خبرنامہ

جی ٹی روڈ کے موقف کی تائید….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ومی سیاست میں پہلے تو افسوسنا ک فیصلے ہوئے، دو تہائی اکثریت کے حامل وزیر اعظم کو عمران خان کے چار سال کے مسلسل پروپیگنڈے اور پھر مقدمے بازی کی وجہ سے ناہل قرار دے دیا گیا۔اب حالات نے ایک نیا موڑ لیا ہے اور نواز شریف اور اسحق ڈار نے اچانک لندن سے واپسی کا فیصلہ کر کے نیب کے مقدموں کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے مگر لندن سے روانگی کے وقت انہوںنے میڈیا سے کہا ہے کہ مسئلہ پانامہ کا تھا، سزا اقامہ پر دے دی گئی، جو لوگ فیصلے کر رہے ہیں، وہی اپیلیں سن رہے ہیں اور انہیں مسترد بھی کر چکے ہیں اور وہی نیب عدالتوں کے نگران بھی بن گئے ہیں ، ان حالات میں جو فیصلے ہوں گے، ان کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔

لندن ہی میں ایک میڈیا ٹاک میں نواز شریف نے دعوی کیاہے کہ عوام نے جی ٹی روڈکے موقف کی کھل کر تائید کی ہے اور اس سے ظاہر ہوا کہ عوام نے ان کی نااہلی کے فیصلے کو قبول نہیں کیا مگر یہ فیصلہ ملک پر ٹھونس دیا گیا۔
نواز شریف نے اپنی نااہلی کے فیصلے کے خلاف احتجاج کے لئے جی ٹی روڈ مارچ کا فیصلہ کیا۔یہ ایک عظیم الشان مظاہرہ تھا، نواز شریف نے اس روڈ مارچ میں جگہ جگہ تقریر کرتے ہوئے پوچھا کہ انہیں بتایا جائے کہ کس جرم میں نکالا گیا۔ اس روڈمارچ کو کئی ہفتے بیت چکے ہیںمگر کسی طرف سے انہیں اس سوا ل کا جواب نہیں ملا کہ انہیں کیوں نکلا گیا بلکہ حلقہ ایک سو بیس کے ضمنی الیکشن میں عوام نے ان کے جی ٹی روڈ کے موقف کی تائید کر دی ہے۔، حیران کن بات یہ ہے کہ اس الیکشن میں جو امیدو ار تھیں بیگم کلثوم نواز، وہ لندن میں کینسر کے علاج کے لئے ایک ہسپتال میں داخل تھیں ،ان کی تیمار داری کے لئے پورا شریف خاندان بھی لندن میں تھا، بیگم کلثوم نواز کی الیکشن مہم ان کی بیٹی مریم نواز نے چلائی۔ انہیں سخت مصائب کا سامنا تھا، ان کے خلاف تمام سیاسی جماعتیں اور پر اسرار قوتیںمتحد تھیں۔بیگم کلثوم نواز کو ہر صورت شکست دینے کے لئے چھیالیس امیدوار میدان میں اترے۔اس طرح بیگم صاحبہ کے ووٹ تقسیم کرنے کی سازش کی گئی، ووٹنگ شروع ہوئی تو اس کی نگرانی کے لئے فوج آ گئی، بظاہر اس کی درخواست تحریک انصاف نے کی تھی۔ لاہور شہر ایک پرامن علاقہ ہے، جس حلقے میں الیکشن ہو رہا تھا، وہاں کبھی دہشت گردوں اور قانون توڑنے والوں کی موجودگی کی اطلاع نہیں ملی۔یہ علاقہ نہ تو فاٹا میں تھا، نہ کراچی میںتھا ، نہ دور دراز صوبے بلوچستان میں کہ وہاں فوج کی موجودگی ضروری ہو۔ عمران خان پہلے ہی اس الزام کا سامنا کر رہے ہیں کہ ا نہیںا داروں کی پشت پناہی حاصل ہے، میری رائے میں فوج کواس متنازعہ سیاستدان اور جماعت کی درخواست پر فیصلہ کرنے کے لئے بار بار سوچنا چاہئے تھا۔ فوج ایک قومی ادارہ ہے اورا سے اپنے آپ کو قوم کے ہر طبقے کی حمایت حاصل رہنی چاہئے۔ یہ شہیدوں اور غازیوں کی روایات کی امین ہے۔
بہر حال ان تمام دشواریوں کے باوجود کلثوم نواز کی کامیابی کا راستہ نہیں روکا جا سکا۔چھیالیس امید واروں کی عمر عیار کی زنبیل کی طرح کی ووٹ کی پرچی بھی عام ووٹروں کو کنفیوز کرتی رہی۔ اس بنا پر تما م رجسٹرڈ ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال نہ کر سکے اور معمول کے تحت ان کو وٹ ڈالنے کے لئے اضافی وقت نہ دیا گیا۔
حلقہ ایک سو بیس کا نتیجہ میاںنواز شریف کے تمام مخالفین کے لئے ایک ریفرنڈم کی حیثیت رکھتا ہے، عمران خان تو اسے عدلیہ کے حق میں ریفرنڈم کہہ ڈالا تھا اور یہ اس کی بچگانہ سوچ تھی، وہ عدلیہ کا خود ساختہ ترجمان کیوں بن بیٹھا۔ بہر حال اب جبکہ حلقہ ایک سو بیس کے عوام واضح فیصلہ دے چکے ہیں تو عمران خان ریفرنڈم ہار چکے ہیں اور عوام نے یہ رائے دے دی کہ انہیں نااہلی کا فیصلہ منظور نہیں، یہ الگ بات ہے کہ یہ فیصلہ نافذ ہو چکا ہے اور میاں نواز شریف نے اسے کسی انا کا مسئلہ نہیں بنایا حالانکہ ان کے حامی کہہ رہے تھے کہ ان کے خلاف کوئی سازش ہوئی تو ترکی کے تجربے کو دہرایا جائے گا اور عوامی طاقت پر اس سازش کو ناکام بنایا جائے گا۔ پاکستان میں ایسے کسی تجربے کو دہرانے کا مطلب ایک ایسی خانہ جنگی کو ہوا دینے کے مترادف تھا جس کے نتیجے میں ایک اور اکہتر کا المیہ رونماہو سکتا تھا، اس لئے نواز شریف اور ان کے حامیوںنے اپنے جذبات پر قابو پائے رکھا۔ اور کوئی نا پسندیدہ راستہ اختیار نہیں کیا۔ مگر اس رویئے کو نواز شریف کی کمزوری بھی نہیں سمجھا جانا چاہئے ۔ اور ضرورت اس امر کی ہے کہ نواز شریف کے ساتھ انصاف کیا جائے، دھرو نہ کیا جائے۔ انصاف کی امید کے لئے نواز شریف اپیل میں گئے مگر یہاں سے بھی حسب معمول انہیں وہی جواب ملا ، اب نیب کا احتساب شروع ہے، میاںنواز شریف آئین ا ور قانون اور عدلیہ کے احترام میں لندن سے واپس آ گئے ہیں ، اگر وہ نہ آنا چاہتے تو انکو وطن واپس لانے میں انہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا جن کا تجر بہ الطاف حسین ا ور دیگر کئی افراد کے سلسلے میں ہو چکا ہے۔ برطانیہ کے ساتھ پاکستان کا ایساکوئی معاہدہ نہیں جس کے تحت ایک دوسرے کو مطلوب افراد کی حوالگی عمل میں آ سکے۔
ان سطور کو تحریر کرنے کے دوران اسحق ڈار نیب کے سامنے پیش ہو چکے ہیں مگر انہیں سخت رویئے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔یہ رویہ نواز شریف کے ساتھ بھی اپنایا گیا تو اس سے یہی ظاہر ہو گا کہ حکومت اور شریف فیملی کو دیوار سے لگانے کی کوشش ہو رہی ہے، یہ کوشش کون کر رہا ہے، وہ طاقت کھل کر سامنے نہیں آئی، اگر یہ کوئی بیرونی طاقت ہے تو اسے منہ کی کھانا پڑے گی ،ایرانی عوام نے امریکی چھاتہ برداروں کی جو مرمت کی تھی، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اس لئے کسی بیرونی طاقت کو پاکستان کے داخلی امور میںدخل ا ندازی سے پرہیز کرنا چاہئے۔ وہ ملک کے عوام کو چیلنج نہ کرے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بیرونی طاقتوں کی افواج پاکستان کی سرحدوں پر مورچہ زن ہیں، یہی افواج عراق میںمداخلت کر چکی ہیں، لیبیا میںمداخلت کر چکی ہیں، اب شام میں ان کی مداخلت جاری ہے۔ یمن میں بیرونی افواج کی مداخلت کا رستہ اسلامی فوج کی مشترکہ کمان نے روک دیا ہے ورنہ اس ملک کی حکومت کو بھی فرار پر مجبور کر دیا گیا تھا۔فرار والا مسئلہ تو پاکستان میںبھی قریب قریب ہو چکا تھا مگر اب نوازشر یف اوراسحق ڈار کی واپسی سے یہ تاثر ختم ہو گیا ہے مگر کون جانے ان کے سا تھ سلوک کیا ہو گا۔شہباز شریف کے خلاف بھی محاذ کھول دیا گیا ہے اور سانحہ ماڈل ٹاﺅن رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ جائز، قانونی اورا ٓئینی ہو گا، اس پر بحث نہیں مگر عام ا ٓدمی کے ذہن میں یہ سوال ضرور آتا ہے کہ سارے فیصلے یکا یک کیوں ہو رہے ہیں۔ کیا ا س سے یہ مقصود تو نہیں کہ سول منتخب حکومت اپنی ٹرم مکمل نہ کر سکے ۔ اس ملک میں آج تک کسی وزیر اعظم کو آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی جبکہ فوجی ڈکٹیٹر گیارہ گیارہ سال تک اقتدار سے چمٹے رہے اورماضی کی عدالتیں ان کے حق میں فیصلے دیتی رہیں۔عدلیہ کو ماضی کے یہ داغ دھونے چاہئیں اور وہ اندرونی یا بیرونی قوتیں جو منتخب حکومت کو چلنے نہیں دینا چاہتیں ، انہیں بہر حال سوچنا چاہئے کہ اس ملک کے عوام ان کے فیصلوں اور اقدامات کی تائید نہیں کریں گے۔ پاکستان کسی طور لیبیا نہیں ، نہ یہ عراق ہے نہ شام ا ور نہ یمن۔ یہ ایک ایٹمی قوت ہے، اس سے چھیڑ چھاڑ مہنگی پڑ سکتی ہے۔ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے سے پورا خطہ لرزہ بر اندام ہو جائے گا۔