خبرنامہ

تیرھواں سوال جو نواز شریف نے نہیں پوچھا….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

یاں نواز شریف نے وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے بارہ سوال پوچھے ہیں، اگرچہ عدالت نے اپنے خلاف تقاریر کی نشر و اشاعت منع کر رکھی ہے مگر لگتا یہ ہے کہ یہ احکامات ابھی تک ٹی سی چینلز کو موصول نہیں ہوئے ورنہ یہ سوالات سے بھر پور تقریر شاید نشر نہ ہو سکتی تھی اور یہ بھی علم نہیں کہ اخبارات کے ذریعے بھی یہ عوام تک پہنچ سکتی تھی یا نہیں۔

میاںنواز شریف کے سوالات کی تشریح کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، یہ اپنی جگہ پر مکمل اور واضح ہیں اور ان کا جوا ب بھی انہی سوالوں کے اندر مضمر ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ میاں صاحب کو جو سوال ضرور پوچھنا چاہئے تھا یا جو نکتہ ضرور اٹھانا چاہئے تھا، وہ کچھ یوں ہے کہ انہیں ایک ایسے وقت میں نکال کر حکومت کو غیر مستحکم کیوں کیا گیا جب سبھی کو علم تھا کہ امریکہ کے ارادے نیک نہیں ہیں۔ ان مذموم عزائم کا مقابلہ کرنے کے لئے ملک میں ایک مضبوط حکومت کی موجودگی کی ضرورت تھی۔ موجودہ صورت حال میں ایسی مضبوط حکومت صرف میاں صاحب کی ہو سکتی ہے جسے ایوان کے اندر اب بھی ایک سو بائیس ووٹوں کی حمایت حاصل ہے اور جی ٹی روڈ مارچ نے بھی ثابت کیا ہے کہ میاں صاحب کو عوام کی اکثریتی تائید وحمایت حاصل ہے۔
سننے میں آرہا ہے کہ کہیں سے ایسی قومی حکومت امپورٹ کی جائے گی جو مسلم لیگ ن سے بڑھ کر عوامی تائید وحمایت سے بہرہ مند ہو۔ یہ صدارتی نظام سے آراستہ ہو گی اور اسے ٹیکنو کریٹس کی ایک بہترین ٹیم لیڈ کرے گی۔ اللہ کرے دنیا کے کسی کونے کھدرے میں ایسی حکومت دستیاب ہو جائے مگر ایں خیال ا ست و محال است و جنوں است۔ بد خوابی کے مرض کا کوئی علاج نہیں اور ایسی دوائیں مارکیٹ سے مل جاتی ہیں جن کی پہلی خوراک سے ہی انسان خوش نما خوابوں کے مزے اڑانے لگتا ہے، پچھلے دنوں ڈاکٹر نے میرے بلڈ پریشر کی دوائی تبدیل کی اور میں بھی ایسے ایسے سہانے خواب دیکھنے لگا کہ کیا بتاﺅںمگر میں ڈاکٹر کے پا س گیااور عرض کی حضور، پرانی دوائی بحال کر دیں، میں ایسے خواب دیکھنے لگا ہوں جن کی تعبیر سترسال کی عمر کے بعد ناممکن ہے۔قوم کو یاد ہو گا کہ صدام حسین اور امریکہ کے مابین جنگ چھڑی تو ایک ریٹائرڈ میجر صاحب نے روزانہ کی بنیاد پر کالم لکھ کر ثابت کیا کہ صدام حسین کی افواج سات روز کے اندر یورپ کو روندتے ہوئے امریکی دارالحکومت واشنگٹن پر قابض ہو جائیں گی۔ اللہ ان میجر صاحب پر اپنی رحمتیں نازل کرے، جس ملک کے میجر اپنے آپ کو جولیس سیزر، خالدبن ولید اور صلاح الدین ایوبی سے بڑھ کر حکمت کار سمجھنے لگ جائیں، وہاں کے جرنیل کیا کچھ نہیں سوچتے رہے ہوں گے۔میں ایک چشم دید واقعہ سنانا چاہتا ہوںمجھے کسی کی تضحیک مقصود نہیں مگر تاریخ کااپنا ایک ریکارڈ ہے۔ جس روز امریکہ اور عراق کی جنگ چھڑی پاکستان کے سینئر ترین ایڈیٹروں کو گوجرانوالہ میں ضرب مومن کی تکمیل پر ایک بریفنگ کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ ناشتے کی چائے نوش کرتے ہوئے ہم لو گوںنے متفقہ طور پر عراق امریکہ جنگ پر تبصرے کے لئے کہا تو جنرل اسلم بیگ نے فرمایا کہ زیادہ سے زیادہ گیارہ بجے تک امریکی فوج گھیرے میں آ کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جائے گی، مگر دن کے تین بج گئے اور اس وقت تک امریکی فوج بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا رہی تھی۔ جنرل اسلم بیگ اپنے موقف پر نظر ثانی کے لئے تیار نہ تھے، اگلے روز انہوںنے ملک بھر سے ڈیڑھ دو سو اخبار نویس جی ایچ کیو بلائے، انہیں تو واہ فیکٹری اور کامرہ کمپلیکس دکھانے بھیج دیا گیا اور پیچھے سے جی ایچ کیو کے ہال میں فوجی افسروں کو اکٹھا کر کے آرمی چیف نے نئی پیش گوئی کر دی کہ عراق میں امریکی فوج کا کربلا بنا دیا جائے گا۔
شاید ایسی ہی کوئی جنگی حکمت عملی اکہتر میں بروئے کار لائی گئی۔ اس حکمت عملی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی محاذ سے کیا جائے گا، اس کے لئے سلیمانکی ا ور قصور سیکٹرز میں چند مربع میل کا بھارتی علاقہ ہتھیالیا گیا مگر بدلے میں پورا مشرقی پاکستان دے دیا گیا۔
ایک ایڈونچر پینسٹھ میںکیا گیا، آپریشن جبرالٹر کے نام سے بھارت کو کشمیر کے محاذ پر شکست دینے کا تاثر پیدا کیا گیا مگر بھارت نے جواب میں پوری مشرقی سرحد پر یلغار کر دی، وہ تو اللہ بھلا کرے پاکستانی عوام اور ان کے مدبر سیاسی رہنماﺅں کا کہ وہ اپنی افواج کے ساتھ کھڑے ہو گئے ا ور بھارت کے عزائم خاک میںمل گئے۔
آج بھی کسی بیرونی خطرے سے نبٹنے کے لئے پینسٹھ کی طرح قوم کو متحد ہونا پڑے گا۔ اس اتحاد کی ضمانت میاںنواز شریف تو دے سکتے تھے مگر ان کے پورے خاندان کا نمد اکس دیا گیا ہے اور بکرا عید سے قبل پھرتیاں دکھانے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں، اس سے نواز شریف اور ان کے خاندان کو تو ہر نوع کانقصان پہنچ سکتا ہے مگر جو نقصان قوم اور ملک کو پہنچنے کا خدشہ ہے، اس سے نبٹنے کی حکمت عملی بھی تو کوئی ہونی چاہئے۔
میری فہم ناقص ہو سکتی ہے، میں اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار ہو سکتا ہوں، مجھے بد خوابی کا مرض بھی لاحق ہو سکتا ہے مگر جب میںنے ابھی افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل نکلسن کا یہ بیان پڑھا ہے کہ انہیں کوئٹہ ا ور پشاور میں افغان طالبان کی پناہ گاہوں کامکمل علم ہے تو میں کپکپانے لگتا ہوں، اس لئے کپکپانے لگتا ہوں کہ ہم اکہتر کی طرح انتشار کا شکار ہیں، پینسٹھ والے جذبے مفقود ہیں۔
میں جب میاں صاحب کا وکلا کنونشن سے خطاب سن رہا تھا اور انگلیوں پر ان کے سوالات گن رہا تھا تو مجھے حیرت ہوئی کہ انہوں نے تیرھواں سوال کیوںنہ پوچھا۔
کیا یہی وہ سوال تو نہیں جس کی طرف چودھری نثار نے وزیر داخلہ کے طور پر اپنی آخری پریس بریفنگ میں اشارہ کیا تھا۔
آج تھوڑا لکھا ہے، آگے لکھنے کا حوصلہ نہیں جس طرح چودھری نثار کو مزید بولنے کی ہمت نہیں تھی۔ جس طرح میاں صاحب ایک سازش کا ذکر تو بار بار کرتے ہیںمگر اس کی تفصیل نہیں بتاتے۔
حکومت کو توڑنا کوئی سازش نہیں، سازش تو یہ ہے کہ کیا خدا نخواستہ ملک کو توڑنے کی سازش تو نہیں ہو رہی۔ امریکی صدر نے اپنے مذموم عزائم تو واضح نہیں کر دیئے ہیں۔