خبرنامہ

جنرل اطہر عباس نے کیا چھپانے کی کوشش کی اور کیوں کی؟… اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

جنرل اطہر عباس نے کیا چھپانے کی کوشش کی اور کیوں کی؟… اسد اللہ غالب

میجر جنرل اطہر عباس نے جو کچھ کہا، اس میں بہت سی باتیں تو واضح ہیں اور کچھ باتیں بین السطور میں پڑھی جاسکتی ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ ابلاغ کے شعبے سے تعلق رکھنے والا ایک ماہر جرنیل اپنی بات غیر مبہم طور پر کیوں نہیں کر سکا، یا جوابہام رہ گیا ہے تو کیا وہ دیدہ دانستہ ہے۔
مجھے یقین ہے کہ بی بی نے یہ ابہام شرارت کے طور پر باقی رہنے دیا ہے ورنہ ایک گرگ باراں دیدہ ادارے کا نا مہ نگار ایک سوال اور بھی پوچھ سکتا تھا تا کہ بات واضح ہو جاتی۔
اطہر عباس کے بیان سے جو باتیں سمجھ میں آتی ہیں، ان میں سے بڑا انکشاف تو یہ ہے کہ جنرل کیانی نے شمالی وزیرستان آپریشن میں ہاتھ نہیں ڈالا جبکہ اس کی تیاری بھی مکمل ہوگئی تھی، دوسرا انکشاف یا بہتان یہ ہے کہ پچھلے تین سال کی دہشت گردی سے جو نقصان ہوا، اس کی ذمے داری کیانی صاحب پر عائد ہوتی ہے، اس لیئے کہ اگر وہ آپریشن کر دیتے تو اس تباہی سے بچا جاسکتا تھا۔ جنرل کیانی کی ہچکچاہٹ کی ایک وجہ بھی انہوں نے بیان کر دی ہے کہ اس آپریشن کے لیئے امریکہ کی طرف سے دباؤ ڈالا جارہا تھا اور اگر آپریشن ہو جاتا وہ کوئی کہتا کہ ہم نے امریکہ کے کہنے پر اپنوں کا خون بہایا۔ ایک نتیجہ جومیری سمجھ میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ پچھلے ایک سال سے جو تاخیر روارکھی گئی ہے اور اس تاخیر کی ذمے داری، وزیر اعظم نواز شریف، عرفان صدیقی، فواد حسن فواد، سمیع الحق، عمران خان اور پروفیسر ابراہیم پر عائد ہوتی ہے بلکہ ان تمام پارٹیوں پر بھی جنہوں نے وزیراعظم کی کانفرنس میں شرکت کر کے ان کو ایک اور راستہ دینے کے حق میں ووٹ ڈالا۔ اس ایک سال کی تاخیر پراب بحث کا وقت تھا مگر اطہر عباس نے کامل ہوشیاری سے تاخیر کی ذمے داری کا رخ جنرل کیانی بلکہ جی ایچ کیو کی طرف موڑ دیا، یعنی جو سوالات حکومت وقت اور اس کی امن کی آشا کی حلیف پارٹیوں سے پوچھے جانے چاہئیں تھے، وہ اب جنرل کیانی سے پوچھے جارہے ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ فوج سے پوچھے جارہے ہیں کہ اس نے آپریشن میں تاخیر کیوں کی۔ وہ تو خیر گزری کی عوام کی بھاری اکثریت اب اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور فی الوقت عوام کا موڈ یہ ہے کہ فوج کے سو گناہ بھی معاف کرنے کو تیار ہے اس لیئے کسی نے بھی تو کیانی صاحب پرالزام کو قبول کیا ہے نہ فوج کوسخت سست کہنے کے لیئے تیار ہے۔ تو وہ سوال کیا ہے جو بی بی سی کے نامہ نگار نے جنرل اطہر عباس سے جان بوجھ کر نہیں پوچھا۔ اگر آپ ایک بار پھر بی بی سی کی رپورٹ پڑھیں تو آپ کو اس میں ایک تضاد نظر آئے گا، ایک جگہ پر جنرل صاحب فرماتے ہیں کہ فوج نے آپریشن کے حق میں فیصلہ کر لیا تھا مگر آگے چل کر کہتے ہیں کہ کچھ جرنیل آپریشن کی مخالفت کر رہے تھے تو پھر ان کے اس دعوے کی حقیقت کیا رہ گئی کہ آپریشن کا فیصلہ ہو گیا تھا اور اس کے لیئے ایک سال کی تیاری بھی کر لی گئی تھی۔ اصل میں جنرل اطہر عباس نے ایک بار پھر ہوشیاری سے کام لیا ہے اور بی بی سی نے اس ہوشیاری کا جان بوجھ کر پردہ چاک نہیں ہونے دیا۔ جنرل اطہرعباس کی اس تضاد بیانی سے یہ پتا نہیں چلتا کہ کہ وہ کون سے جرنیل تھے جنہوں نے آپریشن کی مخالفت کی تھی اور یہ کہ ان کی مخالفت کی وجہ کیا تھی۔ ایک شخص اپنے آرمی چیف کا نام تو بڑے دھڑلے سے لیتا ہے لیکن اس کے ان ماتحتوں کے نام صیغہ راز میں رکھتا ہے جو دراصل آپریشن کی تاخیر کاباعث بنے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جنرل اطہرعباس کوفوری طور پر یہ ابہام دور کرنا چاہئے ورنہ لوگ اپنی اپنی فہم کے مطابق ٹوہ لگانے کی کوشش کریں گے کہ وہ کون سے جرنیل تھے جنہوں نے آپریشن کو رکوا کر ہزاروں بے گناہ عوام کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑا بلکہ انہوں نے فوج کے ایک جرنیل کو بھی شہید کیا اور درجنوں فوجی قیدیوں کے گلے کاٹے، اور پاکستان کے ایئر پورٹ پر حملے کر کے ملک کو دنیامیں یکہ تنہا کر دیا۔
میں ذاتی طور پر جنرل اطہر عباس کے دعوے کومبنی برحقیقت نہیں سمجھتا، انہوں نے پوری طرح ڈنڈی مارنے کی کوشش کی ہے۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ جی ایچ کیو کی اعلی ترین سطح پر دہشت گردوں سے کسی کو ہمدردی ہوسکتی ہے۔ عام طور پرلوگ گڈ اور بیڈ طالبان کی بات کرتے ہیں مگر میں اسے بھی درفنطنی قراردیتا ہوں، یہ ان لوگوں کا دعوی ہے جو پاک فوج کوکسی نہ کسی طور پر مطعون کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
ایک زمانے میں پاک فوج میں ایسے جرنیل ضرور تھے جو تسخیر عالم کے شوق میں مبتلا تھے اور انہوں نے اسٹریٹیجک ڈیپتھ یعنی دفاعی مشق کی اصطلاح بھی گھڑی تھی مگر ان جرنیلوں کا زمانہ تین عشرے ہوئے،لد چکا۔ زمانہ بدل گیا، حالات بدل گئے، حقائق بدل گئے۔ ہم نے افغانستان کی کیا مدد نہیں کی، اسے روس کے چنگل سے چھڑایا، ہم نے طالبان کو اپنے ٹینکوں پر بٹھا کر کابل کے تخت پر متمکن کیا مگر آج بھی افغان حکومت، افغان فوج اور افغان میڈیا، پاکستان کے خون کا پیاسا ہے۔ میں نہیں کہتا کہ ہمیں افغانستان کا ساتھ اس وجہ سے چھوڑ دینا چاہئے لیکن میں بہر صورت افغانستان کے امور پر حاوی ہونے کے حق میں نہیں ہوں مگر یہ بھی درست ہے کہ ہم افغانستان پر بھارتی غلبے کو قبول نہیں کر سکتے ہمیں اس کی مزاحمت تو کرنا ہوگی تا کہ ہماری پشت تو غیر محفوظ نہ ہو جائے۔
میں نے پچھلے ایک کالم میں لکھا کہ ہمیں بھی اسی طرح ایک دیوار، ڈیورنڈ لائین پر کھڑی کرنی چاہئے جیسے ساری دنیا نے اپنے اپنے بارڈر پر دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں۔ میرے ایک دوست ریٹائرڈ جرنیل نے فون پر مجھے جھاڑ پلائی کہ افغانی ہمارا اثاثہ ہیں۔ ہم ان کے درمیان دیوار کھڑی نہیں کر سکتے مگر میرا پختہ ایمان ہے کہ یہ دیوار کھڑی کرنے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ کار نہیں۔
فی الوقت مجھے جنرل اطہر عباس سے یہ کہنا ہے کہ وہ اپنی اور اپنے سابقہ ادارے کی کریڈیبلٹی کو داؤ پرنہ لگائیں، اور صاف بتائیں کہ وہ جرنیل کون تھے جو آپریشن کی مخالفت کر رہے تھے اور ان کی مخالفت کی وجہ کیا تھی۔ جنرل صاحب نہیں بولیں گے تو ہر کوئی اپنے اندازے کے مطابق کسی نہ کسی جرنیل کو مطعون کرتا رہے گا۔(5جولائی 2014)