خبرنامہ

جنرل راحیل کے ساتھ باریک کام۔۔۔۔اسداللہ غالب

کائیں کائیں کرنیوالوں نے آئی ایس پی آر کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ آرمی چیف کے بارے بینروں سے اظپار لاتعلقی کرے، تو اسی کائیں کائیں گروپ کو دباؤ ڈالنا چاہئے کہ مریم نواز شریف، شہباز شریف اور مسلم لیگ ن بھی ان بینروں سے اظہار لاتعلقی کریں،ا سلئے کہ قبلہ اعتزازاحسن نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ بینر حکومت نے خود لگو ائے ہیں تاکہ پانامہ لیکس پر اپوزیشن کو دباؤ کا شکار کر کے اپنے ساتھ ملایا جا سکے۔
اور یہ دباؤ کام کر رہا ہے۔
خورشید شاہ بول پڑے ہیں کہ بینر لگانے والے غدار ہیں۔
اب اچکزئی کی باری ہے جو کہے گا کہ جمہوریت کے سامنے دیوار بن جاؤں گا۔ اور پھر رضا ربانی کی باری آئے گی کہ آئین کی حفاظت کی جائے گی۔
پرویز رشید نے بھی کہا ہے کہ بینر گروپ احمق ہے ۔
اور ایک اینکر نے جو ایک ا خبار کا مالک بھی ہے ، اپنے اخبار میں بینر ہیڈ لائن کے ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ بینر لگانیو الوں پر غداری کے جرم میں مقدمہ چلایا جائے۔ اسی اینکر نے اپنے ٹی وی پروگرام میں یہ تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے کہ عمران خان نے تیسری شادی رچا لی ہے، اس کا کہنا ہے کہ جنب تک ثبوت نہیں ملتا ،محض قیاس آرائی کرنے والوں کی تقلید میں وہ تیسری شادی کو نہیں مانتے۔ تو کیا انہوں نے یہ تحقیق فرما لی ہے کہ بینر لگانے والے غدار ہیں۔
کچھ یہی کیفیت اعتزاز احسن کی بھی ہے، ان کاکہنا ہے کہ بینر لگانیو الوں کو گرفتار کیا جائے، اعتزاز احسن دو ماہ سے کوشش کر رہے ہیں کہ پانامہ کیس میں حکومتی خاندان کو گرفتارنہ سہی، کم از کم اس سے تفتیش تو کی جائے مگر انہیں صفر کامیابی نہیں ملی،اسلئے نہیں ملی کہ پانامہ میں کوئی بھی کسی کو سزا دینے کے لئے تیار نہیں،ہر ایک کا گلا اس پھندے میں پھنس جائے گا، اس لئے کمیٹی کمیٹی کا کھیل جاری ہے اور جب تک خطرہ ٹل نہیں جاتا، یہ کھیل یونہی چلتا رہے گا اور یہ کمیٹیاں عوام کی نظروں میں دھول جھونکتی رہیں گی۔
جہاں تک بینروں کامسئلہ ہے، میر ابھی مطالبہ ہے کہ اس امر کی تفتیش کی جائے کہ جب اسلام آبادا ور پنجاب میں دھڑا دھڑ بینر لگ رہے تھے تو وفاقی اور صوبائی حکومت ا ورا س کی مشینری از قسم آئی بی ا ور اسپیشل برانچ کہاں سوتی رہی۔ یا انہوں نے جان بوجھ کر آنکھیں بند رکھیں۔
جنرل راحیل کے بارے پوسٹر کوئی نئی بات نہیں، یہ اسوقت بھی لگے جب وہ اپنی مقبولیت کے نکتہ عروج پر تھے ا ور کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا، یہ جرات تو اب بھی کسی میں نہیں ہے مگر باریک کام تو کیا جا سکتا ہے ا ور یہ شروع ہو گیا ہے، مقصداس باریک کام کایہ ہے کہ اس جرنیل نے جو عزت کمائی ہے ، اسے تہہ وبالا کیا جائے اور انہیں باوقار طریقے سے رخصت نہ ہونے دیا جائے، اسی لئے ان بینروں کی آڑ میں ان کی پگڑی بلکہ ٹوپی اچھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
بعض لوگ نام کے شریف ہوتے ہیں مگر جنرل راحیل نام کے ساتھ ساتھ کردار کے بھی شریف نکلے، بہت ہی بھلے مانس۔ ذرا ان کی طرف کوئی بری نظر سے دیکھتا ہے تو وہ جھٹ اپنی صفائی دینا شروع کر دیتے ہیں۔اس سال کے شروع میں ان پر دباؤ پڑااور اس بحث سے آسمان سر پہ اٹھا لیا گیا کہ کیا وہ توسیع لیں گے یا نہیں، کائیں کائیں کا شور اس قدر تھا کہ جنرل راحیل نے بڑی ہی شرافت کا مظاہرہ کیا اور کہہ دیا کہ وہ مقررہ دن گھر چلے جائیں گے، کائیں کائیں کرنے والوں کی تو باچھیں ہی کھل گئیں۔
میں حیران ہوں کہ جوشخص ان دہشت گردوں کے دباؤ میں نہیں آتا جن سے ایک دنیا کے سپاہ سالار خائف ہیں اور جن کے خلاف امریکی اور نیٹو کی افواج کابل اور قندھار کے قلعوں سے باہر نکل کر متھا لگانے کے لئے تیار نہیں، مگرجنرل راحیل نے میران شاہ، دتہ خیل ا ور شوال کی دشوار گزار گھاٹیوں کی اوکھلی میں سر دے دیا، اس قدر دلیر اور بے خوف جرنیل کائیں کائیں کے شور سے کیوں گھبرا جاتا ہے ،ا سے چاہئے تھا کہ وہ انہیں بوٹوں کی نوک پہ رکھتاا ور انہیں ان کے حال پہ چھوڑ دیتا، وہ نہ تو ان سے استعفے لینے پر قادر تھے، نہ وہ انہیں توسیع دینے کا اختیار رکھتے تھے، وہ تو بس پہاڑے کے ٹٹو تھے۔
جنرل راحیل کی طرف تھوکنے والے جان لیں کہ وہ اپنے ہی منہ پہ تھوک رہے ہیں۔یہ جرنیل تو سراپا عز و وقار ہے، اس کی عزت آپ نہ کریں، ساری دنیا کے دارالحکومت کرتے ہیں اور دل و جان سے کرتے ہیں، کبھی جان کیری سے پوچھنا کہ وہ جی ایچ کیو میں واقع یادگار شہدا پہ کیوں آیا، آپ کے ماں باپ کی قبر پہ فاتحہ پڑھنے کیوں نہیں آیا۔
جنرل راحیل کی مقبولیت سے خائف ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ وہی سپاہ سالا ہیں جن کے بارے میں زرداری نے کہا لپ وہ تین سال بعد گھر چلے جائیں گے، باقی رہنے والی ذات وہ خود ہیں۔ مگر یہ حضرت کہاں ہیں ، نیو یار ک ٹائمز میں اشتھار گمشدگی چھپوانا پڑے گا۔
جمہوریہت کی مالا جپنے والے حقیقی چیپمئن ہوتے تو جنرل راحیل کے بجائے خود عوام میں مقبول ہوتے، عوام کا تو حال یہ ہے کہ وہ سڑکوں پر دھرنے کے لئے تیار ہیں، عمران نے دھرناکیا دینا ہے، اس نے تو بیویوں کے سامنے دھرنا دے رکھا ہے۔ اس کا دل شادیوں سے بھرے گا تو سیاست کرپائے گا مگر ڈاکٹر طاہر القادری کو حقیر مت جانو، وہ پہلے بھی لاشیں اٹھا چکا ہے ا ور پھر میدان میں اترنے والا ہے۔ اورا س بار وہ انتہائی پر عزم دکھائی دیتے ہیں اور وہ دھرنے کو نتیجہ خیز بنانے کے ارادے سے سرشار ہیں۔
سول ا ور ملٹری کا اٹ کھڑکا پرانی بات ہے، اس سے جان چھڑانے کا یہ طریقہ نہیں کہ کوئی ایک دوسرے کو بلیم گیم کا نشانہ بنائے یا اس کی تحقیر شروع کر دے جیسے بینروں کی آڑ میں آرمی چیف کے اجلے دامن پر چھینٹے اڑائے جا رہے ہیں۔یہ درگت اس جرنیل کی بنائی جا رہی ہے جس نے بیس کروڑ لوگوں کو سکھ چین کی نیند کا موقع فراہم کیا ، کاروبار کے مواقع کو فروغ دیا اور پاکستان کی نیک نامی میں اضافہ کیا، بجائے ا س کے کہ ا س کے سر پہ ہم عزت ا ور وقار کی پگ رکھتے اورا سے احترام سے نوازتے، اسے مجبور کیا گیا ہے کہ وہ یہ اقرار کرے کہ اس کے اداروں نے بینر لگانے کی جسارت نہیں کی لیکن اگرا سے یہ کہنے پر مجبور کیا ہی گیا ہے تو حکمران مسلم لیگ، مریم نواز کا میڈیا گروپ اور پنجاب حکومت بھی یہ اعلان کریں کہ یہ بینر بازی ان کا کام بھی نہیں، پرویز رشیدکے بقول واقعی کسی احمق کا ہے اور احمق کو ا س کے حال پہ چھوڑ دینا چاہیے یا پھر پاگل خانہ ہی ا سکے لئے عافیت کا گوشہ ہے۔