خبرنامہ

جماعت ا لدعوہ میں علما کا لشکر۔۔اسداللہ غالب

عمر کے لحاظ سے دیکھوں تو طلحہ سعید کو عزیزم یا برخوردار ہی کہوں گا، ان کا ساڑھے گیارہ بجے فون آیا کہ ایک بجے ہمارے پاس آئیں ، ہم نے علما کی پہلی کھیپ تیار کی ہے،اس کو اسناد عطا کرنے کی تقریب منعقدہوگی، آپ کو اس میں شرکت سے سرپرائز بھی ملے گا کہ کس نے ٹاپ پو زیشن حاصل کی ہے، میں نے کہا کہ اڑھائی بجے آ سکوں گا، وہاں تین بجے کے بعد پہنچا، ایک بہت بڑا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، باہر سڑک پر موٹرسا ئیکلوں ، کاروں اور بسوں کی ایک قطارکھڑی تھی، ظاہر ہے لوگ دور دور سے آئے تھے۔اندر علما کی ایک کہکشاں سجی تھی، کئی برس پہلے جن کے بزرگوں کے پیچھے عید نماز اد اکیا کرتا تھا، اب وہ نوجوان خود جید علماء میں شمار کئے جاتے ہیں۔اور بڑھاپے کی منزل میں ہیں۔حافظ محمد سعید اور امیر حمزہ کو بھی سامنے بیٹھے دیکھا۔ابتسام الہی ظہیر کو دیکھ کر علامہ احسان الہی ظہیر یاد آ گئے۔عبدالغفار روپڑی کو دیکھ کر مولانا عبدالقادر روپڑی یاد آگئے اور آتے ہی چلے گئے، کیا شگفتگی تھی ان کے خطابات میں۔ علا مہ احسان الہی ظہیر کے لب و لہجے میں بجلیوں کی کڑک تھی۔اسٹیج پر کئی نئے چہرے نمودار ہوئے،اور ہر ایک کی تقریر کا نیا رنگ اور منفرد آہنگ تھا۔سید ضیا اللہ شاہ بخاری اورمولانا عبدالستار حمادان میں قابل ذکر ہیں۔قاری صہیب میر محمدی کا چہرہ دیکھا تو حافظ یحی میر محمدی کا چہرہ نظروں کے سامنے گھوم گیا، یہ ایک ایسا دور تھا جو گزر چکاا ور اب ایک نئی صبح طلو ع ہو رہی ہے، اس کا اپنا ایک آسمان ہے ، اس کی اپنی ایک کہکشاں ہے اور اس کا نور آنے والے دور کو تابناک کرے گا۔
میں پوری تقریب میں شرکت نہ کر سکا، کچھ مصروفیات ا ور تھیں مگر یہ نورانی محفل دن ڈھلے تک جاری رہی، لوگوں کے ذوق و شوق اور ان کی محویت کا عالم یہ تھا کہ دوپہر کا کھانا چار بجے کھانے کا دھیان آیا۔
حافظ محمد سعید ہمہ جہت شخصیت ہیں ، اس کا ذکر تمام مقررین نے بھی کیا۔ان کا ایک راستہ بند کر دیا جائے تو سو راستے ان کے قدموں میں بچھ جاتے ہیں۔کشمیر میں اگر وہ جہاد کرتے تھے تو سن دو ہزار میں میرے سامنے ایک محفل میں جنرل مشرف نے اس جہاد کو دہشت گردی کہہ کر بند کرنے کے عزم کااظہار کیا۔ میرے مرشد مجید نظامی نے بھر پور احتجاج کیا کہ جنرل صاحب، آپ نے کشمیرکو پس پشت ڈالا تو اس کرسی پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔مگر مشرف صرف امریکہ ا ور بھارت کی سنتا تھا ،ا س نے میرے مرشد کی بات کو ایک کان سے سنا اور دوسرے سے نکال دیا۔ وہ جہاد بند ہو گیا جو کشمیریوں کو بھارتی جارح فوج کے چنگل سے نکالنے کے لئے جاری تھا، یہ جہاد صرف حافظ محمد سعید ہی نہیں لڑ رہے تھے، جماعت ا سلامی بھی لڑ رہی تھی ، جماعت کے کئی جید راہنماؤں کے نوجوان بلکہ کم سن بچے اس جہاد میں شہید ہوئے۔
چلئے بھول جائیں اس جہاد کو کہ پاکستان اسے بھول چکا ،مگر حادظ محمد سعید نچلے بیٹھنے والے انسان نہیں، انہوں نے فلاح انسانیت کا مشن شروع کیاا ور اس سخاوت اور دریا دلی سے شروع کیا کہ دو ہزار پانچ کے زلزلے میں وہ پاک فوج کے ہراول دستوں سے بھی پہلے مظفرآبادا ور کنٹرول لائن کی برباد لوگوں کا ہاتھ تھامنے پہنچ چکے تھے۔ فوج کی تاخیر کی وجہ ٹیکنیکل تھی، وہ لونگ ویک اینڈ منا رہی تھی، مہینے کا پہلا ہفتہ تنخواہ خرچ کرنے کے لئے مختص کر دیا جاتا ہے ، اس لئے فوج ہفتہ ا ور اتوار کے بعد کہیں تیسرے دن سوموار کو چھاؤنیوں سے نکل سکی تھی۔ جماعت الدعوہ کی پھرتی کا عالم یہ تھا کہ اسلام آباد جیسے دارالحکومت جیسے ملکی صدر مقام پر تباہ ہونیو الے واحد مارگلہ ٹاورز پر بھی پہلی امدادی گاڑی بھی انہی کی تھی، اس کی فوٹیج پاکستان کے سرکاری ٹی وی کے پاس موجود ہے، اور میرے پاس بھی کمپیوٹرمیں موجود ہے۔
پاکستان میں بار بار سیلاب بھی آئے۔ یہ ایک نرالی بات ہے کہ جو ملک خشک سالی کا شکار ہے ، وہ اچانک سیلابوں کی زد میں کیوں آجاتاہے۔اس کی وجہ بھی ہمیں حافظ محمد سعید ہی نے بتائی کہ یہ بھارت کی آبی دہشت گردی ہے ، وہ ڈیم پہ ڈیم بنا کر ہمیں پانی سے محروم کر رہا ہے ا ور مون سون کے دنوں میں فالتو پانی چھوڑ کر ہمیں سیلاب میں جھونک دیتا ہے۔بہر حال سیلاب جب بھی آیا، حافظ محمدسعید نے اپنا حجرہ چھوڑا، ربر کی کشتیاں پکڑیں اور خیبر پی کے، گلگت سے لے کر پنجاب اور بدین تک گھوم گیا ۔ وہ سیلاب میں گھرے لوگوں کومحفوظ مقام پر منتقل کرتا رہا اور کیمپوں میں پڑے بے یار و مددگار لوگوں کو خوراک، کمبل،اور ادویہ فراہم کر نے میں مصروف رہا۔
اب حافظ محمد سعید کا ایک نیا چہرہ سا منے آیا ہے، اس کی تفصیل میں جانے سے قبل میں آپ کو ایران لئے چلتا ہوں، یہ پرانے دورکا ایران ہے جس پر کوئی بادشاہ حکومت کرتا تھا اور اس کا ا یک وزیرراعظم تھا نظام الملک طوسی، بادشاہ نے ا سے حکم دیا کہ بادشاہت کی سیکورٹی اور ملک کے تحفظ کا بندو بست کرو۔ دو تین برس گزر گئے، حاسدوں نے بادشاہ کے کان بھرے کہ آپ کے احکامات کو ہوا میں اڑا دیا گیا ہے۔اور کہیں کوئی ایک مورچہ بھی تعمیر نہیں کیا گیا ، نہ نئی فوج کھڑی کی گئی۔بادشاہ نے بپھر کر اپنے وزیر اعظم کے کان کھینچنے کا ارادہ کیا مگر وزیر اعظم کو ساری سازش کی خبر ہو گئی ، وہ دربار میں پہنچاا ور بادشاہ سے کہا کہ آیئے میںآپ کو اپنی تعمیر کردہ چھاؤنیاں دکھاتا ہوں، سلطنت کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ا سنے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا جو جال بچھایا تھا، وہ سب بادشاہ کو دکھا کر کہا کہ یہ ہیں وہ مورچے، قلعے ا ور چھاؤنیاں جو بادشاہت اور سلطنت کا تحفظ کریں گی، یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے علم و فضل سے لیس ہوں گے،کوئی دشمن ان کے سامنے ٹھہر نہیں پائے گا۔
انسان کو اشرف المخلو قات بنانے کہ وجہ یہ تھی کہ آدم کو ہر چیز کا علم تھا، اور فرشتے اس علم سے بے بہرہ تھے۔خدا نے کہا، اس آدم کے سامنے جھک جاؤ۔اسی خدا نے کہا کہ اس علم کا کوئی فائدہ نہیں جس پر انسان خود عمل نہ کرتا ہو،اس نے قرآن میں کہا کہ وہ کیوں کہتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے۔
حافظ محمد سعید کو یہ خیال کب آیا ، مگر اس کاثمر سب کے سامنے تھا، علماء کی ایک کلاس تربیت پا چکی ہے۔قرآن کی تفسیر کا سبق خود حافظ محمد سعید نے دیا اور ہر روز نماز فجر کے بعد تدریس کے فرائض ادا کئے۔کلاس میں شرکت کرنے والوں کو تجوید کے ہنر اور اس کی مہارت سے بھی لیس کیا گیا۔میرا تاثر یہ ہے کہ جماعت الدعوہ کے علما عام گلی محلے کے مولوی نہیں بلکہ علم و فضل سے آراستہ اور انتہائی ذمے دار اسکالر کی سطح کے لوگ ہوں گے جو دلائل اور براہین کے ساتھ لوگوں کو اسلام کی حقانیت کا درس دے سکیں گے۔وہ عام فرقہ وارانہ جھگڑوں سے بالا تر ہو کر لوگوں کے ایمان کو محکم اور مضبوط کریں گے۔
علامہ ابتسام الہی ظہیر نے اپنے خطاب میں کہا کہ بنی اسرائیل کو خطرات لاحق ہوئے تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ اللہ انہیں کوئی ایساراہنما دے جو انکی حفاظت کر نے کاا ہل ہو، ان لوگوں کو بتایا گیا کہ فلاں صاحب کو اپنا قائد مان لیں ، بنی اسرائیل نے اعتراض کیا کہ وہ تو ایک فقیر منش آدمی ہے، نہ اس کے پاس کوئی جائیداد ہے، نہ کوئی اور ما ل و اسباب، یہ ہمارا کیسے تحفظ کر سکے گا۔ انہیں جواب دیا گیا کہ انہیں اللہ نے علم و فضل کی نعمت سے مالا مال کیا ہے۔ اپنے علم کی فضیلت کی بنا پر وہ قوم کے دفاع کو یقینی بنائے گا اور ہوا بھی یہی، تاریخ عالم گواہ ہے کہ اسی غریب منش طالوت نے اپنے دشمن کو تہس نہس کر دیا ۔ اس کا ذکر اب اساطیر کا حصہ ہے۔
حافظ محمد سعید نے جہاد کی شکل بدل دی ہے، تلوار یا کلاشنکوف کے بجائے انہوں نے عالموں کی تربیت کر کے اس امر کو یقینی بنایا ہے کہ اگر کبھی ضرورت پڑی تو یہ علماء ملک و قوم کا پوری کامیابی سے تحفظ کر سکیں گے۔
میں نے علما کے اس لشکر کے چمکتے دمکتے چہروں پر اعتماد کے نور کا ہالہ دیکھا۔نظام الملک طوسی کی طرح حافظ محدسعید نے ملکی دفاع کی مضبوطی کے لئے علم و فضل سے لیس ایک نسل کی تربیت کا بیڑہ اٹھا یا ہے۔اس پر حافظ محمد سعید مبارکباد کے حق دار ہیں اور دعا یہ ہے کہ وہ تعلیم و تعلم کو عام کرنے کے مشن میں کامیاب ہوں۔اور یہ بھی دعا ہے کہ اب ان پر علمی دہشت گردی کا الزام نہ دھر دیا جائے۔تعلیم پر کسی کی اجارہ داری نہیں۔اور جماعت الدعوہ اس میدان میں پہلے سے ہی سرگرم عمل ہے۔