خبرنامہ

تنہائی کا عذاب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

تنہائی کا عذاب

خداکسی کا یہ حشر نہ کرے۔ مگریہ تو سارا اپنا کیا دھرا ہے۔
پہلے تو سوشل میڈیا نے انہیں الگ تھلگ کر کے پرے پھینک دیا، پھر سول سوسائٹی نے انہیں اچھوت بنا دیا۔ ہر چند وزیراعظم، وزیر اطلاعات اور رانا ثنااللہ ان کے ساتھ کھڑے نظر آئے مگر نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے۔ اور اب عمران خان بھی گھن گرج سے بولے، چودھری شجاعت نے بھی شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ بھی جماعت الدعوہ کے حافظ محمد سعید کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ اب وہ سب لڑ کھڑا رہے ہیں جنہوں نے آٹھ گھنٹوں تک ایک الزام اور ایک تصویر کے ساتھ عوام کے اعصاب پر لرزہ طاری کرنے کی کوشش کی تھی۔ اور اب اصل الزام سامنے آیا ہے تو اس میں سے تصویر تو سرے سے غائب ہے۔
ہسپتالی بیان میں تصویر ہے ہی نہیں اور اس کا کیپشن بھی بدل دیا گیا ہے۔ آٹھ گھنٹے تک سمع خراشی کی قلعی کھلی تو لوگوں کا رہا سہا یقین بھی پگھل گیا۔ ادارے نے کچھ کہا، بھائی نے کچھ کہا اور زخمی نے کچھ۔ کسی کا بیان دوسرے سے ملتا نہیں، پتا نہیں انوسٹی گیشن کی بنیاد اب کیا رہ گئی ہے۔ زخمی اکیلا رہ گیا۔ گولیاں ابھی تک اس کے جسم کے اندر وہ بہادر تو ہے مگرنئی ملالہ کی داستان نہ لکھی جاسکی۔
ایک مخمصہ ابھی باقی ہے۔ حکومت بڑی استقامت کے ساتھ پروپیگنڈے کا ساتھ نبھارہی ہے۔ کیا ان سب کا ایجنڈا ایک ہے۔ مشرف کے ٹرائل نے کچھ جھلکیاں دکھا دی ہیں۔ اور اب بات کھل گئی ہے۔ وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ واضح ہوگیا کہ حکومت کس کے ساتھ ہے غلیل کے ساتھ یا دلیل کے ساتھ۔ کہتے ہیں کہ آج قانون کی حکمرانی ہے اور فوج کو بھی پیمراسے رجوع کرنا پڑا ہے۔ کوئی پوچھے کہ فوج کی گردن جھکا کر آپ کو کیا ملے گا محض انا کی تسکین مگر ریاست پر کیا گزرے گی، مگر یہ تو حکومت نے سوچا تک نہیں حکومت ایک لمحے کے لیے توقف کر کے سوچ لیتی کہ وہ جس کا ساتھ دینے جارہی ہے، کیا اس نے کبھی بھولے سے بھی کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کی مذمت کی ہے۔ چاچا قد یر کی کتھا اپنی جگہ دردناک تو ہے مگرعلی گیلانی کی عقوبت کو بھی کبھی بیان کیا ہوتا۔ الٹا بھارتی فوج کے الزامات کو درست ثابت کرنے کی سعی کی گئی۔ کیا امریکی اور نیٹو فوج کی مذمت کی گئی، افغانستان، عراق، یمن، شام، مصر، لیبیا، سوڈان اور نجانے کہاں کہاں چنگیز خان کے قتل عام کو مات کیا مگر ان کو سب گناہ، سب قتل معاف اور گالیاں صرف پاک فوج کے لیئے کیوں۔ صرف اس لیئے کہ وہ پاکستان کے اقتدار اعلی کے تحفظ کے لیے قربانیاں دے رہی ہے، اس لیئے کہ اس نے بھارتی را کی ریشہ دوانیوں کو ہمیشہ ناکام بنایا ہے، اس لیئے کہ اس نے اسرائیلی عزائم کونئی دہلی اور جموں ایر پورٹس پر بے نقاب کیا ہے، اس لیئے کہ اس کے ہوابازوں نے بھارتی سرجیکل اسٹرائیک کرنے والوں کا راستہ روکا ہے اس لیئے کہ اس نے براس ٹیکس مشقوں کی آڑ میں بھارتی جارحیت کو منہ توڑ جواب دیا ہے، اسلیئے کہ اس نے بمبئی حملوں کے بعد مشرقی سرحد کی طرف بھارت کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی اجازت نہیں دی، اس لئے کہ لائن آف کنٹرول پر اس نے بھارتی جارحیت کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ اس لیئے کہ ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود ایٹمی اسلحہ تیار کر کے راس کماری سے لے کر مراکش تک کے خطے کو تحفظ کا احساس بخشا ہے۔ اس لیے کہ اس نے مہا بھارت کے خواب کوبحرہ ہند میں ڈبودیا ہے۔
پاک فوج کایہ گناہ، گناہ کبیرہ ہے اس کی سزا دینے کے لیے تیاری تو خوب کی گئی تھی مگر وائے قسمت کی طاقت پاک فوج کی طاقت تھی، پاکستان کی طاقت تھی، اس کے عوام کی طاقت تھی جسے خس و خاشاک میں ملانے کی سازش دم توڑ چکی۔ اپنی موت آپ مر چکی۔
پاکستان میں خرابیاں ضرور ہیں لیکن اس کی خوبیوں کا پلہ بھاری ہے۔ یہ خوبی کہیں اور نہیں کہ اس کے چیف جسٹس اور پوری عدلیہ کو نکال دیا جائے مگر عوام ڈٹ جائیں اور ان کو بحال کر کے دم لیں۔ بھارت میں ایک سابق آرمی چیف کی گت بنتی رہی، وہ اپنی تاریخ پیدائش ٹھیک کرانے کے چکر میں تھے لیکن وہاں کے عوام،آرمی چیف کی خواہشات سے لاتعلق رہے۔ پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے۔ یہاں عوام نے اپنی افواج کے وقار کے تحفظ میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رہنے دیا۔ اعلان تو آرمی چیف نے کیا تھا کہ وہ اپنے ادارے کے وقار کا تحفظ کریں گے لیکن ان کی اس خواہش کو عوام نے پورا کر دکھایا۔ اسی طرح ریاستی اداروں کے مابین کشمکش اور محاذ آرائی کی قیامت سے ہم بچ گئے۔ عوام نے ساری دردسری اپنے سر لے لی۔
عوام نے اصل میں فوج پر الزام تراشی کرنے والوں کوتر از دو میں تولا۔ اور ان کے سچ جھوٹ کی پہچان میں کسی کو دقت نہیں ہوئی۔ پاک فوج کو نیچا دکھانے کی خواہش بھارت کی ہے، اسرائیل کی ہے۔ نیٹو کی ہے۔ امریکہ کی ہے۔ اور جب لوگوں نے کسی بھی ادارے کے سربراہ کو یہ کہتے سنا کہ یہاں کوئی مقدس گائے نہیں تو وہ کہنے والے کی شکل وصورت کو دیکھنے لگے۔ اس کی تذکیر و تانیث کا ہی پتا نہیں چلتا۔ اس نے گائے کا لفظ کہیں سے سن رکھا ہوگا مگر اسے انداز نہیں تھا کہ یہاں اسے ایک سانڈ سے پالا پڑ گیا ہے۔
ایک مرحلہ ابھی باقی ہے۔ حکومت کو بھی عقل نہیں آئی، آئے بھی تو کیسے اس قدر ڈھٹائی، وزیر اعظم نے بھی کبھی کسی زخمی کی عیادت نہ کی، کئی صحافی، کئی علما کئی جرنیل، کئی سپاہی، کئی معصوم شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، وزیراعظم نے کسی کے آنسو تک نہ پونچھے۔ مگر ان کے قاتلوں کو وزیراعظم معافی دینے پر تلے ہوئے ہیں، ان کے قیدی رہا کیئے جارہے ہیں۔ ریاست کا عوام کا ایک قیدی بھی نہیں چھڑا سکے، کچھ بعید نہیں کہ قاتلوں کو ایک آزاد علاقہ بھی عطا کر دیا جائے۔ یعنی پاکستان کے نقشے سے کاٹ کر کوئی علاقہ عطیہ کر دیا جائے۔ لاحول پڑھنے کو جی چاہتا ہے کیونکہ حکومت پرکسی کا زور نہیں جاتا، اسے دو تہائی اکثریت حاصل ہے۔ جمہوریت میں اسے سیاہی سفیدی کا اختیار حاصل ہے۔ ایک فوج کا ڈر ہوا کرتا تھا، اس خوف کو بھی سرخ مرچوں کی دھونی دی جارہی ہے۔
مگر لڑائی کے تین معرکے سر ہو گئے۔ سوشل میڈیا، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کی اکثریت نے اپنی طاقت منوالی۔ جھوٹ کا بول بالا نہ ہوسکا۔
دوسری طرف آوازوں اور تصویروں کا ایک جنگل ہے اور ایسی تنہائی ہے کہ ہو کا عالم ہے حکومت کی بھر پور تائید کے باوجو لفظ گونگے اور تصویریں اندھی ہیں۔ (28 اپریل 2014)