خبرنامہ

حافظ سعید کی تقریر نے مجھے جھنجھوڑ دیا…..اسداللہ غالب

حافظ سعید کی تقریر نے مجھے جھنجھوڑ دیا…..اسداللہ غالب

میرے مرشد محترم مجید نظامی کو بھارتی شردھالوﺅں سے سخت نفرت تھی۔ نواز شریف نے جب کہا کہ یہ واہگہ کی لکیرکیوں ہے۔ تو میرے مرشد نے نوازشریف کو آڑے ہاتھوں لیا۔ نواز شریف کے ان ریمارکس پر قائد کی روح بھی تڑپ تڑپ گئی اور فرط غم سے میرے قلم پر رعشہ طاری ہو گیا۔
نوازشریف نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ یہ بھی کہا کہ ہمارے اور بھارتیوںکے درمیان کوئی فرق نہیں۔انہوںنے یہ کہہ کر نظریہ پاکستان کو جھٹلا دیا جس کی بنیاد ہی یہ تھی کہ بر صغیر میں دو قومیں ہیں جن کا مذہب ہی نہیں رہن سہن اور رسم و رواج بھی جدا ہے،، دونوں کے حلا ل و حرام بھی الگ الگ۔ ہیں۔دونوں قوموں میں کچھ بھی تومشترک نہیں ہے۔ نواز شریف نے اس نظریے پر سیاہی پھیر دی۔
اب یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا ہے، نواز شریف نے ضرور کشمیریوں پر بھارتی فوج کے مظالم کا ذکر کیا مگر لوگ ان کے منہ سے نریندر مودی کی مذمت سننا چاہتے تھے۔حامد میر نے اسی شام ٹاک شو میں اپنے ہر مہمان سے پوچھا کہ نوازشریف نے مودی کے بارے میں زبان کیوں نہ کھولی، یہ سوال انہوںنے وزیر اعظم آزاد کشمیر سے بھی کیا مگر جواب آئیں بائیں شائیں۔
میں جلسوں میں نہیں جا سکتا اور حافظ سعید کی تقریر لائیو نشر نہیں ہوتی مگر ان کے خطاب کا ایک ٹکڑا انٹر نیٹ پر وائرل ہو گیا ہے، وہ نواز شریف سے پوچھتے ہیں کہ بھارتی خون آشام درندے نریندر مودی کی اس روز بھی مذمت کیوں نہیں کی جب ساری دنیا مودی کے جبر کا پردہ چاک کر رہی تھی۔ یقین مانیئے میں حافظ سعید کی زبان سے یہ الفاظ سن کر کانپ گیا کہ مجھے یہ توفیق کیوں نہ ہوئی کہ میں نوازشریف کی مودی سے محبت پر ہزار نفرتیں بھیجوں ۔میںنے نواز شریف کی تقریر لائیو سنی تھی اور مطمئن تھا کہ انہوں نے مظلوم کشمیریوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ، اپنے آپ کو کشمیری کہا اور اپنی رگوں میں دوڑنے والے لہو کو کشمیری لہو قرار دیا مگر یہ نکتہ میرے ذہن میں کیوں نہ آیا کہ جب سے مودی اقتدار میں آیا ہے اور اس نے کشمیریوں پر ستم کے پہاڑ ڈھانا شروع کر دیئے ہیں اور ادھر نواز شریف کی زبان سے مودی کی مذمت میں کوئی لفظ کبھی نہیں نکلا۔
شکریہ جناب حافظ سعید ! آپ نے میرے ضمیر کو جگایا، میرے قلم پر تازیانے برسائے۔ اور مجھے اپنے مرشد کا راستہ یاد کرا دیا۔ میرے مرشد کی بیگم صاحبہ کشمیری تھیں ، ان کا تعلق شوپیاں سے تھا جہاں صرف ایک ہفتہ پہلے مودی کی جابرفوج نے پانچ نہتے اور بے گناہ کشمیریوں کو بھون دیاا ور بوڑھے علی گیلانی کو نہ ان کے جنازے میں جانے دیا گیا ، نہ ان کے خاندانوں سے تعزیت کے لےے گھر سے نکلنے دیا گیا، یہ سانحہ میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ بھارتی فوج نے ان کے گھر کے باہر خاردار باڑھ بچھا کر علی گیلانی کا راستہ روک دیا تھا۔ علی گیلانی اس بڑھاپے میں معصوم شہیدوں کے لئے روتا رہا بلکتا رہا ، روتا رہا۔
مودی کے لئے نواز شریف کا دل موم کیوں ہے۔ نواز شریف سے تو ہر کوئی پوچھ رہا ہے کہ کل بھوشن یادیو پر اب تک کوئی ایک لفظ تک کیوں نہیں کہا۔ نواز شریف سے لوگ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ بھارتی جندال اسلام آباد اور ویزے کے بغیر مری کیسے پہنچ گیا۔ بھارتیوں کے لئے ویزے کے استثنیٰ کی تاریخ اس روز سے شروع ہوتی ہے جب نواز شریف کی نواسی کی شادی کی تقریب میں مودی کابل سے لاہور اترا اور ا سکے ساتھ ایک سو بیس بھارتی شہری اور بھی تھے جو بغیر ویزے کے اقبال کے شہر لاہور میں دندناتے پھرے۔ اسے روندتے رہے ۔نواز شریف نے جاتی امرا آباد کیا ، یہ بستی مشرقی پنجاب میں ہے ۔ اور یہ اس قدر مقدس کیسے ہو گئی کہ رائے ونڈ کے سائے میں آباد کر دی گئی۔ نواز شریف کو مکہ اور مدینہ سے محبت ہے مگر انہوں نے اپنی نئی آبادی کو مکہ یا مدینہ کے نام سے موسوم کیوں نہیں کیا۔ آخر ایک بھارتی آبادی اسے کیوں بھا گئی۔کہ اسے پاکستان میں تعمیر کر کے نظریہ پاکستان کو چیر کر رکھ دیا۔
بھارت کے لئے نواز شریف کی ہمدردی کی تاریخ واجپائی کے سفر لاہور سے آشکارا ہو گئی تھی۔ اس سفر کے مقاصد کی تکمیل میں کارگل کی جنگ حائل ہو گئی جو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ایک واضح شکست تھی، اس شکست کا اظہار بھارتی کمنٹیٹروں نے بھارت کے حالیہ یوم جمہوریہ کی فوجی پریڈ کے موقع پر یہ کہہ کر کیا کہ اگر فلاں ہیلی کاپٹر جس کی تیسری آنکھ بھی ہوتی ہے، کارگل کے دنوںمیں بھارت کے پاس ہوتا تو وہ مجاہدین کے ہاتھوں شکست سے بچ سکتا تھا۔ بھارت ساری عمر کارگل کا نام لے کر ماتم کرتا رہے گا اور ادھر ہمارے نواز شریف ہیں جو کہتے ہیں کہ مشرف نے کارگل کر کے ان کی پیٹھ میںچھرا گھونپا۔ یعنی انہیں بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں جھولنے سے روک دیا۔ بھارت سے دوستی تو ہر پاکستانی چاہتا ہے مگر مسئلہ کشمیر کے حل کی شرط پر جس کے لئے سلامتی کونسل کی استصواب کی قرار دادیں موجود ہیں اور جن کو پنڈت نہرو نے بھی تسلیم کیا تھا مگر ان پر آج تک عمل نہیں کیا ۔ اب تو ستم ظریفی یہ ہے کہ کشمیر کمیٹی کے چیئر مین فضل الرحمن نے یہ بھاشن دیا ہے کہ آج دو ہزارا ٹھارہ ہے اور زمینی حقائق بدل چکے ہیں ، اب ہمیں حقیقت پسندی کا راستہ اختیار کرنا ہو گا اور آج کی صورت حال میں کشمیر کی بات کرنا ہو گی۔مولانا کا مطلب یہ ہے کہ آج کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور آج دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کشمیری جہاد کو دہشت گردی سمجھتی ہے۔ نوائے وقت سے صحافت کا آغاز کرنے والے جاوید چودھری نے بھی مجھے پانچ فروری کو رلا دیا کہ سوویت روس ٹوٹ کر درجنوں ملکوں میں تقسیم ہو گیا، مشرقی تیمور اور مشرقی سوڈان آزاد ہو گئے اور مانٹیگرو آزاد ہو گیا، دنیا کے ملکوں کی تعداد پونے تین سو تک پہنچ گئی مگر اسی عرصے میں کشمیر اور فلسطین آزاد نہ ہوئے اور محکوم اور غلام بنے ہوئے ہیں اور ان کی آزادی کی بات کرنے والا حافظ سعید کے انجام سے دوچار کر دیا جاتا ہے۔ حافظ سعید کے انجام سے تو میرے مرشد جناب مجید نظامی کو کوئی خوف لاحق نہیں تھا۔ انہوں نے برملا کہا کہ وہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کے حامی ہیں ، اگر امریکہ انہیں دہشت گرد سمجھتا ہے تو بے شک انہیں پکڑ کر گوانتا نامو بے کے پنجروں میں بند کر دے، انہوں نے یہ بھی پیشکش کی تھی کہ جموں کی بھارتی فوج کو جہنم رسید کرنے کے لئے انہیں ایک ایٹمی میزائل کے ساتھ باندھ کر وہاں داغ دیا جائے۔
نوازشریف اگر قائد اعظم کی کشمیر پالیسی کو نہیں اپناتے اور درندہ صفت مودی کی مذمت نہیں کرتے تو انہیں پاکستانی عوام کی لیڈری کا شوق دل سے نکال دینا چاہئے۔ لیڈری اس طرح نہیں ہوتی کہ باپ بیٹی دن رات ملکی اداروں کو گالیاں دیتے رہیں ، اس طرح خدشہ ہے کہ کسی وقت وہ الطاف حسین کی طرح بھارت ہی سے انصاف نہ مانگ لیں۔
درندے کو درندہ کہنا نواز شریف پر لازم ہے۔ مودی ایک مسلمہ درندہ ہے۔ اسے دو ہزار مسلمانوں کو زندہ جلانے پر امریکہ اور برطانیہ نے درندہ کہہ کر ویزہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ نواز شریف اسے درندہ نہیں کہیں گے وہ لوگ زرداری کے طعنے پر یقین کر لیں گے جسے میرا قلم یہاں دہرانے کا ارادہ نہیں رکھتا ، پھر بھی اتنا ضرور کہوں گا کہ نواز شریف کو یہ تاثر ختم کرنا چاہئے کہ وہ درندہ صفت مودی کا یا ر ہے اور حافظ سعید کی اس پیش کش کو قبول کر لینا چاہئے کہ ان کا ہاتھ پکڑ لیں ، کشمیر بھی آزاد کروا لیں اور پاکستان میں بھی نواز شریف کی مشکلات کا خاتمہ ہو جائے گا۔حافظ سعید کی شرط بس ایک ہے کہ نوازشریف قائداعظم کی کشمیر پالیسی پر عمل پیرا ہوں اور کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ سمجھیں ۔ یہ شہہ رگ آج مودی کے شکنجے میں ہے اور ا س درندے کی ظالم افواج اس شہہ رگ کا خون بہا رہی ہیں۔ کشمیر کو آزاد کروانے کے لئے مودی کی یاری چھوڑنا ہو گی۔ حافظ سعید کا یہ پیغام لاﺅڈ اینڈ کلیئر ہے۔ بھٹو نے بھی کشمیر کے لئے ہزار سال تک جنگ لڑنے کا اعلان کیا تھا ، محترمہ بے نظیر نے پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر قرار دیا تھا۔ کشمیر بنے گا پاکستان ، دنیا بھر کے آزادی پسندوں نے کر دیا یہ اعلان۔ نواز شریف بھی یہی اعلان کریں اور مودی پر ہزار لعنت بھیجیں جو کشمیریوں کا خون بہا رہا ہے۔ وہ پاکستان کے لیڈر نواز شریف کا یار کیسے بن گیا۔