خبرنامہ

جنرل اطہر عباس کی بے وقت کی راگنی … اسد اللہ‌ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

جنرل اطہر عباس کی بے وقت کی راگنی … اسد اللہ‌ غالب

ڈی این اے کی تھیوری پر میرا ایمان مستحکم ہو گیا ہے۔
میں حیران ہوا کرتا تھا کہ میجر جنرل اطہر عباس فوج میں کیسے فٹ ہو گئے ہیں اور وہ بھی ایک نظریاتی فوج میں جس کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی تھے۔ میراشک ان کے خاندانی پس منظر کی وجہ سے تھا۔ انسان اپنی فطرت پر پیدا ہوا ہے، اور اس فطرت سے وہ چھٹکارہ نہیں پاسکتا۔ آخر کار جنرل اطہر عباس کے اندر کی فطرت کو زبان مل گئی۔ اور وہ بھی ایسے وقت پر جب ہرشخص کے ہونٹوں پر ایک ہی سوال تھا کہ موجودہ حکومت نے شمالی وزیرستان کے آپریشن کو ایک سال تک روک کر دہشت گردوں کے ہاتھ کیوں مضبوط کیئے اور انہیں نئی طاقت پکڑنے کا موقع کیوں فراہم کیا، اس دوران میں ان دہشت گردوں نے ہزاروں بے گناہوں کا قتل عام کیا اور زیر حراست فوجیوں کے سر کاٹ کر ان سے فٹ بال کھیلنے کا شوق پورا کیا۔ اس سے قبل کہ حکومت اپنے فعل پرکسی شرمندگی کا اظہار کرتی اور نام نہادسرکاری اور طالبان امن کمیٹیاں کوئی عذر لنگ پیش کرتیں، جنرل عباس بولے اور چیڑ پھاڑ کر بولے، ایسا بولے کہ رانا ثناء اللہ، پرویز رشید، منور حسن،خواجہ آصف اور پروفیسر ابراہیم کو بھی مات کر گئے۔
جو کچھ اطہر عباس نے کہا ہے وہ سراسرفوج کے خلاف چارج شیٹ ہے کہ اس نے شمالی وزیرستان میں آپریشن میں سستی اور تاخیر کا مظاہرہ کیا اور وہ دہشت گردی کے نئے سلسلے کے لیے ذمے دار ٹھہرائی جاسکتی ہے۔
خداکی پناہ جنرل صاحب نے فوج کا رزق کھایا ہے وہ اس کے نفس ناطقہ تھے، ترجمان تھے۔
ان کی جنرل کیانی سے ذاتی پرخاش تو ہوسکتی تھی کہ ان کے دور میں انہیں پروموشن نہیں لی اور نہ بعد میں کسی نوکری کی پیشکش کی گئی لیکن وہ اس ذاتی پرخاش کا بدلہ فوج کے ادارے سے یوں لے رہے ہیں، اس کا کسی کو سان گمان تک نہ تھا۔
جنرل اطہر عباس اپنی کہی ہوئی باتوں پر دوبارہ غور کریں تو انہیں اس میں کھلا تضاد نظر آ جائے گا، ایک سانس میں کہتے ہیں کہ آپریشن پرمکمل اتفاق رائے تھا اور ابھی دوسرا سانس نہ لے پائے تھے کہ ان کے منہ نے سچ اگل دیا کہ آپریشن کے بارے میں ہائی کمان کی رائے تقسیم تھی۔ جنرل صاحب کی کس بات پر یقین کیا جائے اور کس پر نہ کیا جائے۔ منطق کا تقاضا ہے کہ دوغلی بات کرنے والے کی ہر بات کومسترد کر دیا جائے۔
جنرل صاحب کو بولنے یا بلوانے کی ضرورت کیوں محسوں کی گئی، اس لیئے کہ آئی ایس پی آر کے موجودہ سربراہ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے تین روز پیشتر کہا تھا کہ یہ آپریشن فروری میں ہو جانا چاہئے تھا تا کہ دہشت گردوں کومنظم ہونے کا موقع نہ ملتا، انہوں نے اس خدشے کا برملا اظہار کیا کہ اب زمینی آپریشن شروع ہونے کی صورت میں دہشت گردوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا ہوسکتا ہے جبکہ فروری مارچ میں انہیں برف سے ڈھکی چوٹیوں پر پناہ گاہیں میسر نہ تھیں۔
عاصم سلیم باجوہ کے دعوے کی تصدیق کر نیوالے لاہور کے تیز ترین اخبارنویس ہیں جو آئی ایس پی آر کے مقامی سربراہ کرنل سید شاہد عباس کی دعوت پر ان کی بریفنگ میں شریک ہوئے، ان میں نذیر ناجی، عبدالقادر حسن، مجیب شامی، ضیا شاہد، سجادمیر، لطیف چودھری، عطاالرحمن، سلمان غنی، عمرشامی، الطاف حسن قریشی اور چند دیگر تجزیہ نگار حضرات کے علاوہ راقم الحروف نے بھی شرکت کی۔ یہ 22 فروری کی ایک یخ بستہ صبح کی بات ہے۔ جنرل باجوہ نے انتہائی دردمندی سے کہا کہ یہ آپریشن اب شروع ہو جانا چاہئے، اس میں تاخیر قوم کے لیے نقصان دہ ہوگی۔
فوج تو ہرلحاظ سے تیاری مگر نواز شریف نے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی امن بذریعہ مذاکرات کا نعرہ لگا دیا تھا، منور حسن، سمیع الحق، فضل الرحمن جیسے مذہبی سیاسی لیڈر بھی آپریشن کے حق میں نہیں تھے، ان میں سے کچھ تو طالبان کو اپنے بچے سمجھتے تھے، پیپلز پارٹی کی مرحوم لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں ان کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے تو اپنے ہاتھوں سے طالبان کو کابل کے تخت پر بٹھایا تھا۔ عمران خان کی بھی نرالی منطق تھی، وہ تو غیرملکی دہشت گردوں پر ڈرون حملوں کی بھی مخالفت کر رہا تھا۔
مرے کو مارے شاہ مدار، آخر ایک میڈیا ہاؤس نے فوج پر ہلہ بول دیا مگر یہ اسے الٹا پڑا اور فوج کے لیئے اس کا اثر یہ تھا جیسے کبڑے کی کمر پر لات پڑ گئی ہو، پوری قوم اپنی افواج کے ساتھ کھڑی ہوگئی، کچھ عرصہ تک تو میڈیاہاؤس نے دھما چوکڑی مچائی مگر جلد ہی اسے احساس ہوگیا کہ اب اس کا پالا ایک ایسے جرنیل سے پڑاہے جو شہادتوں کے امین خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اب ہر کوئی اپنا قبلہ سیدھا کر چکا ہے۔ مگر کسے پتا تھا کہ گھر کے بھیدی بھی لنکا ڈھا سکتے ہیں۔ جنرل اطہر عباس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ انہوں نے لنکا ڈھائی ہے تو کس کے اشارے پر، اگر یہ ان کی اپناانی شیٹیو ہے تو اس سے انہوں نے اس فوج کا نقصان ہی کیا ہے جس کے ساتھ انہوں نے پوری عمر گزاری ہے۔ فوج کی عزت کو داغدار کرنے والے پہلے کیا کم تھے، جنرل اطہر عباس کو اب تک احساس ہوجانا چاہئے تھا کہ انہوں نے جس تھالی میں کھایا ہے، اسی میں چھید کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے اس بیان نے فوج کے وقار کو مجروح کیا ہے، یہ فوج تو ہر دم قربانی اور ایثار کے لیئے تڑپتی ہے، اس نے تو شہادتوں کا گل وگلزار مہکایا ہے، اسے یہ طعنہ دینا کہ اس نے آپریشن میں لیت ولعل کا مظاہرہ کیا، اس الزام پر کون یقین کرے گا فوج میں نیک نامی سے زندگی گزارنے کے بعد جنرل صاحب کو آخر سوجھی تو کیا۔
طالبان کے سر پرست کون ہیں، ان کے ہمدرد کون ہیں اور ان سے خائف کون ہیں، اب یہ کچا چٹھا ہر ایک کے علم میں ہے۔ جنرل کیانی نے ہمیشہ خطرات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔ جنرل اطہر عباس کے علم میں ہونا چاہئے کہ سوات آپریشن کی کمان جنرل کیانی نے کی تھی اور فاٹا کی تمام ایجنسیوں ماسوائے شمالی وزیرستان کے تین اڈے باقی پورے علاقے کو دہشت گردوں سے جنرل کیانی ہی نے آزاد کرایا تھا، میری ذاتی معلومات کے مطابق جنرل محمد جاوید شمالی وزیرستان میں لڑتے رہے اور جنرل عاصم باجوہ جنوبی وزیرستان کے کمانڈر رہے۔ مگر ریٹائرمنٹ کے بعد اطہر عباس ان پر کس بنیاد پرحملہ آور ہو گئے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب سے افواج فیصلہ کن جنگ لڑ رہی ہیں، جنرل اطہر عباس کو اس فوج کے سابق ترجمان ہونے کے ناطے آپریشن کی کامیابی کی دعا کرنا چاہئے تھی، جوانوں اور افسروں کا حوصلہ بڑھانا چاہیے تھا کہ وہ ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جو ملک اور قوم کی بقاء یا فنا کا فیصلہ کرے گی مگر جنرل صاحب تو یوسف زلیخا کی کہانی سنانے بیٹھ گئے، انہوں نے تو وہی آرمی ہیشنگ شروع کر دی جس کا شوق ایک میڈیا ہاؤس کو چرایا تھا۔ (2 جولائی 2014)