خبرنامہ

جماعت اسلامی کا بگڑا ہوا مزاج … اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

جماعت اسلامی کا بگڑا ہوا مزاج … اسد اللہ غالب

جماعت اسلامی بڑی فرماں بردارنکلی، ادھر نوائے وقت نے اپنے اداریے میں سراج الحق کو مشورہ دیا کہ طالبان ان کے اتنے ہی لاڈلے ہیں تو وہ جا کر ان میں شامل ہو جائیں۔ جماعت نے یہ مشورہ پلے باندھ لیا جماعت کے نائب امیر حافظ محمد ادریس آپریشن ضرب عضب کی نیم شب، فیس بک پر جلوہ گر ہوئے، انہوں نے وعظ فرمانا شروع کیا کہ کوئی مسلمان دوسرے کلمہ گو مسلمان کا خون بہانے کا جواز نہیں رکھتا، انہوں نے ایک حدیث بھی بیان فرمائی جس کی صحت سے کسی کو انکار کی مجال نہیں لیکن فیس بک کو پڑھنے والے حافظ جی کے بھی استاد نکلے۔ انہوں نے قبلہ حافظ صاحب سے سوال کیا کہ جب یہی کلمہ گو جن کو بچانے کے لیئے وہ تڑپ رہے ہیں، دوسرے کلمہ گو مسلمانوں کا خون بہا رہے تھے، انہیں گھروں، دفتروں، بازاروں، جلسوں، مسجدوں، چرچوں، امام بارگاہوں اور مزاروں پر خودکش حملوں میں شہید کر رہے تھے اور پاک فوج کے قیدیوں کے سر کاٹ کر ان سے فٹ بال کھیل کر محظوظ ہورہے تھے تو حافظ صاحب نے انہیں یہ حدیث کیوں یاد نہ دلائی۔ ہوسکتا ہے حافظ صاحب کی جوابی دلیل سے ضرور مسلح ہوں مگر انہیں اپنے نقادوں کو مطمئن کرنے کے لیئے کوئی تردد نہ کرنا پڑا، اس لیے کہ کسی گلو بٹ کی قیادت میں لاہور پولیس نے ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر پر چڑھائی کر دی، جن لوگوں نے گھر والوں کو بچانے کی کوشش کی، انہیں آنسوگیس، لاٹھیوں، مکوں، اور بالآخر سیدھی گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ حافظ صاحب ہی جانتے ہوں گے کہ انہیں ان مظلوموں کا کتنا دکھ ہوا مگر اس وحشیانہ کھیل سے انہیں لٹن روڈ کی پھینٹی یاد آ گئی جو اس شریف حکومت کے پہلے دور میں قاضی حسین احمد اور ان کے جلسے میں شریک کارکنوں کولاہور پولیس کے ہاتھوں پڑی۔
سنا ہے ملک میں ایک ہی جماعت ہے جو بڑے نظم کا ثبوت دیتی ہے، جماعت کے سابقہ امیر منور حسن اور نئے امیر سراج الحق نے پاک فوج کی مخالفت کا جو بیڑا اٹھارکھا ہے، پتا نہیں کہ اس سلسلے میں بولنے سے پہلے وہ اپنی شوری کو اعتماد میں لیتے ہیں یانہیں۔ منورحسن کے تو جو منہ میں آئی انہوں نے کہہ دی اور جماعت بھی بڑی وفا شعار نکلی کہ وہ اپنے امیر کے ساتھ تن کر کھڑی ہوگئی اور اس نے پاک فوج کے مطالبے پر معذرت کرنے سے انکار کر دیا۔ کہتے ہیں کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں ہر کسی کو اپنی رائے رکھنے کی آزادی ہے مگر یہ کیسی آزادی ہے کہ ہم اس رائے کا اظہار کریں جو ہمارا دشمن بھارت بھی نہیں کرتا، اسے بھی ڈ پلو میٹک انداز اختیار کرنا پڑتا ہے۔ جماعت نے سوچ کی آزادی کا استعمال شروع ہی سے شروع کر دیا تھا، مولانا مودودی نے قائد اعظم کی جو مخالفت کی، وہ تاریخ کا حصہ ہے اور اس کی پردہ پوشی کیلئے مولانا کی کتابوں کے نئے ایڈیشنوں میں ترمیم کردی گئی مگر پاکستان بن گیا جو کہ مولانا کی مخالفت کے باوجود بن کے رہنا تھا، تو جماعت نے ہجرت کو ترجیح دی اور کوشش کی کہ نئے ملک کی نظریاتی باگ ڈور کو ہائی جیک کر لے۔ مگر جب پاکستان پر آزمائش کا پہلا ہی وقت آیا اور اس کا ایک اٹوٹ انگ کشمیر، بھارت نے بزور طاقت ہتھیا لیا اور اسے آزاد کرانے کے لیئے قبائلی لشکر نے جہاد کا آغاز کیا تو مولانا مودودی نے فتوی صادر کیا کہ جہادکا حکم صرف ریاست دے سکتی ہے۔ میں نے بڑے نرم الفاظ استعمال کیئے ہیں جبکہ مورخ یہ کہتے ہیں کہ مولانا نے جہادکشمیر کی مخالفت کی تھی۔نئی نسل ان باتوں پر یقین نہیں کرے گی کیونکہ یہی جماعت ہے جس کے لیڈروں نے کشمیر کے جہاد میں اپنے بچوں کو شہید کروایا، اور یہی جماعت ہے جس نے انہیں قبائلوں کو سوویت روس کے خلاف جہاد کے لیے منظم کیا۔ منصورہ کی افغان جہادی لیڈروں کا کئی عشروں تک ہیڈ کوارٹر رہا۔ جہادیوں کے ساتھ ہی روابط جماعت کو آج بھی مجبور کر رہے ہیں کہ وہ ان لوگوں کا ساتھ دیں جو بزعم خولیش جہاد میں مصرف ہیں اور یہ ایسا جہاد ہے جس میں پاکستان کے ساٹھ ہزار سے زائد بے گناہ شہریوں کو شہید کر دیا گیا، ان میں پاک فوج کے پانچ ہزار افسر اور جوان بھی شامل ہیں۔ طالبان کے بقول وہ امریکہ کے خلاف برسر پیکار ہیں لیکن شاید ہی کوئی ایک آدھ امریکی ان کے ہتھے چڑھا ہو۔ ایک ریمنڈ ڈیوسں اپنی بیوقوفی سے قابو بھی آیا مگر پھر سے اڑ گیا اور ہر شخص دیکھتا رہ گیا۔ سارے طالبان مل کر بھی اپنے سپاہ سالار اسامہ بن لادن کومحفوظ پناہ گاہ مہیا نہ کر سکے۔ ذرا یاد کرو کہ جنگ بدر اور جنگ احد میں لشکر اسلام نے اپنے سپاہ سالار کی حفاظت کے لئے کیا کارنامہ انجام دیا تھا۔ تاریخ میں ایسی شجاعت کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔ جماعت کے بانی امیر کا فکری کردارتاریخ کا حصہ ہے مگر سیاسی، اقتصادی، سائنسی اور دفاعی امور ان کے بس میں نہیں تھے۔ مولانا مودودی کے بعد فکری محاذ پربھی جماعت کی کوئی قابل ذکر پیش رفت نظر نہیں آتی۔ اب تو یہ جماعت فکری افلاس اور انتشار کا شکار ہے۔ اور جماعت کے رہنماؤں کے لیئے یہ لمحہ فکر یہ ہونا چاہیئے۔
جماعت بتدریج تضادات میں پھنستی چلی گئی۔ آج یہ فاٹا میں فوجی آپریشن کے خلاف ہے مگر یہی جماعت مشرقی پاکستان کے عوام کے خلاف فوجی آپریشن میں پاک فوج کا دست و بازوبنی، اس کے نوجوان البدراور شمس میں شامل ہو کرمکتی باہنی سے لڑتے رہے اور اسی کیئے کی آج سزا بھی بھگت رہے ہیں۔ جماعت کو جمہوریت سے کس قدر عشق ہے، اس کا اندازہ اس کے جنرل ضیاالحق کے ساتھ عشق حقیقی سے ہو جانا چاہئے اور اگر کوئی کسر باقی ہو تو جنرل مشرف کے عشق مجازی کے سائے میں ایم ایم اے کی حکومت نے جو مزے لیئے، وہ جماعت کے لیئے چھیڑ بن گئے ہیں۔
میں جماعت کو چڑانانہیں چاہتا۔ مگر وہ بتائے کہ کامرہ میں اواکس طیارے اور کراچی میں اورین طیارے کی تباہی سے بھارت کو جو فائدہ پہنچا، اس کا جماعت کو کیا ثواب پہنچا۔ اور پچھلے آٹھ دس برسوں میں پاکستانیوں کو دہشت گردی کے ذریعے جس طرح لہولہان کیا گیا، اس کا نقصان امریکہ کو کیا ہوا اور جماعت کے ہاتھ کیا آیا۔
جماعت کا مزاج یہی رہا تو اس تصور سے دل میں ہول سا اٹھتا ہے کہ مصر کی طرح پاکستان میں بھی اخوان المسلمین کے فکر کی علم بردار جماعت کو کسی جزل سیاسی یابنگلہ دیشی حسینہ واجد کا سامنا ہوسکتا ہے۔
جماعت اپنے قائد کے فکری اثاثے کو تو بچانے کی کوشش کرے۔(21جون 2014ء)