خبرنامہ

جنرل راحیل کا وجود غنیمت سمجھو۔۔اسداللہ غالب

پہلے تو میجر چنگیزی کو سلام، ان کی روح فرشتوں کے نورانی سائے میں جنت کے اعلی مقام کی طرف پرواز کر گئی،خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را!
یہ جو وقت آن پڑا ہے، یہ قیامت سے بدتر ہے۔ مگر غنیمت کی بات یہ ہے کہ اس قیامت سے محفوظ رکھنے کے لئے قوم کو جنرل راحیل کا وجود مسعود میسر ہے۔
پاکستان جس علاقے پرمحیط ہے،ا س نے بیرونی حملہ آوروں کے کئی وار سہے، وسط ایشیا ، ایران اور افغانستان کے حملہ آوروں نے بار بار اس سرزمین کو پامال کیا۔ ان حملوں اور موجودہ حملوں میں ایک واضح فرق ہے، پہلے جو حملہ ہوا، وہ ایک فرد کی طرف سے تھا، اب جو حملہ شروع ہواہے، ا س میں عالمی قوتیں نقاب اوڑھے شریک ہیں۔
کبھی سوچا بھی نہ جا سکتا تھا کہ افغانستان کی چوکیوں سے پاک فوج پر فائرنگ کی نوبت آئے گی، بھارت کو اس جسارت کی ہمت نہیں ہے، کبھی کبھار ورکنگ باؤنڈری ا ور لائن آف کنٹرول پر فائرنگ ضرور کرتا ہے مگر منہ کی کھا کر خاموش ہو رہتا ہے۔افغانستان کے تیور بتاتے ہیں کہ وہ خاموش ہونے والا نہیں، اس کی فوج کو ایک لمحے کے لئے تو سوچنا چاہئے تھا کہ وہ جس ملک کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کر رہا ہے،ا سنے سوویت روس سے اسے بچایااور اب چودہ برس سے وہ افغانستان کو پر امن بنانے کے لئے قربانیاں دے رہا ہے، محسن کشی کا سبق کوئی افغانستان سے سیکھے۔
افغان حملوں کے پیچھے ہمارا بزدل ہمسایہ ہے، اسے سامنے سے وار کرنے کی ہمت نہیں، اب پراکسی جنگ میں کود پڑا ہے، یہ صریح بزدلی ہے۔
جنرل راحیل کو چومکھی جنگ کاخطرہ درپیش ہے، پاک فوج کی ساری تیاری بھارت کی جارحیت سے ملک کو بچانے کے لئے ہے بلکہ ا سے جارحیت سے باز رکھنے کے لئے ہے، ہم نے تو کبھی سوچا تک نہ تھا کہ افغان آرمی بھی ہمیں آ نکھیں دکھائے گی اور ہمارے جری ا ور دلیر فوجیوں کا خون کرے گی۔یہ حرکت وہ خود سے نہیں کر سکتی، اسے پیچھے سے کوئی انگیخت کر رہا ہے ا ور پاکستان جانتا ہے کہ ا سے کیا خطرہ درپیش ہے۔اور یہ خطرہ کہاں سے ہے۔
مجھے تاریخ ا ور جغرافئے سے کوئی شغف نہیں۔تاریخ شاید جغرافئے کو مسخ کرنے کا نام ہے اور جغرافیہ تو سمندر کی لہروں کی طرح اتھل پتھل ہوتا رہتا ہے، تاریخ اور جغرافئے دونوں کو ثبات نہیں۔
اسکندر اعظم، اشوکا، بابر،درانی، ابدالی،غوری اور کس کس نے ادھر کا رخ نہیں کیا، سبھی سمندر کی لہروں کی طرح ساحل سے سر ٹکرا کر پلٹ گئے۔اب نئے حملہ آور سپاہ سالار کا نام کیا ہے، شاید یہ بے نام ہے، وہ دشمن جو بے نام اور بے چہرہ ہے، اس سے دفاع کیسے کیا جائے، یہ ملین ڈالر سوال ہے جو جنرل راحیل کو در پیش ہے، میرے خیال میں چند روز پہلے عسکری اور سیاسی قیادت سر جوڑ کے بیٹھی تو اسی دفاعی حکمت عملی پر غور کیا گیا ہو گا۔
جنرل راحیل کے بارے میں زرداری نے درست کہا تھا کہ تم نے تین سال بعد چلے جانا ہے، ہم نے ہمیشہ رہنا ہے اور یہ ہمیشہ رہنے والے اپنی بقا کا نسخہ جانتے ہیں کہ حملہ آوروں کے قدموں تلے آ نکھیں بچھا دو۔ان کے کتے نہلاؤ اور جاگیر داریاں ، نوابیاں، سرداریاں صلے میں پاؤ۔
جنرل راحیل نے واقعی تین سال پورے کر کے چلے جانا ہے ۔ مگر اس نے شجاعت کی تاریخ میں نام پیدا کیا، دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ، اور یورپ نے کوئی بڑا جرنیل پیدا نہیں کیا، شرق اوسط اور ایشیا نے بھی نہیں کیا، پاکستان نے جنرل راحیل کی شکل میں ایک ہیرا دنیا کو تحفے میں دیا، وہ جنگ جو اقوام عالم بری طرح ہار چکی تھی، عراق میں، افغانستان میں،مصر میں ، شام میں ، لیبیامیں سوڈان میں ، یمن میں،جنرل راحیل نے پلک جھپکنے میں یہ جنگ جیت لی مگر دنیا اس کی حاسد بن گئی ۔ پہلے تو زرداری نے کہا کہ تم تین سال گزار کر چلے جاؤ گے، اب ہر کوئی اس کے باقی چند ماہ گزرنے کے لئے ٹال مٹولیاں کھیل رہا ہے۔ یہ پانامہ کی کمیٹیاں عمر عیار کی زنبیل ہی تو ہیں۔
اور جاتے جاتے جنرل راحیل پر دباؤ بڑھانے کے لئے افغان فوج کو اذن جنگ دے دیا گیا ہے، یہی چند گولیاں بھارتی فوج نے واہگہ پر چلائی ہوتیں تو پاکستان ایسا مسکت جواب دیتا کہ بھارت ناک رگڑ کر اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی بھیک مانگ رہا ہوتا۔افغانستان کی اپنی حیثیت ہی کیا ہے،پاکستان اپنے اس ہمسائے سے کیوں لڑائی مول لے گا جس کی خاطر وہ برسہا برس سے قربانیاں دیتا چلاآیا ہے۔اور افغانستان کیسے بھول سکتا ہے کہ طالبان نے جب اسے شکنجے میں جکڑا تھا تووہ چند پاکستانی ٹینکوں پر چڑھ کر گئے تھے، اور ان کے ساتھ صرف ہمارا وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر بھی تھا۔کیا افغانستان آج ایسے ہی چند ٹینکوں کو روکنے کی استطاعت رکھتا ہے، اپنے طور پر ہر گز نہیں، مگر بھارت کی ہلہ شیری سے وہ پاکستان کا ایسا نقصان کر سکتا ہے جوچودہ برس تک دہشت گرد نہیں پہنچاسکے۔
یہ گریٹ گیم ہے۔ پاکستان کبھی ا س سے غافل نہیں رہا، اگر پاکستان یہ جانتا تھا کہ سووئت فوج افغانستان میں استراحت فرمانے کے لئے نہیں آئی بلکہ ا سکی منزل پاکستان کے گرم پانیوں کے ساحل ہیں تو یہی پاکستان یہ بھی جانتا ہے کہ جس روز پہلے غیر ملکی دستے دہشت گردی کی جنگ کی آڑ میں کابل اور قندھار میں اترے تھے تو انہیں افغانستان سے کچھ لینا دینا نہیں تھا، یہ توبے آب و گیاہ ،بنجر ، صحرائی، پتھریلا علاقہ ہے ، امریکہ اور یورپ سے ہزاروں میل دور۔پاکستان جانتا تھا کہ ان غیر ملکی افواج کا اصل ہدف وہی ہے۔وہ بھی نہیں بلکہ چین، چین اور صرف چین۔پاکستان تو صرف اس لئے ہدف بن رہاہے کہ یہ چین کے رستے میں ہے۔اور چین کے اقتصادی اور اسٹریٹیجک مفادات کا محافظ اور مدد گار ہے۔
جنرل راحیل کاذہن ہیک کرنے کی بہت کوشش کی گئی، اسے عالمی دارالحکومتوں کا نخریلامہمان بنایا گیا، اگر یہ ذہن کسی ہارڈ ڈسک میں ہوتا تو کوئی بھی اس کے اندر جھانک سکتا تھا، اس کی میموری اڑا سکتاتھا،ا سکی سوچ مسخ کر سکتا تھا، زرداری نے پہلا وائرس پھینکاتھا کہ تم تین سا ل رہو گے، ہم ہمیشہ رہیں گے، واقعی جنرل راحیل کے پاس زیادہ وقت نہیں ا ورا سی مختصر وقت کے اندر اندرا سے ثابت کرنا ہے کہ وہ تین سال کا سپاہ سالار نہیں تھا، تین صدیوں کا بھی نہیں تھا، تین ہزاریوں کا بھی نہیں تھا، بلکہ ابدالآباد کے لئے تھا۔
میں کہتا ہوں کہ خواہ چند ماہ ہی باقی ہیں مگر ان مہینوں میں جنرل راحیل کا وجود غنیمت سمجھو!!ان مہنیوں نے ہماری تقدیر کا فیصلہ کرنا ہے، جی ہاں ، انہی چند مہینوں کے اندر اندر!!
اگلی پچھلی تاریخ کے سارے جرنیل ایک طرف ہیں ا ور اکیلا جنرل راحیل دوسری طرف، بازی اسی اکیلے نے جیتنی ہے۔ ہم ہی نے جیتنی ہے ۔انشاا للہ !!