خبرنامہ

جنرل کیانی کی اذان

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

جنرل کیانی کی اذان

جنرل کیانی کا چل چلاؤ ہے، وہ سول حکمران کی طرح نہیں ہیں جو آخری وقت تک سیکرٹ فنڈ بانٹتا ہے یا صوابدیدی بجٹ ہڑپ کرنے کی کوشش کرتا ہے یاسینکڑوں قیمتی پلاٹوں کی بندر بانٹ میں مصروف رہتا ہے۔ یا بھتیجے بھانجوں اور سالوں بہنوئیوں کو اعلی مناصب پر فائز کرتا ہے۔ اس نے جاتے جاتے اذان دینے کی کوشش کی ہے۔ قوم کو اور اس کے حکمرانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔
کسی نے کہا کہ جنرل تڑھیاں لگائے گا کسی نے کہا کہ سخت وارننگ جاری کرے گا کسی نے کہا، بس فیصلہ ہوا ہی چاہتا ہے، ایک تقریر ہو لینے دو، اور تقریر ہوگئی مگر کوئی وارننگ نہیں جاری ہوئی کسی کو تڑھی نہیں لگی، اور کوئی فیصلہ کن معرکہ شروع نہیں ہوا۔ بس ایک درد دل کا اظہار تھا۔ قوم کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان ایک قطعہ اراضی کا نام نہیں، ایک فلاحی ریاست کے خواب کوعملی تعبیر دینے کا نام ہے، ہمارے اسلاف نے اس کے لیے قربانیاں دی تھیں۔ اور یہ کہ ملک یونہی اتفاق سے نہیں بن گیا، ایک طویل اور جانکسل کشمکش اس کے پیچھے ہے ایک عظیم قائد کی حوصلہ مند جدوجہد نے اس کی تخلیق ممکن بنائی۔
جنرل کیانی نے قائد اعظم کا اتحاد کا سبق بھی یاد دلایا۔ قومی یک جہتی ہی ہمیں اس قابل بناسکتی ہے کہ ہم تمام درپیش مسائل سے نبٹ سکیں۔ دہشت گردی، معاشی عدم استحکام اور نا ہمواری یا توانائی کا بحران ہمارے اتحاد اور اتفاق سے ہی حل ہوسکتا ہے۔ جنرل کیانی کے اس نکتے سے بھی اختلاف کی گنجائش نہیں کہ مسائل کو حل کرنا ہے تو کوئی ایک ادارہ کامیاب نہیں ہوسکتا، اس کے لیے مربوط کوششیں کرنا ہوں گی اور قوم کو کامل یک سوئی اور اتفاق رائے سے کام لینا ہوگا۔
انتہائی افسوس کی بات ہے کہ دہشت گردی کے ناسور پر ہم یک سونہیں ہیں، کوئی اسے امریکی جنگ سمجھتا ہے، کوئی اسے عین جہادقرار دیتا ہے۔ کوئی اسے پاکستان کی جنگ کہتا ہے، جتنے منہ اتنی باتیں۔ جزل کیانی نے یوم شہدا کی تقریر میں بھی قوم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ اس مسئلے پر جس طرح رائے عامہ تقسیم ہے، اس سے میدان جنگ میں لڑنے والے سپاہی کا دماغ لڑ کھڑاسکتا ہے۔ ظاہر ہے صرف فوج کی جنگ نہیں ہے مگر جوکوئی زبان کھولتا ہے، وہ یہی کہتا ہے کہ فوج اپنوں کو مار رہی ہے۔
مذاکرات کے حق میں بھی بولنے والے بہت ہیں۔ دہشت گردوں نے بھی دانہ پھینکا ہے اور بعض پاکستانی شخصیتوں کو ضامن مان لیا ہے۔ پھر انکاری ہو گئے سوات میں بھی مذاکرات کا ڈرامہ ہوا اور کئی صلع نامے لکھے گئے، اس سے انتہا پسندوں کو وقت مل گیا اور پھر جب پانی پلوں کے اوپر سے بہنے لگا تو فوج کوہی حرکت میں آنا پڑ امگر قیام امن کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ اب پھر مذاکرات کی گردان کر کے دہشت گردوں کومنظم ہونے کا موقع دیا جارہا ہے۔ اگر مذاکرات ہی سے مسئلہ حل کرنا ہے تو میاں نواز شریف بسم اللہ کریں اور بٹھا ئیں دہشت گردوں کو سامنے میز پر مولانافض الرحمن بھی ان کو آمنے سامنے بٹھا ئیں، اور قبلہ منورحسن تو روز کہتے ہیں کہ میں مذاکرات کراتا ہوں تو وہ کس دن کا انتظار کر رہے ہیں۔ پچاس ہزار پاکستانی تومارے گئے، اتنے دہشت گردتو نہیں مارے گئے۔ ڈرون حملے بھی ہمارے اقتدار علیٰ کے خلاف ہیں، ان کے خلاف یو این او کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی زبان کھولی اور ڈرون سے مرنے والوں کے لیئے معافی بھی مانگی مگر جو انتہا پسندوں کے ہاتھوں مارے گئے کسی کے گلے کٹے کسی کی لاش کا مثلہ ہوا، کسی کے بدن کے چیتھڑے اڑے۔ کسی مسجد کو شہید کیا گیا کسی مزار کونشانہ بنایا گیا اور زیارت میں قائد ریذیڈنسی کو بھی خاکستر کر دیا گیا، ان پرکون معافی مانگے گا۔ جنرل کیانی نے صحیح کہا ہے کہ آپ دہشت گردی سے نمٹنے کی حکمت عملی پرتو اختلاف کر سکتے ہیں لیکن دہشت گردی کے سامنے جھکنا تو کوئی حل نہیں، جنرل کیانی نے قوم کے حوصلوں کو سلام پیش کیا ہے کہ وہ دس سال سے دہشت گردی کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں اور حالیہ الیکشن کے موقع پر ہرقسم کی دھمکی ملنے کے باوجودقوم نے دلیری کا مظاہرہ کیا اور ملکی تاریخ میں سب سے بڑا ٹرن آؤٹ دیکھنے میں آیا پتا نہیں حکومت کوکس بات کا انتظار ہے۔ یہ رٹ روز لگائی جاتی ہے کہ سکیوریٹی پالیسی بنائی جارہی ہے مگر وہ دن طلوع ہی نہیں ہوتا جب حکومت اس کے لیئے کسی میز پر بیٹھے ایک عمران خان کے انتظار میں اس کو ملتوی کیا جارہا ہے، عمران نہ ہوا، ہرفن مولا ہوا کہ اس کے بغیر پاکستان کو چلانا ممکن نہیں۔ یہ نری بہانہ سازی ہے۔ جو کام نہ کرنا ہو، اس کے لیے اجلاس طلب کر لیے جاتے ہیں، کمیٹیاں بٹھا دی جاتی ہیں، کمیشن قائم کر دیئے جاتے ہیں، قومی اتفاق راے کی پخ لگا دی جاتی ہے کالا باغ ڈیم کے ساتھ بھی یہی بدمعاملگی ہوئی، اب سکیوریٹی پالیسی اس کی بھینٹ چڑھ رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لیتے وقت تو کسی سے مشورہ نہیں کیا گیا۔ بجلی اور پٹرول کے نرخوں میں اضافے کے لیے بھی کسی سے مشورہ نہیں مانگا گیا۔ بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی پالیسی پربھی قومی اتفاق رائے حاصل نہیں کیا گیا۔ اور تو اور گورنر ہاؤس مری اور بھوربن کو ایوان وزیراعظم بنانے میں گورنر سے رائے بھی کس نے لی۔
نجانے مجھے جنرل کیانی کے وہ الفاظ کیوں یاد آتے ہیں جو انہوں نے یوم شہدا کے موقع پر کہے کہ ہم اب بھی اس منزل سے دور ہیں، جس کا خواب قائد اعظم اور اقبال کی قیادت میں ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آمریت ہو یا جمہوریت، عوامی مفاد کو فوقیت نہ دی جائے تو حکمرانی صرف شخصی مفادات کے تحفظ اور قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کاذریعہ بن جاتی ہے۔
دنیا ایک اسٹیج ہے، ہرشخص اپنا کردار ادا کرتا ہے اور اسٹیج سے اتر جاتا ہے۔ جنرل کیانی کو ایک دن رخصت ہونا ہے مگر ان کے اٹھائے ہوئے سوالوں کی بازگشت سنائی دیتی رہے گی کہ کوئی بتائے اگر ایک گروہ پاکستان کے آئین اور قانون سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے غلط نظریات ہم پر جبری طور پر مسلط کرے اور اس مقصد کے لیے ہر قسم کی خونریزی کو جائز سمجھتاہو تو کیا اس کا قلع قمع کرناکسی اور کی جنگ ہے۔
جنرل کیانی نے یہ جنگ پاکستان کی جنگ سمجھ کرلڑی، اس میں کامیابی حاصل کی، انہوں نے دنیا میں بھی قیام امن کی جنگیں لڑیں اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے پاکستان آ کر پاک فوج کو کامیابی کا پہلا نمبر دیا۔ اب ملک کی باگ ڈور میاں نواز شریف، عمران خان اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اپنا کمال دکھائیں اورملک کے اندر امن قائم کریں۔ (17 اگست 2013)