خبرنامہ

جنرل کیانی کی میراث

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

جنرل کیانی کی میراث

بحث یہ نہیں ہونی چاہیے کہ جنرل کیانی کا وارث کون۔ بحث تو یہ ہونی چاہئے کہ جنرل کیانی کیا میراث چھوڑ کر جارہے ہیں۔
ایک کہکشاں ہے جو تاریخ کے راستے اجالتی رہے گی۔
ایک مینارہ نور ہے جو روشنیاں بکھیرتا رہے گا۔
جنرل کیانی نے تاریخ کو پیار دیا ہے، اس کا دھارا بدلا ہے۔
اس نے فوجی بغاوتوں کے متلاطم سمندر کے آگے مضبوطی سے بند باندھ دیا ہے۔
اس نے عہدو پیمان کی کہانی کو لازوال بنادیا ہے۔ پہلے دن قوم سے کہا کہ اب فوج سیاست اور حکومت سے کوئی سروکارنہیں رکھے گی۔ اور یہ عہد پورا کر دکھایا۔
کئی روایات ہیں جن کی شروعات جنرل کیانی کے ہاتھوں ہوئیں اور ان کی تکمیل بھی۔
ہماری جمہوریت کبھی اتنی توان نہیں تھی، اتنی پراعتماد نہیں تھی، اتنی رعنائی اور زیبائی کی مالک نہ تھی، جزل کیانی کے دم قدم سے جمہوریت کے آنگن میں نئی بہاریں مسکرائیں۔ نئی قو س قزح تاافق رنگ بکھیرنے لگی۔
اسے وار آن ٹیرر ورثے میں ملی تھی۔ معطل اور مفلوج عدلیہ اور نحیف ونزار جمہوریت بھی اس کے بہی کھاتے کا حصہ تھی۔ وار آن ٹیرر دم توڑ رہی ہے، عدلیہ کب کی بحال ہو چکی اور جنرل کیانی کے ثالث بالخیر کا کردار ادا کرنے سے بحال ہوئی اور جمہوریت کی حالت سنبھل رہی ہے، ایک منتخب حکومت اپنی آئینی ٹرم پوری کر چکی ہے اور اب دوسری منتخب حکومت کا دور شروع ہے۔
اگلے آرمی چیف کو بھی جنرل کیانی کے طے کردہ راہنما اصولوں پرسختی سے عملدرآمد کرنا ہوگا۔ جمہوری اور سیاسی قوتوں کو اپنے اختلافات خود طے کرنا ہوں گے، فوج کی طرف سے مداخلت کا دروازہ بند ہو چکا، اس پر کیانی لاک لگ گیا۔ اس تالے کی چابی، آنے والے کسی آرمی چیف کے پاس نہیں ہوگی۔ سمجھیئے یہ چابی کہیں کھو گئی۔
وار آن ٹیرر کا میدان ایک کڑا امتحان تھا۔ جنرل کیانی کے لیئے اس سے نکلنا ممکن نہیں تھا کیونکہ امریکہ نے بڑی ہوشیاری سے اسے پاکستان کی جنگ بنادیا تھا محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد صرف سرنڈر کے ذریعے ہی اس جنگ سے باہر نکلا جا سکتا تھا۔ اور اب تو مزید پچاس ہزار لاشیں گر چکی ہیں۔ مزاروں، مسجدوں، اسکولوں، گھروں، دفتروں، بازاروں اور جنازوں پر بم پھٹتے رہے۔ بلوچستان کا خونی کھیل سنگین نوعیت کا تھا۔ عالمی مہرے پاکستان کے اقتدار اعلی پر کاری ضرب لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔ فاٹا میں موجود انتہا پسندوں نے افغانستان میں امریکی استعمار کے مظالم کا بدلہ پاکستان سے لینے کی کوشش کی لیکن جنرل کیانی نے اپنے مہرے نہایت احتیاط سے کھیلے۔ انہوں نے آنکھیں بند کر کے کہیں فوجی آپریشن نہیں کیا۔ سوات میں انتہا پسندوں نے غلبہ پانے کی کوشش کی تو ایک محدودمگر محکم آپریشن کر کے امن قائم کر دیا گیا۔ شمالی وزیرستان میں امریکی دباؤ کے باوجود جنرل کیانی نے آپریشن سے گریز کیا۔ مشرف کی طرح کوئی کیانی پر یہ الزام نہیں لگا سکا کہ وہ ڈبل گیم کر رہے ہیں، امریکی پیسہ بھی کھا رہے ہیں اور افغانستان میں امریکہ کا خون بہانے میں انتہا پسندوں کی مدد بھی کر رہے ہیں۔ جنرل کیانی نے وہی کچھ کیا جو پاکستان کی بساط میں تھا اور مفاد میں تھا۔ ایبٹ آباد میں کیا ہو امگر وہ نہیں ہوا جو امریکہ چاہتا تھا۔ پاکستان نے اسامہ کو خود پکڑ کر امریکہ کے حوالے نہیں کیا بلکہ اسامہ کی تلاش میں مددگار ثابت ہونے والے ڈاکٹرشکیل آفریدی کو غداری میں سزا دلوادی۔
شمالی اتحاد کے ساتھ پاکستان کی قربت اور دوستی کا ایک نیا باب کھلا ہے، یہ ورق جنرل کیانی نے پلٹا ہے۔ اب افغانستان میں پاکستان کا کوئی چہیتا نہیں، سب فریق برابر ہیں۔ طالبان مذاکرات کی میز پر ہیں تو امریکہ بھی ہے اور شمالی اتحادبھی اپنا وزن مذاکرات کے پلڑے میں ڈال رہا ہے۔ امریکہ کو اس افغان جنگ میں وہ کامیابی نہیں ہوئی جو پہلی جنگ میں ہوئی تھی کہ اپنے پیچھے ایک سلگتا ہوا افغانستان چھوڑ کر چلا گیا۔ جنرل کیانی کی سفارتی اور تزویراتی مہارت کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ بھارت کو افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری ڈوبتی نظر آتی ہے۔
جنرل کیانی نے پاکستان کے اسلامی جمہوری تشخص پریت سے پہرہ دیا ہے۔ اسے کوئی شتروگھن سنہا عزیز نہیں ہے، اس نے بھارتی کرکٹ ٹیم کے دوروں کو پاکستان کے قومی مفادات پرتر جیح نہیں دی۔ بھارت نے ممبئی سانحے کے بعد پاکستان کو آنکھیں دکھائیں تو جنرل کیانی نے ترت جواب دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ بھارت سرجیکل اسٹرائیک کرنا چاہتا تھا، جنرل کیانی ان مذموم ارادوں کے سامنے سینہ سپر ہو گیا۔ بھارت کو منہ کی کھانا پڑی، وہ اپنی فوجیں چھاؤنیوں میں واپس لے گیا اور سرحدوں پر منڈلانے والے بھارتی طیارے بھی اپنے ہینگروں میں جا کھڑے ہوئے۔
جنرل کیانی کو آئے روز کنٹرول لائن سے اپنے بچوں کی لاشوں کے تابوت ملتے ہیں۔ ابھی کل ہی سپاہی عاصم اقبال کا جنازہ پڑھا گیا مگر صبر و تحمل کا کوہ گراں جرنیل کسی اشتعال میں نہیں آتا، بھارت بار بار انگیخت کر رہا ہے، وہ کچو کے پر کچوکے لگا رہا ہے مگر کیانی کا حوصلہ لاشوں کے تابوت سے نہیں توڑا جا سکا۔ بھارتی جارحیت کے سامنے اس کی فوج مورچوں میں ڈٹی ہوئی ہے۔
امریکہ نے بھی کیانی کے صبر و تحمل کو زمانے کی کوشش کی، سلالہ چیک پوسٹ پر عام انسانی تاریخ کا ایک اندوہناک سانحہ تھا مگر کیانی نے ایک مد بر جرنیل کی طرح اپنی اسٹریٹیجی کا توازن درہم برہم نہیں ہونے دیا۔ وہ امریکہ سے جنگ نہیں چاہتا، یہ جنگ کسی کے مفاد میں ہے، نہ بس میں ہے لیکن اس نے امریکہ کو اپنی اطاعت کا غیرمشروط یقین بھی نہیں دلایا۔ وہ امریکہ کا زرخرید ثابت نہیں ہوا۔
حالیہ انتخابات سے پہلے جنرل نے واضح کیا کہ اسلام اور جمہوریت پاکستان کی اساس ہیں۔ اس نے لوگوں کو یقین دلایا کہ وہ گھروں سے نکلیں اور ووٹ ڈال کر اپنی قسمت کا فیصلہ کریں۔ اسی یقین دہانی سے حوصلہ پا کر عوام نے دہشت گردوں کا خوف ذہنوں سے نکال دیا۔ جمہوریت کی کھلی حمایت کا یہ ورثہ جزل کیانی کے جانشین کے حصے میں آئے گا۔
وار آن ٹیرر میں کون کامیاب ہوا، وہ لوگ یقینی طور پر اپنے ارادوں میں شکست کھا گئے جو جمہوریت، پارلیمنٹ، اور آئین کے کھلے مخالف تھے۔ وہ سوات پر قابض ہوئے مگر پسپا ہوئے اور اسلام آباد اور کہوٹہ پر وار کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں ایسی جرات نہیں ہو سکی۔ امریکہ بھی میدان چھوڑ کر جا رہا ہے مگر پاکستان کی پالیسی اور اس کے عزم و حوصلے میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا، یہ ہے وہ ورثہ جو بی ایچ کیو کی اگلی قیادت کو جنرل کیانی منتقل کر رہا ہے۔ اور اسے اپنے ورثے پرفخر ہونا چاہئے۔
کیانی کو ملکی تاریخ میں مدتوں یاد رکھا جائے گا، وہ نئے شاہناموں کا موضوع بنے گا۔ وہ اٹل ارادے اور بے پناہ حوصلے والے جرنیل کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کے مزار کو شہید کیا جا سکتا ہے مگر ان کی اولوالعزمی اور ناقابل تسخیر ہونے کی روایات کی چمک دمک کو گہنایا نہیں جا سکے گا۔ اور جزل کیانی کی حب الوطنی، جمہوریت پسندی اور ثابت قدمی کی میراث اس کے ہر جانشین کے لیئے سر مایہ افتخار ٹھہر ے گی۔ (30 جولائی 2013ء)