خبرنامہ

جہان قائد۔۔علامہ عبدالستار عاصم کا معرکہ۔۔اسداللہ غالب

ستمبر کی آمدکے ساتھ مجھے عظیم قائد کی یاد آئی اور میں نے انتہائی ۔۔ندیدے پن ۔۔سے علامہ عبدالستار عاصم کو فون کیا کہ آپ اپنی انتہائی قیمتی اور معرکۃ الآرا کتاب جہان قائد دوستوں اور بزرگوں کو پیش کر رہے ہیں، کیا مجھے ان کامستحق خیال نہیں کرتے۔ میں نے انکی ایکٹویٹی فیس بک پر دیکھی تھی۔
آدھی رات کو گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ دستکار، کتابوں کی گٹھڑی اٹھائے کھڑا تھا،میں نے سوچا کہ علامہ صاحب نے میری فرمائش پوری کر دی ہے ا ور کسی کے ہاتھ اپنی کتابیں بھجوا دی ہیں مگر اس نوجوان نے جب یہ کہا کہ میں بقلم خود عبدالستارعاصم ہوں تو مجھے حیرت ہوئی کہ اس کم سنی میں یہ علامہ ہیں اور اس قدر ضخیم کتابیں لکھ رہے ہیں ،بڑے ہو کر کیا کچھ نہیں کر گزریں گے۔ یقین مانئے مجھے شرمندگی بھی ہوئی کہ ناحق ان کو تکلیف ہوئی مگر وہ مجھ سے زیادہ شرمندہ نظر آ رہے تھے کہ پہلے کیوں نہ حاضر ہو سکے۔
اس پلندے میں جہان قائد کی پانچ جلدیں تو تھیں ہی، ان کے ساتھ وہ قائد پر کوئی درجن بھر مزید کتابیں بھی لے آئے تھے۔مجھے شدید احساس ہے کہ پاکستانی قوم نے اپنے قائد کے ساتھ انصاف نہیں کیا اور لکھنے والوں نے تو ظلم کیا کہ قائد پر کوئی ڈھنگ کی سوانح حیات تخلیق نہیں کی۔ اس احساس نے میرے ذہن میں ان دنوں جڑ پکڑی تھی جب ابھی کالج کا طالب علم تھا اور کسب علم کے لئے لائیبریریوں کی خاک چھانتا پھرتا تھا۔ گورنمنٹ کالج کی اپنی لائیبریری بھی بہت بڑی ہے مگر دیال سنگھ ، لاہور میوزئیم،پنجاب پبلک لائیبریری اور پنجاب یونرسٹی لائیبریری بھی جانا ہوا، پنجاب یونیورسٹی کی لائیبریری اولڈ کیمپس میں کچہری روڈ پر واقع تھی اور یہیں پر میں نے ایک پوری الماری بھری دیکھی جس میں گاندھی پرایک کتاب کوئی پچاس ایک جلدوں پر مشتمل ، سجی ہوئی تھی، اس کی جلد بندی بے حد منقش اور دلکش۔میں نے ساری لائیبریری چھان ماری ،مگر قائد بارے ایسی کوئی کتاب وہاں نہ تھی ۔
اپنے مرشد محترم مجید نظامی سے آخری ملاقات میں، میں نے یہ مسئلہ اٹھایا اور قائد کا قرض چکانے کی بات چھیڑی، انہوں نے اس مسئلے میں دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے پوچھا کون لکھے گا یہ کتاب۔میں نے چند نام گنوائے، وہ مطمئن نہ ہوئے، ایک صاحب کے بارے میں کہنے لگے کہ وہ توآنے جانے کا کرایہ یا گاڑی کا مطالبہ کرتے ہیں، دوسرے صاحب کو انہوں نے بھارتی شردھالو قراردیتے ہوئے کہا کہ ا نہیں تو نہرو یا اندرا کی بائیو گرافی لکھنی چاہئے۔مجھے چپ لگ گئی ،مگر یقین مانئے میرے ذہن سے یہ خیال کسی طور نکل نہیں سکا اور اب میں یہ سوچتا ہوں کی جو کچھ قائد پر چھپ چکا ہے،ا سے مصنفین یا ناشروں کی اجازت سے انٹرنیٹ پر ذخیرہ کر دیا جائے۔ یہ ایک ریفرنس ای۔ لائیبریری بن جائے گی ا ور نئی نسل گھر بیٹھے ا س سے مستفید ہو سکے گی، یہی خیال مجھے علامہ عبدالستا ر عاصم کی طرف لے گیا۔
مزی بحث مباحثے کے لئے میں نے علامہ صاحب اور کچھ اور دوستوں کو ایک محفل میں اکٹھا کیا، میرے لئے فخر کی بات ہے کہ میرے راوین فیلو ڈاکٹر اجمل نیازی بھی اس مقصد کے لئے چلے آئے ا ور نہیں آ سکے تو اس معاشرے کے محسن ،ملک مقبول جو ناسازی طبع کا شکار تھے، انہوں نے تین نسلوں کو کتابیں فراہم کی ہیں۔میں نویں جماعت میں تھا جب گنڈا سنگھ والا ہائی ا سکول کی لائیبریری سے رجوع کیا ، ماسٹر عبدالغنی ا سکے انچارج تھے ، وہ میرے ہی گاؤں سے تعلق رکھتے تھے، میرے شغف کو دیکھ کر انہوں نے الماری کی چابی میرے حوالے کر دی، ایک دن تو میں نے ساری کتابوں کو دیکھنے میں لگایا، اناج ہاتھ میں نہ بھی ہو مگر سامنے نظر�آ رہا ہو تو آدھی بھوک مٹ جاتی ہے۔میں نے سب سے پہلے تمدن عرب اور تمدن ہند اپنے نام جاری کی، انہیں پڑھا توذہن ماضی کی رفعتوں سے نہا ل ہو گیا، یہ وونوں کتابیں ملک مقبول صاحب نے چھاپی تھیں اور یہ کوئی معمولی کام نہیں تھا، ان کتابوں کو غیر ملکی زبان سے ترجمہ کروانا ہی پہاڑ سر کرنے کے برابر تھا، پھر ان کے شائع کردہ تاریخی ناول میں نے ٹاپو ٹاپ پڑھ ڈالے۔
جب مجھے معلوم ہوا کہ ملک مقبول صاحب محفل کمی زینت نہیں بن سکیں گے تو میر ادل ملول ہو گیا۔ کتابوں کی ا شاعت میں وہ میرے ہیرو تھے۔معافی چاہتا ہوں میں نے کتابوں کی ا شاعت لکھ دیا۔ اصل میں تو انہوں نے علم کے فروغ میں تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ کتاب لکھنا اپنی جگہ پر اہم سہی مگراسے لوگوں کے ہاتھوں تک پہنچاناجوئے شیر لانے سے کم نہیں ۔
محفل کو کشت زعفران بنانے کا ہنر کوئی افتخار مجاز سے سیکھے۔ مگر جو نکتے حکیم شفیق کھوکھر، ملک ریاض،منظور احمد،وحید رضا بھٹی،منشا قاضی، استاد عبداللطف خان،ڈاکٹرجاوید اقبال ندیم اور دیگر احباب نے اٹھائے،اس سے یوں لگا کہ ساری گفتگو کتب بینی کی طرف مڑ گئی ہے۔ میں نے اپنے نوٹ پیڈ پر کتب بینی لکھنا چاہا تو یہ قطب بینی لکھا گیا، یہ لفظ بھی غلط نہ تھا، پروفیسر محفوظ کتب جو ہیں تو ٹیکسٹائل انجنیئرنگ کے استاد اور شوقیہ طور پر خطاطی بھی فرماتے ہیں مگرا س روز پتہ چلا کہ نادر کتابوں کا ذخیرہ تو ان کے گھر پڑا ہے، اب وہ چوروں سے ہشیار رہیں۔
اس محفل کا نچوڑ تو اجمل نیازی نے لکھ ڈالا، پہلی مرتبہ انہوں نے پہل کی ہے، پہل کرنا جارحیت کہلاتا ہے ، مگر ایسی جارحیت وہ ہمیشہ کرتے رہیں اور ایسے ہی خوبصورت کالم لکھتے رہیں۔مجھے پچھاڑ بھی دیں گے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں۔
اب میں کیسے بتاؤں کہ مجھے علامہ عبد الستار عاصم نے کیا کیا گراں قدر تحائف سے نواز،ا سلئے کہ میں نے فوری طور پریہ کتابیں اپنے بیٹے عمار چودھری کے سپرد کر دیں کہ وہ انہیں انٹرنیٹ پر پیش کرنے کی شکل میں ڈھال دے۔ البتہ میری تحویل میں جہان قائد کی پانچ جلدیں موجود ہیں۔ میں ان کی ورق گردانی میں مشغول رہتا ہوں۔اڑھائی ہزار صفحات پڑھنے کے لئے کئی سال لگ جائیں گے، شایدعلامہ صاحب نے انہیں بچپن ہی سے مرتب کرنا شروع کر دیا ہو گا، عام حالات میں ایسی ایک کتاب لکھنے کے لئے ایک عمر درکار ہے مگر علامہ صاحب ایسی درجنوں کتابیں لکھ چکے ہیں اور ابھی تو یہ ابتدائے عشق ہے۔جہان قائد میں ہر وہ حوالہ تفصیل سے مل سکتا ہے جو قائد سے نسبت رکھتا ہے۔ایسی کتاب لکھنے کے لئے ہزاروں کتابیں کھنگالنا پڑی ہوں گی۔ اللہ عاصم صاحب کو نظر بد سے بچائے۔
ملک مقبول صاحب کی خودن نوشت ۔سفر جاری ہے۔۔میرے زیر مطالعہ ہے۔ان کا سفرخدا جاری و ساری رکھے، وہ ہمت والے انسان ہیں، ایسے بوڑھے کی جوانی کا عالم کیا ہو گا۔
قائد کی بات چل نکلی ہے تومجھے وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید کا بھی شکریہ ادا کرناہے جنہوں نے میری فرمائش پر جناح پیپرز کی اٹھارہ جلدیں مرحمت فرمائیں۔ میرے لئے یہ بخشیش،حکومت کی بخشش کے لئے کافی ہے۔
بھوک مٹنے والی چیز نہیں۔ میری آرزو ہے کہ جس طرح انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کی تالیف کے لئے ایک بورڈ قائم ہو ا،اوراس نے برسہا برس سے اپناکام مکمل کیا، ایساایک ادارہ قائد کی سوانح حیات لکھنے کے لئے بھی تشکیل دیا جائے۔وہ ایک شخص جس نے ہمیں پاکستان کا تحفہ دیا، کیا ہم اس کا چھوٹاساقرض بھی نہیں ا تار سکتے۔جاتی امرا ، بلاول ہاؤس ا ور بنی گالہ آبا داور شاد رہیں ، مگر قائد کی یادوں کا گلستاں بھی تو مہکتے رہنا چاہئے۔