خبرنامہ

جماعت ا سلامی کی انٹی کرپشن مہم، سو بسم اللہ !۔۔۔اسداللہ غالب

کرپشن کا سودا بازار میں خوب بک رہا ہے۔جماعت اسلامی کسی اشو کی تلاش میں رہتی ہے، پانامہ لیکس پر اٹھنے والے شور کی آڑ میں جماعت ا سلامی بھی لنگر لنگوٹ کس کر اکھاڑے میں آ گئی ہے۔
جماعت اسلامی کی لیڈر شپ جب کرپشن کے خلاف شور مچائے گی تو اس سے جواب مں یہ سوال نہیں کیا جا سکتا کہ اپنی منجی تھلے وی ڈانگ پھیرو۔ جماعت میں کوئی خرابی تلاش کرنے کے لئے محدب عدسہ بھی کام نہیں آتا، یہی ایک جماعت ہے جس میں جمہوری سسٹم مکمل طور پر رائج ہے، جس میں باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں اور جس کے فیصلے مکمل مشاورت کے ساتھ کئے جاتے ہیں، جماعت کی قیادت یا کارکنوں پر کبھی بد دیانتی ا ور کرپشن کا الزام نہیں لگا ، میرے گاؤں فتوحی والہ میں ایک تحصیلداربہادر مخصوص طنطنے کے ساتھ دورے پر آئے، یہ پچھلی صدی کے پانچویں عشرے کی بات ہے، ایک دکاندار حاکم علی سے پٹواری نے کہا کہ مرغی کا گوشت پکا کر لاؤ، صاحب کی فرمائش ہے، حاکم علی سادہ منش انسان تھا، اوپر سے جماعت اسلامی کا تڑکا بھی لگا ہو اتھا،ا سکے رکن رکین تھے، صاف انکار کر دیا، کہ ہم وہی کچھ پیش کر سکتے ہیں جو خود کھاتے ہیں۔تحصیلدار نے خفا ہو کر ان پر کوئی حد نافذ کر دی، دس پندرہ برس یہ مقدمہ چلتا رہاا ور آخر اپنی موت مر گیا۔
ضیا الحق کی کابینہ میں جماعت ا سلامی کے چند وزیر شامل ہوئے، ایک کے پاس تو واپڈا کا محکمہ تھا، اس محکمے میں قدم قدم پر رشوت کی فراوانی مگر چودھری رحمت الہی نے اپنے دامن پر ایک دھبہ بھی نہ لگنے دیا، پروفیسر عبدا لغفور کے پاس صنعت کا قلم دان تھا، وہ چاہتے تو ان کے قدموں میں کئی ایان علی ڈالروں کے ڈھیر لگا دیتیں مگر جب جب کبھی لاہور آتے تو منصورہ کے مہمان خانے میں قیام کرتے۔ یہی حال محمود اعظم فاروقی کا تھا جن کے پاس وزارت ا طلاعات تھی۔ صرف ٹینڈر نوٹسوں کے اشتھاروں کا کمیشن مانگتے تو روازنہ لاکھوں میں مل سکتا تھا مگر وہ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کرنے کی صورت نکلے۔
انٹی کرپشن مہم کو جماعت آگے بڑھائے گی تو اسے جواب میں کوئی طعنہ سننے کو نہیں ملے گا، اس لئے کہ جماعت نے کبھی اپنا دامن آلودہ نہیں ہونے دیا۔یہی مہم عمران خان چلا رہا ہے تو سیتا وائٹ سے جمائما گولڈ اسمتھ تک اور شوکت خانم کے لئے چندہ خوری سے لے کر بنی گالہ کے شاہی محل تک کسی سوال کا جواب خان صاحب کے پاس نہیں، اب تو خان اعظم نے لندن کا سفر کیا ہے تو سوشل میڈیا نے ان پر پھبتی کسی ہے کہ اے ٹی ایم میشینوں کو ساتھ لے کر گئے ہیں۔خان خاناں کے پاس اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں کہ جہانگیر تریں پر پانامہ لیکس کے دھبے ہیں اور ان کے جہازوں میں اڑتے پھرتے ہو۔دوسروں کے مال پر عیش کرنا آسان ہے، حضرت خود کسی کو چائے کا کپ پلانے کے روادار نہیں، وہ بھی علیم خان کے دفتر کو اہتما م کرنا پڑتا ہے۔یہ آلائشیں جماعت ا سلامی کو لاحق نہیں،ا سلئے کرپشن کا مسئلہ ہو یا کوئی اور اشو، اس کی بات دھیان سے سنی جائے گی۔ اور ایسا بھی نہیں کہ عمران کی طرح جماعت نے نواز شریف کی خواہ مخواہ مخالفت ہی کرنی ہے، جماعت ہر کرپٹ پر انگلیاں اٹھا رہی ہے۔
گزشتہ روز امیر جماعت سلامی سراج الحق نے لاہور کے ایک اجتماع میں خطاب کیا، لیاقت بلوچ بھی مخصوص لہجے میں گرجے۔ اور جماعت نے بڑا اعلان کر دیا کہ وہ یکم مئی سے کرپشن کے خلاف ملک گیر مہم کاآغاز کرے گی۔ ظاہر ہے یہ مہم جاتی امرا کا رخ نہیں کرے گی کیونکہ جماعت کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں ۔جماعت کو ہر کرپٹ کا گھیراؤ کرنا چاہئے۔ علاقے میں ایک تھانہ ہوتا ہے، اس کا عملہ کرپشن سے لتھڑا ہوا ہے۔ جماعت کے کارکنوں کو ہر تھانے کے باہر جلوس لے کر پہنچنا چاہئے،ا سی طرح ہر علاقے میں بجلی کے دفاتر ہیں جن کا عملہ مٹھی گرم کئے بغیر ہلتا نہیں، ان کے خلاف نعرے بازی ہونی چاہئے اور میری تجویز ہو گی کہ جماعت ایسے جلوسوں کی قیادت جناب خورشید احمد سے کرائے کہ یہاں سبھی ان کی ٹریٖڈیونین کے ارکان چھائے ہوئے ہیں ۔اسی طرح ہر علاقے میں چھوٹی عدالتیں بھی ہیں جہاں مجسٹریٹ کے پہلو میں بیٹھا ہوا اہل مد یا منشی سر عام رشوت لیتا ہے، کبھی فیصلے کی نقل دینے کے بہانے، کبھی فائل جج کے سامنے رکھنے کے بہانے، کبھی لمبی تاریخ لینے کے بہانے، کبھی روبکار جاری کرنے کے بہانے، ایک نہیں سوسو بہانے ہیں۔پھر صوبائی ہیڈ کوراٹرز میں اے جی آفس بھی ہیں جہاں پنشنرز مارے مارے پھرتے ہیں، کلرک بادشاہ رشوت لئے بغیر فائل کو حرکت میں ہی نہیں لاتا، جماعت ا سلامی کو خصوصی توجہ بورڈ آف ریوینیو پر بھی مبذول کرنی چاہیئے ، یہاں ہر ممبر تین سال گزار کر کسی دوسری پر کشش جگہ چلا جاتا ہے مگر بورڈ میں وہ کسی فائل کو چھوتا ہی نہیں۔ اس کاخیال ہے کہ فائل پر کگھی مارنے سے اس کی موت واقع ہو جائے گی، اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ دیوانی مقدامات نسل در نسل چلتے ہیں، نسلوں کی نسلیں ختم ہو جاتی ہیں ، فائلوں کو بالآخر دیمک کھا جاتی ہے اور سارے وارث بھی قبروں میں جا پہنچتے ہیں۔ جماعت ا سلامی کو ایک دن سول سیکرٹریٹ کے باہر بھی گزارنا چاہیے۔ یہاں وہ مخلوق ہے جسے لارڈ میکالے نے جنم دیا تھا ور یہ سبق پڑھایا تھا کہ وہ عرش معلی پر فائز ہیں ،ا سلئے زمین والے حقیر کیڑے مکوڑوں پر کوئی ترس نہ کھائیں۔ہر صوبے اور وفاق کی ا یک کابینہ یھی ہے ،ا سکے ارکان کسی کی رسائی میں نہیں ہوتے، ان کے دروازوں پر پہریدار ہیں، انکے آگے پیچھے گاڑیوں کی قطار ہوتی ہےء، کوئی سائل ان کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا، جماعت اسلامی ان وزیروں کی اچھی طرح کلاس لے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے ہو، عوام کے ٹیکسوں سے ان گنت مراعات حاصل کرتے ہو مگر دھیلے کا کام نہیں کرتے، ا س سے بڑی کرپشن اور کیا ہو گی۔ہمارے نئے میڈیا ہاؤس بھی جماعت کی توجہ چاہتے ہیں جہاں عام طور پر جھوٹ ، الزام تراشی اور شتر بے مہار رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ لوگ خود ہی الزام گھڑتے ہیں ، خود ہی مقدمے کی سماعت کرتے ہیں اور خود ہی فیصلے سناتے ہیں، کبھی کسی عدالت کا فیصلہ آ جائے اتو ا س میں کیڑے نکالنا ان کامحبوب مشغلہ ہے، یہ انٹیلیکچوئل کرپشن ہے جس کے خاتمے کے لئے جماعت کو جد وجہد کرنی چاہئے اور اس بات سے بے پروا ہو کر کرنی چاہئے کہ یہ چینل کبھی جماعت کے لیڈروں کی کوریج نہیں کریں گے۔جب یہ چینل نہیں تھے تو مودوی تب بھی مودوی تھا، مودوی چینلوں کا محتاج نہیں تھا۔نہ چینلوں کی پیداوار تھا۔ جماعت کو ایک چکر بازاروں کا بھی لگانا چا ہئے جہاں جان بچانے والی دوائی سے لے کر ہرچیز دو نمبری ملتی ہے، مرچوں میں اینٹیں پیس کر ملائی جاتی ہیں۔مٹھائی کھانے سے درجنوں لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں ، پنجاب میں ایک خاتون افسر کبھی کبھارا یسے جرائم کانوٹس لیتی ہیں، ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے اور تھوڑی سی توجہ آخر میں تعلیم اداروں پر بھی جہاں تعلیم کے نام پر صرف تجارت ہوتی ہے، جہاں جوہر قابل کی حوصلہ افزائی کرنے ولا کوئی نہیں، ان تعلیمی سیٹھوں کے پیٹ پر ہلکی پھلکی فزیو تھراپی ہو جائے تو کیا ہرج ہے۔
یقین مانئے ہم معاشرے کو سدھار لیں تو پھر ہمارا ووٹر کسی کرپٹ کومنتخب نہیں کرے گا ، نہ ا سے حکومت یا اپوزیشن میں رہ کر گل چھڑے اڑانے کا حق دے گا۔