس نہ تو پاکستان کا آئین ہے نہ انگریز کے ترکے میں ملنے والا کوئی پینل کوڈ ، پاکستان بہر حال پانامہ لیکس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے اور اگر زبردستی اس میں شامل کرناہے تو کروڑوں کی تعداد میں لیکس کی چھان پھٹک کے بغیر کسی کو مجرم نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
مجھے ذرہ بھر شک نہیں کہ پاکستان کی ترقی ا ور خوش حالی کسی راس نہیں آتی۔میں نواز اور شہباز میں کوئی موازنہ نہیں کرتا مگر پچھلے آٹھ برسوں میں شہباز شریف نے پنجاب کی حالت بدل ڈالی ہے، میں اپنے الفاظ پر قائم ہوں کہ حمزہ شہباز نے ایک ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے یرغمالی کی حیثیت سے ا ستقامت کا مظاہرہ کیا، میں پھر کہتا ہوں کہ پانامہ لیکس میں نواز ، شہباز اور حمزہ کا نام نہیں آیا، حسن اور حسین کا آیا ہے تو وہ اس ملک کے شہری نہیں ہیں، اس ملک کے کسی قانون کو انہوں نے نہیں توڑا۔ ان کے خلاف نالش آپ لند ن میں کریں یا پانامہ میں شوق پورا کریں۔پاکستان کا وقت کیوں برباد کرتے ہیں۔ہمارے بچوں کو دو قت روٹی کی فکر ہے نواز شریف کی دولت اربوں میں ہے، عمران خان کی دولت بھی اربوں میں ہے، نواز شریف کی اربوں کی دولت کا سورس تو سمجھ میں آتا ہے ، یہ عمران خان کے پاس اربوں کیسے اکٹھے ہو گئے۔ بچوں کی جیبوں سے جو چندہ نکلوایا گیا، اصل میں تو اسکاحساب لینے کی ضرورت ہے۔میں محترمہ بے نظیر سے ایک ملاقات کا ذکر کیا کرتا ہوں ، اس ملاقات میں میں نے محترمہ سے کہا تھا کہ آپ نے جس ملک کے اندر ایک ککڑی خانہ بھی نہیں لگایا تو لوگ باتیں تو بنائیں گے کہ آپ کے پاس دولت کہاں سے آ رہی ہے، یہ بات میں نے ان کے منہ پر کی ا ور آٹھ بندوں کے سامنے کی۔حمزہ کو مرغی خانے کا طعنہ دیا جاتا ہے مگر یہ کاروبار تو ہے جو سب کے سامنے ہو رہا ہے۔کیا یہ کاروبار ایان علی کے دھندے سے زیادہ گندہ ہے۔
وزیرا عظم اپنی مشاورت کا دائرہ وسیع کریں، اس میں شہباز اور حمزہ کو بھی شامل کریں ورنہ ان دونوں کی دن رات کی محنت داؤ پر لگ سکتی ہے۔میاں شہباز شریف بھی خطرناک بیماری کا شکار ہیں ، اس کے باوجودانہوں نے اس ملک کو ترقی یافتہ ملکوں کا چہرہ بخشنے پر دن رات ایک کر رکھا ہے۔
وزیرا عظم پارلیمنٹ کو مشاورت میں شامل کریں کہ یہ ادارہ جمہوریت کی ماں ہے۔اور عمران خان کو اگر جمہوریت عزیز ہے تو وہ ڈی چوک اورایف نائن پارک کے بجائے پارلیمنٹ میں عوامی نمائندوں کا سامنا کرے۔
عمران خان جان لیں کہ پاکستان نہ تو پانامہ ری پبلک ہے اور نہ بنانا ری پبلک ،ا سے چند کاغذوں کے ذریعے بلیک میل نہیں کیا جاسکتاا ور نہ سڑکوں پر ناچ گانا کر کے اس کے اقتدار پر شب خون مارا جا سکتا ہے۔
وزیر اعظم بھی اپنی تیسری تقریرکا مسودہ پھاڑ دیں۔پاکستان کے اقتدار کے مالک اس کے بیس کروڑ عوام ہیں۔یہ اقتدار کسی کی جاگیر نہیں کہ۔۔ بہ خال ہندوش بخشم سمرقندو بخارا را۔۔ کا اعلان کر دیا جائے۔