جواب دینے کے لئے جنرل راحیل شریف کے پاس ایک میگزین تو ہے، ہلال اردو اور انگریزی، مگر اس کی پالیسی فارن آفس کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔
جنرل باجوہ ایک ٹویٹ سے بھی منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں۔
مگرانڈیا ٹو ڈے نے تھپڑ پاکستانی قوم کے منہ پہ مارا ہے،اس لئے کہ راحیل شریف اس قوم کی آنکھوں کا سورج ، چاند، ستارہ ہے۔
شاید یہ تھپڑ غوری کے حملوں کی خفت مٹانے کے لئے مارا گیا ہے۔ ایک ہزار سال پہلے ترائن کی جنگ میں انڈیا ٹو ڈے کے ہیرو پرتھوی راج کو رسوا کن شکست کا سامنا کرناپڑا تھا۔
یہ تھپڑ غزنوی کے بار بار کے حملوں کا بھونڈا جواب بھی ہو سکتا ہے۔
انڈیا ٹو ڈے کے اسلحہ خانے میں یہی ایک تھپڑ ہی تو تھا، ویسے یہ اسلحہ خانہ ہر نوع کے ایٹمی میزائلوں سے بھر اہواہے،مگر اسے داغنے کے لئے انڈیا ٹوڈے کو حوصلہ نہیں پڑا۔اسے معلوم تھا کہ اس کے جواب میں جو درگت بنے گی، اس میں ہندو انڈیا فنا کے گھاٹ اتر جائے گا۔
پاکستان میں ایک سے ایک بڑھ کر رستم خانی میڈیا ہے، اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ انڈیا ٹو ڈے کوجوابی تھپڑ رسید کرے۔
پاکستان میں سی پی این بھی ہے، یہ ایڈیٹروں کی انجمن ہے، یہ صحافتی اخلاقیات کا درس دیتی ہے،کیا اس کی ایک میٹنگ میں یہ مذمتی قرارداد منظور نہیں کی جا سکتی کہ انڈیا ٹو ڈے نے عالمی صحافتی ضابطہ اخلاق کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔
انڈیا ٹو ڈے نے اپنے وزیر اعظم کی تقلید میں نئی جارحیت کا آغاز کیا ہے، یہ میڈیا کی جارحیت ہے۔
بھارتی میڈیا کو یہ توفیق نہیں ہوسکی کہ وہ اپنی جارح فوج کے انسانیت سوز مظالم کے خلاف آواز اٹھائے جو کشمیریوں پر روا رکھے جا رہے ہیں۔یہ مظالم جنرل راحیل شریف کی فوج سے توسرزد نہیں ہوئے۔پھر اس پر غصہ کس بات کا، کیا یہ غصہ بلوچستان میں جاری فوجی آپریشن پر ہے جس میں بھارتی را کے ایجنٹوں کی گرد ن مروڑی جا رہی ہے، کیا یہ غصہ کراچی میں رینجرز کے آپریشن پر ہے جس میں اس شخص کے دفاتر کو بلڈوز کیا جا رہا ہے جس نے کھلم کھلابھاتی را سے مدد طلب کی ہے، کئی بار کی ہے۔ کیا یہ غصہ فاٹا کے دہشت گردوں کی کمر ٹوٹنے پر ہے جو ضرب عضب کی تاب نہ لاسکے اور جنہیں واضح طور پر بھارت کی سرپرستی حاصل تھی۔اور کیا یہ غصہ اس بات پر ہے کہ مغربی سرحد پر بھارت کی پٹھو افغان فوج کے قدم نہ جم سکے۔اور کیا یہ غصہ اس بات پر ہے کہ ڈیڑھ ماہ سے مقبوضہ کشمیر کے طول و عرض میں آزادی !آزادی کے نعرے گونج رہے ہیں اور گلی گلی پاکستان کے سبز ہلالی پرچم لہرائے جا رہے ہیں،اس سبز رنگ کے پرچم میں کشمیری شہیدوں کے کفن لپیٹے جاتے ہیں۔ عجب بات ہے کہ بھارت کو مرنے والوں سے بھی ڈر لگ رہا ہے۔بھارت بوکھلا گیا ہے، بھناا ٹھا ہے، وہ اپنے مصائب کا ذمے دار صرف جنرل راحیل شریف کو سمجھتا ہے۔یہ جنرل پاکستان کی علامت بن گیا ہے تو سن لیجئے کہ پاکستان اس جنرل کے پیچھے کھڑا ہے، تن کے کھڑا ہے۔کیا بلوچستان کو راحیل کے شانہ بشانہ کھڑے نہیں دیکھا، کیا گلگت کو مودی کی مذمت کرتے نہیں دیکھا۔اور توا ور برادرم مجیب شامی نے بھی لکھ دیا کہ مودی صاحب کے چہرے پر، اگرچہ اس میں صاحب کا لفظ اضافی ہے ، فالتو ہے،غیر ضروری ہے، مودی پاکستانیوں کے صاحب نہیں ہو سکتے، مگر شامی صاحب ان کا احترام کرتے ہیں تو یہ ان کاذاتی فیصلہ ہے۔مگر انہوں نے واضح طور پر لکھ دیا ہے کہ یہ تھپڑ ( فی الحال ) مودی صاحب کے چہرے پررسید کر دیا گیا ہے۔شامی صاحب حال ہی میں کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز کی صدارت کے منصب سے ریٹائر ہوئے ہیں۔
مودی نے بلوچستان کو اپنے مذموم عزائم میں کیوں شامل کیا،اس کا جواب تو انہی کو دینا ہے اور اس کے مضمرات کو بھی انہی نے بھگتنا ہے۔کیا وہ گریٹر بلوچستان قائم کرنا چاہتا ہے، قوم پرست بلوچوں کا نعرہ تو یہی ہے، وہ افغانستان ا ور ایران کے بلوچ علاقوں کی بھی علیحدہ کرنا چاہتاہے ،کیا یہ دونوں ممالک مودی کے مذموم ارادوں کو ہضم کر سکیں گے،ا یسا تو نہیں ہو سکتاکہ صرف پاکستانی بلوچستان کو الگ کروا کر بھارت کے قدم رک جائیں یا بلوچ قوم پرستوں کی مانگ پوری ہو جائے، سیلیگ ہیریسن تو پچھلے تیس برس سے گریٹر بلوچستان کے حق میں لکھ رہا ہے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ وہ کس کے اشارے پر یہ پروپیگنڈہ کر رہ ہے، مودی بھی اسی کے اشارے پر چل رہا ہے جس کے ا شارے پر سیلیگ ہیریسن کا قلم چلتا ہے۔یہ ایجنڈہ تو پھیلتا چلا جائے گاا ور مودی اس مہا بھارت کے احیا کی کوشش کرے گا جس کے لئے وہ اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگاتا ہے، اس کے لئے اسے سکم ، بھوٹان، سری لنکا، برما، بنگلہ دیش کو بھی ہڑپ کرنا پڑے گااور شاید افغانستان میں کابل تک ترنگا لہرانا پڑے گا، یہ ایک گریٹ گیم ہے ، مودی اس گیم کا نیا کھلاڑی نہیں، چانکیہ یہ فلسفہ پیش کر چکا ہے، نہرو، شاستری اور اندرا گاندھی اس کے لئے فوجی جارحیت کر چکے ہیں۔
مودی کے سامنے مقاصد بڑے واضح ہیں، اس نے مفاسد کاآغاز کیا ہے ا وراس کے لئے اپنے ایک پیادے الطاف حسین کو اکھاڑے میں اتارا ہے ،اس کی کوشش ہے کہ پاک فوج اگر فاٹا کے دہشت گردوں کے بعد اپنی طاقت بچانے میں کامیاب ہو چکی ہے تواسے کراچی کی دلدل میں دھکیل دیا جائے، اس اثناء میں وہ بلوچستان میں اپنے پٹھو تیار کر لے گاا ور پھر یہاں پاک فوج کو الجھا دے گا،اس کے بعد ممکن ہے ،اسے گلگت میں بھی کوئی میر جعفر دستیاب ہو جائے اور آزاد کشمیر میں بھی کوئی نیاشیخ عبداللہ ہاتھ آ جائے۔ جب تک وہ ایک چومکھی جنگ میں پاک فوج کا کچومر نہیں نکال دیتا، اسے خطے میں کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی،انڈیا ٹو ڈ ے کے وار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے کرپشن پرستوں کی طرح بھارت کو بھی جنرل راحیل کھٹک رہاہے اورو وہ بھی سانس روک کر اس کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کررہا ہے۔مگر انڈیا ٹو ڈے خاطر جمع رکھے، پاک فوج کا ایک ایک افسر ، ایک ایک جوان غوری بھی ہے، ابدالی بھی اور غزنوی بھی، بھارت ان کے نام سے لرزتا ہے اور راحیل شریف ان علامتوں کا مجموعہ ہے، اگر ہم نے غوری، ابدالی ا ور غزنوی کی روایات کو فراموش نہیں کیا اور ان کے نام پر اپنے میزائلوں کو موسوم کیا ہے تو راحیل شریف کو ہم کیسے بھول پائیں گے، وہ تو ایک شاہ نامے کا حرف آغاز ہے، روشن باب ہے ،بھارت کوآئندہ بھی دن میں تارے دکھا نے و الے غازیوں سے ہی واسطہ پڑے گا، انڈیا ٹو ڈے کو ہر تین سال بعد ایک نیا ٹائٹل تیار رکھنا چاہئے