خبرنامہ

جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں

وزیر داخلہ نے تسلیم کیا ہے کہ امریکی سفیر نے انہیں صاف بتا دیا تھا کہ حکیم اللہ محسو دان کے نشانے پرآیا تو ڈرون حملہ کر دیں گے۔ وزیر داخلہ کو امن مذاکرات کی کامیابی کے لیئے حکیم اللہ کی سلامتی بہت عزیز تھی جیسا کہ ان کی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے تو وہ اپنا فرض نبھاتے۔ یا تو حکیم اللہ کی حفاظت کا خود بندوبست کرتے یا پھر اسے امریکی عزائم کے پیش نظرحد درجہ محتاط ہونے کا مشورہ دیتے۔
حکیم اللہ کی حفاظت کی اس لیے بھی ضرورت تھی کہ ایک روز پہلے پاکستانی اخبارات میں وزیر اعظم اور برطانوی وزیر داخلہ کی ملاقات کے حوالے سے شہ سرخیاں شائع ہوگئی تھیں کہ طالبان سے مذاکرات شروع کر دیئے گئے ہیں۔ وزیرداخلہ نے اس خبرکوبھی یہ کہہ کر غلط ثابت کر دیا ہے کہ مذاکراتی وفد توابھی روانہ ہی نہیں ہوا، صرف جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ ان حکمرانوں سے کوئی پوچھنے والا ہو کہ جب مذاکرات کے لیئے کوئی وفد ابھی گھر سے روانہ نہیں ہوا تو پھر شہ سرخیاں چھپوانے کا جواز کیا تھا۔
وزیرداخلہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ڈرون حملہ در اصل مذاکرات کی موت ہے مگر وزیراطلاعات کا کہنا ہے کہ امن مذاکرات کو مرنے نہیں دیا جائے گا۔ دونوں وزیرآپس میں مشورہ تو کر لیتے کہ ڈرون پر کیا ردعمل دینا ہے۔ حکومت کے ترجمان بہر حال وزیر اطلاعات ہیں مگر جو بولے اور خوب بولے تو وہ وزیر داخلہ تھے۔ ڈرون حملے کا جہاں تک تعلق ہے اگر اسے ملکی اقتدار اعلی اور خودمختاری پر کاری وار کہا جارہا ہے تو اس پرردعمل دینے کی ذمے داری وزیر داخلہ کی نہیں، وزیر دفاع کی تھی مگر یہ محکمہ وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہے۔ اور وزیر داخلہ نے تین بار کہا کہ وزیراعظم دو روز میں واپس آئیں گے یا تین روز میں آئیں گے، اور ان کے آنے پرممکنہ اقدامات پر غور کیا جائے گا مگر وزیر اعظم کے سفری پروگرام کو کھنگالا جائے تو وہ وزیر داخلہ کی میڈیا ٹاک کے دوران عازم سفر ہو چکے تھے۔ وزیرداخلہ اس خبر سے کیوں بے خبر تھے۔ تادم تحریروز یر اعظم لاہور میں ہیں، پاکستان کو درپیش مسئلہ کا تقاضا یہ تھا کہ وہ سیدھے اسلام آباد اترتے اور آخر شب کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کرتے لیکن مجھے نظر آرہا ہے کہ کا بینہ کی دفاعی کمیٹی یا جوبھی اس کا نیانام ہے، اس کا اجلاس بھی ایک دو روز تک نہیں ہو سکے گا۔ لگتا ہے حکومت کو کوئی جلدی نہیں، اور اگر عوام حکومت کے موڈ پر جائیں تو وہ بھی حالات کے غم میں اپنے آپ کا خواہ مخواہ ہلکان نہ کریں۔
ملک میں یہ بحث عمران خاں نے چھیٹری ہے کہ نیٹو سپلائی روک دی جائے۔ انہوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ خواہ صوبائی حکومت چلی جائے، سپلائی بند کر دیں گے۔ اس پر نجم سیٹھی کا تبصرہ یہ ہے جو کہ ہر قیمت پر کرکٹ بورڈ سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں کہ نیٹو سپلائی روکنا ملک سے غداری کے مترادف ہے۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ سپلائی بند کرنے سے ڈرون حملے نہیں رک سکتے، انہوں نے تو سلالہ کا بدلہ لینے کے لیے فوج کی طرف سے نیٹو سپلائی بند کرنے کا بھی مضحکہ اڑانے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور سوال پوچھا ہے کہ کیا اس اقدام سے ڈرون حملے رک گئے تھے۔
ہماری ایک بحث یہ ہے کہ امریکہ ہمارا دوست ہے یادشمن۔ یہ بحث اس حوالے سے ہے کہ ہم جب بھی امن مذاکرات شروع کرتے ہیں، تو امریکہ ایک ڈرون مار دیتا ہے اور مذکرات ٹھس ہو جاتے ہیں۔ ہمارا امریکہ سے ایک شکوہ یہ رہا ہے کہ وہ ہمارے دشمن طالبان کونہیں مارتا، ہماری درخواست پر بھی نہیں مارتا، ماضی میں ہمارے ایک طالبانی کالم کار نے لکھا تھا کہ آئی ایس آئی نے بیت اللہ محسودکی نقل وحرکت کے بارے میں سی آئی اے کو کئی بار اطلاع دی لیکن ان پر ڈرون نہیں مارا جاتا تھا، یہ شکایتیں بھی ہمارے لبوں پررہتی ہیں کہ امریکہ کو اپنے دشمنوں، جو ہمارے دوست ہیں، کو مارنے کا شوق ہے لیکن ہمارے دشمنوں، جو امریکہ کے دوست اور آلہ کار ہیں، کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ اب اگر امریکہ نے حکیم اللہ کو نشانہ بنایا ہے تو ہم اس قدر تلملا رہے ہیں اور اسے قوم کا ہیرو بنانے کی کوشش کررہے ہیں بلکہ بڑی حد تک بنادیا گیا ہے اور ملک میں اس کا غائبانہ جنازہ بھی پڑھا گیا ہے۔ قومی میڈیاپر صرف ایک شخص جنرل اطہر عباس نے یہ کہا ہے کہ ایک ملک دشمن کو ہلاک کیا گیا ہے، باقی سب امریکہ کی مذمت میں لگے ہوئے ہیں۔
حکیم اللہ نے پاکستان کے خلاف جو وارداتیں کی، میں ان کی بنیاد پر اس کے خلاف کوئی فرد جرم عائد نہیں کرنا چاہتالیکن پاکستان میں جب بھی کوئی چھوٹا بڑا خودکش حملہ ہواتو تحریک طالبان نے اس کی ذمے داری قبول کی، ان میں محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت، جی ایچ کیو پرحملہ، کامرہ کراچی نیول بیس، لاہور آئی ایس آئی اور دیگر سینکڑوں حملے انہوں نے اپنے کھاتے میں ڈالے۔ ان کے طرفدار میڈیا والے پہلے خود ہی ان کے ترجمانوں کے حوالے سے خبر دیتے ہیں لیکن پھر دوسرے سانس میں یہ کہتے ہیں کہ طالبان کے سران کا الزام یونہی دھر دیا جا تا ہے۔ اچھاجی، یونہی الزام دھر دیا جاتا ہے تو کوئی طالبان لیڈر سا منے آ کر ان دعوؤں کی تردید کیوں نہیں کرتا، اسامہ بن لادن نے بھی زندگی بھر نائن الیون کے سانحے کی کوئی تردید نہیں کی لیکن ان کے ہمدرد دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ امریکہ نے یہ حملے خود ہی اپنے آپ پر کر لیئے چلوخو دکر لیئے مگر اسامہ یا القاعدہ ان کی تردید تو کرتے۔ پاکستان میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا اس نے کیا، کسی نے تو کیا حکیم اللہ کا جوکوئی جانشین مقررکیا جائے گا، وہ سامنے آئے تو اس قتل و غارت سے انکار کرے۔ اورخودبھی امن سے رہے اور ہمیں بھی امن سے رہنے دے۔
مشرف اور زرداری حکومت پر الزام تھا کہ وہ اندر سے امریکہ کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور اوپر سے امریکہ کے خلاف شور مچاتے ہیں۔ کوئی بھی کہتا تھا کہ فوج بھی دو ہرا کردار ادا کر رہی ہے شکر کی بات ہے کہ وزیر داخلہ نے اب فوج کے کردار کی کھل کر تعریف کی ہے مگر وہ امریکہ پر خوب برسے ہیں۔ یہ بھی کہہ ڈالا کہ امریکہ سے تعلقات پر نظر ثانی کی جائے گی، ابھی چند روز پہلے ان کے وزیراعظم نے امریکی صدر سے اپنی منڈیاں کھولنے کی درخواست کی ہے اور وزیر داخلہ امریکہ کو دھمکیاں دینے پر اتر آئے ہیں، ٹی وی پر ان کی دھواں دھار تقریر سنتے ہوئے میں نے ایک پاکستانی امریکی سے کہا کہ اب آپ لوگ ہمارے مقابلے کے لیئے تیار ہو جاؤ، جواب ملا، جوگر جتے ہیں وہ برستے نہیں۔
محکمہ موسمیات والے پتانہیں پاک امریکہ مڈھ بھیڑ کے سلسلے میں کیا پیش گوئی کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے شانت رہنے کی۔ (5 نومبر 2013ء)