خبرنامہ

ترک معاشرہ تقسیم سے بچ گیا۔۔اسداللہ غالب

پاکستان کے اندرونی حالات پر لکھنے سے میں دانستہ گریز کر رہاہوں۔کوئٹہ کی خونریزی پر بھی میں نے ایک حرف نہ لکھا، میں مطمئن ہوں کہ بارہ گلیوں کا شہر کوئٹہ اچکزئی خاندان کے ایک درجن حکمران افراد کے ہاتھ میں بالکل محفوظ ہے۔اور اگر کہیں کوئی خرابی ہے تو وہ ذمے داروں کو کٹہرے میں کھڑا کر کے نشان عبرت بھی بنا سکتے ہیں۔تو میں۔۔ کیا پدی ۔۔کیا پدی کا شوربہ کی مثال کیا لکھوں!
میرے خیال میں ہمارے مسائل کا حل ترکی کے تجربے کو پیش نظر رکھ کر تلاش کیا جا سکتا ہے۔اس کے لئے میں کوئی ایک درجن کالم گھسیٹ بیٹھا ہوں اور ابھی اتنے ہی اور لکھنے کاارادہ ہے۔
پیر کی دوپہر میری ملاقات نوجوان دانشور عبدالغفار عزیز سے ہوئی، وہ جماعت اسلامی کے شعبہ امور خارجہ کے سربراہ ہیں، اس حیثیت سے انہوں نے ترکی کا دورہ کیا تاکہ حالیہ ناکام بغاوت اور اردوان کی فتح کا قریب سے مشاہدہ کر سکیں۔
میرا پہلا سوال وہی تھا جو میں نے امیرا لعظیم سے سب سے آخر میں کیا تھا کہ ترکی میں انتقام کے سونامی کے بپھرنے سے کہیں ترکی میں انتشار ہی برپا نہ ہو جائے اور ترک عوام اور اردوان کی خوشیاں عارضی نہ ثابت ہوں۔
غفار عزیز صاحب نے بتایا کہ یہ خطرہ ٹل چکا ہے کیونکہ ترکی میں تمام سیاسی پارٹیوں نے مشترکہ طور پر ایک مظاہرہ کیا جس میں جمہوریت کی فتح اورعوام کی بالا دستی کے اصول کی تحسین اور ستائش کی گئی۔اس مظاہرے میں ترک اپوزیشن کی تمام پارٹیاں بھی شامل تھیں اور ترک صدر نے خود سامنے آ کر انہیں سلامی پیش کی ، یہ سلامی در حقیقت ترک عوام کے جذبات کے لئے تھی جن کا مظاہرہ فوجی بغاوت کی رات کو ساری دنیا نے دیکھا۔ترکی میں تینوں اپوزیشن پارٹیوں کے سربراہوں نے صدر اردوان سے صدارتی محل میں ملاقات کے دوران ان کے ساتھ مکمل طور پر یک جہتی کا اظہار کیا۔
غفار عزیز کے الفاظ میں پندرہ جولائی کادن ترک تاریخ میں ایک عظیم لشان دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ترک عوام کی نظروں میں پاکستان کی قدرو منزلت میں مزید اضافہ ہوا ہے کیونکہ پاکستانیو ں نے بیک زبان ترک عوام کی جدو جہد کو شاندار الفاظ میں سراہا۔ ترکی کا عام آدمی پہلے ہی پاکستان ا ور اسکے عوام کی تکریم میں کوئی کسر نہیں رہنے دیتا مگر اب ترک سمجھتے ہیں کہ پاکستانی عوام نے پندرہ جولائی کو ان کے شانہ بشانہ جاگ کر فوجی بغاوت کو ناکام بنانے کے لئے دعائیں کیں۔یہ دعائیں صدر اردوان کے لئے تھیں جو اس وقت عالم اسلام کے دلوں کی دھڑکن بن چکاہے ، جس نے بنگلہ دیش میں پھانسیوں پر سخت رد عمل کا مظاہرہ کیا ، جس نے برماکے مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کی، جو فلسطینیوں کے محکوم مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہے اور جو کہتا ہے کہ مسجدیں ہمارے مورچے، ان کے گنبد ہماری ڈھالیں اور ان کے مینار ہمارے نیزے ہیں۔
میں نے لقمہ دیا کہ پاکستانی عوام کو بہر حال ترکی میں وسیع پیمانے پر گرفتاریوں اور برطرفیوں پر تشویش ہے، ہم ترک میڈیا پر پابندیوں کو کیسے گورا کر سکتے ہیں۔اظہار رائے کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے۔
غفار عزیز نے ٹھنڈے لہجے میں جواب دیا کہ اگر آپ ترکی نہیں گئے تو اس صورت حال کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے۔ ترکی میں اردوان ا ور ان کے مخالفین کے مابین ایک عرصے سے کشمکش چلی آ رہی تھی اور انٹیلی جنس چیف نے ترک صدر کوایک رپورٹ پیش کی تھی کہ کس طرح گولن کے آدمی ہر شعبہ زندگی میں سرایت کر چکے ہیں۔ آپ حیران ہوتے ہوں گے کہ ایک ہی رات میں سینکڑوں اور ہزاروں افراد کی لسٹیں کیسے بن گئیں، حقیقت یہ ہے کہ اردوان حکومت کے خلاف سازشیوں کی لسٹیں بہت پہلے سے تیار تھیں اورا س سے پہلے کہ ان کے خلاف کوئی کاروائی کی جاتی، یہ لوگ حرکت میں آ گئے ا ور پوری تیاری کئے بغیراردوان کا تختہ الٹنے کی کوشش کی، دوسری طرف حکومت بھی پہلے ہی سے الرٹ تھی، اس نے ہنگامی صورت حال میں اپنے اوسان خطا نہیں ہونے دیئے، یوں باغیوں کے عزائم خاک میں مل گئے۔
مگر یہ گرفتاریاں، ان کے خلاف ثبوت کیا ہے۔ میں نے پوچھا۔
ترک وزیر انصاف نے واضح کیا ہے کہ کسی کے خلاف بلا ثبوت کاروائی نہیں ہو گی، غفار عزیز کا جواب تھا۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ باغی اگر کامیاب ہو جاتے تو ترکی یا عالم اسلام کو کیا نقصان پہنچتا اورا ردوان کے کامیاب رہنے سے ترکی ا ور عالم ا سلام کو کیا فائدہ ہو گا۔ کیاآپ کے خیال میں یہ کفر و اسلام کی جنگ تھی۔
غفار عزیز نے ترک حکومت کے دفاع کا حق ادا کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک تو منتخب حکومت کو طاقت کے بل پرنہیں بدلا جانا چاہئے۔ دوسرے اردوان نے ملک کوترقی اور خوشحالی کے جس سفر پر گامزن کر رکھا ہے، یہ بلا رکاوٹ جاری رہے گا۔اردوان کی گڈ گورننس سے نہ صرف گولن کے پیرو کار ہی حسد کرتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ان کی مخالفت بڑھ رہی ہے مگر پندرہ جولائی کی شب ان مخالفین کے مذموم عزائم کو بریکیں لگ گئی ہیں۔
ترک عوام کا ذہن کس حد تک بدل چکا ہے، اس کی ایک جھلک غفار عزیز صاحب کے ایک مضمون میں یوں ملتی ہے کہ ایک بار قاضی حسین احمد کو حرم کعبہ میں ایک ترک بابا جی ملے۔اس نے جیب سے ایک نوٹ نکالاا ور قاضی صاحب سے پوچھا کہ ا س پر کس کی تصویر ہے، قاضی صاحب نے احترام سے جواب دیا کہ یہ ا تا ترک ہیں، بابا جی نے نوٹ پر تھوکتے ہوئے اسے پاؤں تلے مسلا اور کہا کہ آخ تھو، یہ اتا کفر ۔۔۔اتا کفر ۔۔ ہے۔
اس ترکی کو ہم لوگ ہمیشہ ایک ماڈل کے طور پر لیتے ہیں، ہماری فوجی حکومتیں ترک ماڈل کی فریفتہ رہی ہیں۔ اور اب شریف حکومت بھی ترک ماڈل کی پیروی کر رہی ہے، ایک طرف تو ترقی اور خوشحال کے لئے کام کیا جا رہا ہے ،دوسری طرف دینی شعائر پر پابندی کا عمل بھی جاری ہے اور نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں مولوی ا ور مسجد کو گونگا بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردوان اور اتاترک دونوں ہی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔
غفار عزیز سے بات بڑی طویل ہوئی مگر میں یہ سطور اپنی گاڑی میں بیٹھے لکھتے لکھتے تھک چکا ہوں جو لاہور کی موسلا دھار بارش کے بعد ٹریفک کے دھرنے میں بری طرح پھنس چکی ہے۔لاہور کو پہلے تو پیرس بنانے کاا علان کیا گیا تھا، پھر پیرس کا عشق ہوا ہو گیا اور لاہور کو استنبول بنانے کا نیا اعلان جاری کیا گیا، مگر لہور۔۔ لہور۔۔ ہی رہا۔
میں نے عبد الغفار عزیز سے وعدہ لیا کہ اردوان ا ور اتا ترک کا آمیزہ جو ہمارے پیش نظر ہے ،اس پر وہ آئندہ کسی ملاقات میں روشنی ڈالیں گے۔