خبرنامہ

تربیلا سے براہ راست

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

تربیلا سے براہ راست

نئے آرمی چیف کو زبان کھولنے پرمجبور کر دیا گیا ہے۔ چندحکومتی وزرا شاید یہی چاہتے تھے۔ وہ کئی مہینوں سے شہ دے رہے تھے۔ مقصد یودیکھتا تھا کہ جنرل راحیل شریف کے صبر کا پیانہ کب لبریز ہوتا ہے۔
تربیلا میں پاک فوج کے کمانڈوز کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ دنیاان کمانڈوز کے تصور سے تھر تھر کانپتی ہے۔ مشرف نے کسی زمانے میں کہا تھا کہ ڈرتاو تاکسی سے نہیں، کمانڈو ہوں مگر اب اس کمانڈو کے گردگھیراتنگ کر دیا گیا ہے۔ ایک ساتھ کئی مقدمے بنادیئے گئے ہیں۔ سب سے سنگین مقدمہ غداری کا ہے مگر بات اور لال مسجد کی مین بھی کم نہیں۔ زاہر ایک میں موت کی ہے۔ مشرف اول تو عدالتوں میں کم ہی پیش ہوتے ہیں، اور اگر وہ پیش ہونا بھی چاہیں تو ایک دن میں ڈھیر ساری پیشیاں وہ بھگتا بھی نہیں سکتے۔ کچھ عرصہ انہوں نے فوری ہسپتال میں گزارا۔ حکومتی وزرا انہیں اکساتے رہے کہ بھائی کمانڈ وصاحب، چھے کیوں بیٹھے ہو اور وہ بھی فوری ہسپتال میں۔ اس ایک فقرے میں کئی طنز چھے ہیں۔ ایک تو کمانڈو کی چینی اور دوسرے فریبی ہسپتال کوسلسل رگڑا تیسرے فوج پر ان کی پشت پناہی کا الزام عدالتوں میں پیشی سے بچنے کے لیئے کسی بھی ملزم کو قانونی حق حاصل ہے، ان میں میڈیکل سرٹیفیکیٹ پہلا اور آزمودہ نسخہ ہے جو اکثر ملزم کا میابی سے استعمال کرتے ہیں مگر حکومتی وزرا نے کسی عدالت میں زیر سماعت مقدمے کے ملزم پر ایسی چینی بھی نہیں کی، سول سوسائٹی نے آج تک کسی ملزم کی نیت یا اس کے کردار پر اس بری طرح سے حملے کئے ہیں۔ بہادر آدی جاوید ہاشمی دانتوں کے معائنے کے لیے جیل سے سروسز ہپتال آیا کرتے تھے، ہم لوگ ان کے گرد منڈلی لگاتے تھے،زرداری نے ساری دوستیوں کی بنیاد پنڈی کی کچہری کے احاطے میں رکھی منظور وٹو نے کئی الیشن لاہور میں دل کے ہسپتال کے وی آئی پی کمرے میں لیٹ کرلڑے اور جیتے۔
زیر سماعت مقدمات پر بھی تبھرے نہیں کئے جاتے، سب چیوٹس کی ایک اصطلاح اسی لیئے ایجاد کی گئی تھی مگر اب مقدسے عدالتوں کے بجائے ٹاک شوز میں لڑنے کا رواج چل نکلا ہے۔ مشرف کا کوئی مقدمہ ابھی ڈھنگ سے شروع نہیں ہوالیکن دونوں طرف سے دلائل کا ایک انبار ہے جو ٹی وی اینکر ز لگا چکے ہیں اور ان پر قریب قریب اپنے فیصلے سنا چکے ہیں یا ان کی خواہش ہے کہ فیصلے اسی طرح کے کیئے جائیں۔
فوج کی سب کچھ دیکھ اور سن رہی تھی۔ اس کے سامنے کون سا راستہ کھلا تھا۔ ایک تو یہ کہ مشرف کو عدالتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ سیکام اسی صورت میں ہوسکتا تھا جب مشرف کے مخالفین بھی خاموش رہتے اور عدالتوں کو اپنا کام کرنے دیتے۔ فوج نے بہر حال خاموشی اختیار کیے رکھی، کئی ماہ تک دیکھو اور انتظار کروکی پاسی پرعمل کیا مگر دوسرا فریق مشرف کے ٹرائل کے بجائے فوج کے ٹرائل پر تلا ہوا تھا۔ مجھے اس ایجنڈے میں بھی کوئی خرابی نظر نہیں آتی بشرطیکہ ایوب خان، ان کے فوجی کمانڈرز کنونشن لیگی ساتھی، نظریہ ضرورت ایجاد کرنے والی عدلیہ اور دانشور بیوروکری پر بھی مقدمہ قائم کیا جاتا۔ اسی طرح کی خان اور ضیا امت کو بھی کٹہرے میں لایا جاتا اور جنرل اسلم بیگ دور میں آئی ایس آئی کی مداخلت اور سیاسی اتحاد بنانے والے ٹولے پر بھی فرد جرم عائد کی جاتی، اسی طرح مشرف پر بارہ اکتوبر کے اقدام پر مقدمہ دائر کیا جاتا اور اس کی حامی پی سی اوز دہ عدلیہ، ق لیگ، ایم ایم اے تحر یک انصاف، ایم کیوایم اور پیٹریاٹ وغیرہ کا بھی احتساب کیا جاتا۔ بھٹو صاحب بھی سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے، اور اس سے چند روز پہلے پاکستان بھی ٹوٹا۔ ان کے مقدے تو بے حد ضروری تھے۔ یہ سب کچھ پنڈورا باکس کھولنے کے مترادف ہوتا لیکن قومی تطہیر کے لیئے یہ ضروری تھا۔ کوئی بھی بیعذرنہیں تراش سکتا کہ ان جرائم کو ایک زمانہ گزر گیا، قانون اور آئین اتنی دیر بعد ایسے مقدمے کھولنے کے حق میں نہیں۔ بلتی، لال مسجد اور نومبر ایمرجنسی بھی کوئی آج کل کی بات نہیں، درمیان میں زرداری حکومت نے پانچ سال پورے کیئے، ان کے ساتھ ہی ن لیگی وزرا نے بھی مشرف سے حلف لیا۔ اسوقت انہیں کوئی مقدمہ یا نہیں آیا تو اب ایک مقدمہ چلا کر سارا حساب کیسے برابر کیا جاسکتا ہے۔ ماضی کے مجرموں کو کھلا چھوڑ تا کونسا انصاف ہے۔
ہمارے لیے آج رول ماڈل تر کی بنا ہوا ہے وہاں ایک حکمران کی ہڈیاں قبر سے نکال کر اسے پھانسی دی گئی تو ہمارے غاصب حکمران قبروں میں سکون سے گواستراحت کیوں ہیں۔ ترکی کے نقش قدم پر چلتا ہے تو ہمیں سیدھے سبھا اپنی فوج شام کی جنگ میں جھونک دینی چاہیے جیسا کہ ترکی کر چکا ہے۔ ترکی نے سوشل میڈیا پر بھی قدغنیں عائد کر دی ہیں، کیا ہم بھی یہی شوق پورا کریں گے۔
میں نے حالات کا جو نقشہ پیش کیا ہے، وہ سر چکرانے کے لیئے کافی ہے۔ آپ کا نہیں چکرایا تو میرا ضرور چکرا گیا ہے، میں نے پچھلے تین ماہ میں اس موضوع پر اس لیے قلم نہیں اٹھایا۔ میں چاہتا تھا کہ مشرف کے ساتھ جو ہونا ہے، وہ جلدی سے ہوجائے گرمشرف کوکسی نے ابھی تک کوئی سزا نہیں دی، صرف فوج کو بے نقط سنائی گئی ہیں۔ میں پھر کہتا ہوں کہ عدالت قانون کے تحت مشرف کو سو بار چھائی دے دے، کوئی قیامت نہیں آئے گی، بھٹو کو پھانسی دے دی گئی، بے نظیر کو شہید کر دیا گیا، طالبان نے پچاس ہزار بے گناہ پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا مگر کارخان قدرت ایک لمے کے لیئے رکا نہیں مگر مشرف کو پھانسی دینا شاید مقصودی نہیں، مقصد فوج کو فتح کرنا ہے، طالبان تو بارہ سال میں نہیں کر سکے، امریکی اور نیٹو افواج بھی پاک فوج کو وقت نہیں کر سکیں، تین چارجنگوں میں بھارتی فوج بھی یہ گوہرقصو نہیں پاسکیں تو بہتر یہ ہوگا کہ ہماری حکومت میخواہش ترک کردے۔
آرمی چیف کے حوالے سے جو پریس ریلیز سامنے آئی ہے، میں نے اس کا مائیکروسکوپ کے ساتھ تجزیہ کیا ہے۔ اس پریس ریلیز کے کل ایک سو ستانوے الفاظ ہیں، تین پیرا گراف ہیں اور آخری پیراگراف میں صرف انچاس الفاظ ہیں۔ میڈیا نے پہلے دونوں پیراگرافقوں کونظرانداز کر دیا ہے جن میں ملک کو در پیشگین مسائل کا ذکر ہے، فوج کی لازوال قربانیوں کا ذکر ہے۔ آخری انچاس الفاظ کو پٹڑ کر دھول اڑائی جارہی ہے۔ یہ الفاظ بھی پہلے ایک سو اڑتالیس الفاظ کو موثر بنانے اور افسروں اور جوانوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ضروری ہیں مگر انہیں سیاق و سباق سے الگ کر کے فوج اورمنتخب حکومت کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا گیا ہے۔
میرا دل کہتا ہے کہ جو عناصر اس نظام کو لپیٹ کرنا چاہتے ہیں، ان کے مذموم عزائم پورے نہیں ہوں گے۔ ہماری فوج چھ برس سے سیاست کی آلائشوں سے دور ہے، اس کے نئے چیف نے صرف وقار کا سوال اٹھایا ہے۔ ملکی آ ئین ہر شہری کی عزت نفس کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے۔ فوج کو بھی عزت نفس چاہئے۔ اور اب کوئی بڑا سوال نہیں، آرمی چیف نے دین کو چا نہیں مانگا۔
منہ بند رکھنے کا سوال ہے بایا۔ 9 اپریل 2014)