خبرنامہ

حافظ سعید کی طرح …اسداللہ غالب

حافظ سعید کی طرح …اسداللہ غالب

حافظ محمدسعید کی نظر بندی کو طویل عرصہ گزر گیا ہے ۔ نظر بندی کے پچھلے احکامات ختم ہو گئے ہیں، آئندہ ان سے کیا سلوک ہوتا ہے، دیکھئے جو مزاج یار میں آئے۔
حافظ محمد سعید پر الزام ہے کہ وہ آزادی کشمیر اور الحاق پاکستان کی حمایت کرتے ہیں۔
تعزیرات پاکستان میں اگر یہ کوئی جرم ہے تو اس جرم کا ارتکاب کرنے والے دیگر لیڈروںسے بھی ویسا ہی سلوک ہونا چاہئے جو حافظ سعید کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے۔
ہمیں سب سے پہلے پارلیمنٹ کی قومی کشمیر کمیٹی کو توڑ کر ا سکے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو بھی بند کرنا ہو گا۔اس کمیٹی کے ایک چیئر مین نوابزادہ نصراللہ خان بھی تھے، وہ تو دستور اور قانون کے انتہائی پابند تھے، ان سے یہ جرم کیسے سرزد ہو گیا اور ہم نے ان سے کوئی تعرض کیوںنہیں کیا۔
خاکم بدہن! جب بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھاا ور افواج پاکستان کو کشمیر کی آزادی کے لئے حرکت میں آنے کا حکم جاری کیا، اس حکم کو فوج کے سربراہ نے ماننے سے انکار کیا مگر قائد اعظم تو اپنے نظریات واضح کر چکے تھے اور کشمیر کی آزادی کے لئے وہ فوجی آپریشن کے حامی بھی تھے تو ہماری افسر شاہی نے قائد اعظم سے کیوںنہ استفسار کیا کہ جناب ! آپ دوسرے ملک میں دخل اندازی کے حق میںکیوں ہیں اور پاکستان کو اس جنگ میںکیوں جھونکنا چاہتے ہیں، میری رائے میں قائد اعظم اپنے نظریات ا ور اپنے احکامات میں حق بجانب تھے، کشمیر میںمداخلت بھارتی فوج نے کی تھی، اور اس جارحیت کا پانسہ پلٹنا ضروری تھا، اس لئے کہ کشمیر پاکستان سے ملحقہ مسلم اکثریتی ریاست تھی اور تقسیم کے فارمولے کے تحت اسے پاکستان کا حصہ بننا چاہئے تھا، مگر بھارت نے اس پر عمل درا ٓمد نہ ہونے دیا اور طاقت استعمال کی مگر ہمارے ہاں جس ادارے کے ہاتھ میں طاقت تھی اس نے قائد کی حکم عدولی کر کے کشمیر پر بھارت کے استعمار کو مستحکم ہونے میںمددی۔ہم نے آج تک اس کمانڈر انچیف کی گوشمالی نہیں کی جس نے قائد کے حکم کی نافرمانی کی۔
قائد کے حکم کو نہ ماننے والا تو انگریز جرنیل تھا مگر ایوب خان کی حکومت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے فوج کو یقین دلایا کہ اگر وہ آپریشن جبرالٹر لانچ کرے تو بھارت کو پاکستان کی سرحدوں پر جارحیت کرنے کا جواز میسر نہیں آئے گا، یہ جنگ کشمیر کے علاقے تک محدود رہے گی، آپریشن جبرالٹر میں سول کپڑوں میںمجاہدین کو کشمیر میں داخل کئے جانے کا منصوبہ تھا تاکہ وہ کچھ ٹھوں ٹھاں کریں اور کشمیری بھی خواب غفلت سے جاگیں اور آزادی کی جنگ کو تیز کریں۔ اگرچہ بھٹو کی یقین دہانی غلط ثابت ہوئی مگر تاریخ اس امر کی تو شاہدہے کہ بھٹو نے کشمیر کی آزادی کے لئے مجاہدین کی یلغار کے منصوبے کی حمائت کی تھی۔
نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ذریعے جہاد کا بانی بھی بھٹو ہے جس نے افغانستان کے مجاہدین لیڈروں گل بدین حکمت یارا ور ملا ربانی کو پاکستان میں آنے کی دعوت دی۔
بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور اقتدار میں افغانستان میں طالبان کی پشت پناہی کی اور ان کے وزیر داخلہ جنرل بابرطالبان کے ٹینکوں پر سوار ہو کر افغانستان گئے ا ور طالبان کو بزور طاقت تخت پر بٹھا کر آئے، طالبان بھی تو نان ا سٹیٹ ایکٹرز ہی تھے، سب کے سب سول مگر جہاد کے نشے سے سرشار۔
کشمیریوں کی آزادی کا بھٹو سے بڑا حامی کون ہو سکتا ہے جس کا یہ بیان تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ کشمیر کے لئے ایک ہزار سال تک جنگ لڑیں گے ا ور پھر اس جنگ کی تیاری کے لئے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کامقابلہ کرنے کے لئے ا س نے ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کا فیصلہ کیا۔، بھٹو کا یہ اعلان بھی تاریخ کے صفحات کی زینت بن گیا کہ ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم ضروربنائیں گے ۔
دیوار برلن ٹوٹی اور مشرقی یورپ کو آزادی ملنے لگی، دنیامیں تبدیلی کی تیز ہوائیں چلیں۔، اس پر کشمیری بھی جاگے ا ور انہوںنے پہلی بار اپنے بل بوتے پر تحریک ا ٓزادی کو مہمیز لگائی۔ اس وقت پاکستان میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی، انہوںنے کنٹرول لائن کا دورہ کیاا ور اپنادوپٹہ ہو ا میں لہراتے ہوئے ایک عالم وارفتگی میں نعرے لگائے کہ آزادی! آزادی! آزای! اتفاق کی بات ہے کہ آج یہی نعرہ ان کشمیری نوجوانوں کا ہے جو بھارتی فوج کے سامنے سینے کھولتے ہیںا ور گولیاں کھا کر ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔
ملک کی دوسری بڑی اور موجودہ حکمران پارٹی کا سربراہ نواز شریف تو خود کشمیری نژاد ہے، میں دور نہیں جاتا ، صرف گزشتہ ستمبر میں جنرل اسمبلی میں ان کی تقریر یاد کراتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ کیا وہ کشمیریوں کی آزادی کے حامی نہیں ہیں۔
ملک کی ایک بڑی مذہبی اور سیاسی پارٹی جماعت اسلامی ہے۔یہ جماعت تو اعلانیہ طور پر افغانستان اور کشمیر کے جہاد میں مصروف رہی ہے، پاکستان کی بقا کی جنگ بھی اس جماعت نے لڑی اور اس کی پاداش میں ان کے لیڈروں کو ڈھاکہ میںپھانسیاں بھی ملیں۔ جہا د افغانستان اور کشمیر میں جسٹس ملک غلام علی، مولانا جان محمد عباسی، انور نیازی اور صفدر چودھری کے جواں بیٹوںنے شہادتیں پائیں۔ ملک کے ایک ایک گاﺅں میں ہر دوسرے تیسرے روز قاضی حسین احمد کشمیر میں اپنی جماعت کے نوجوانوں کی شہادت پر غائبانہ جنازے پڑھاتے رہے۔
تو کونسی جماعت ہے جو کشمیر کی آزادی کی حامی نہیں، تحریک انصاف نے کبھی اعلانیہ اس کی حمائت نہیں کی مگر پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کا اس پر قومی اتفاق رائے ہے۔
حافظ محمد سعید نے سال کے اوائل میں ملک کی بڑی سیاسی ا ور مذہبی تنظیموں کے پلیٹ فارم سے ایک قراداد منظور کروائی کہ سا ل دوہزار سترہ کو کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کا سال قرار دیا جائے، سال بھر کشمیریوں کی حمائت میں عوامی شعور اجاگر کرنے کے لئے اجتماع کئے جائیں، یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور ہو ئی مگر نظربندی کے احکامات صرف حافظ سعید اور ان کے چار ساتھیوں کے لئے جاری ہوئے، اپریل میں یہ نظر بندی ختم ہوئی تو ریویو بورڈ تشکیل دیئے بغیر اس میں توسیع کر دی گئی۔، اس حکم کوہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا جس پر فاضل عدالت نے ریویوبورڈ کے احکامات پیش کرنے کاحکم جاری کیا، یہ بورڈ تو بنایا ہی نہیں گیا تھا ،اس لئے احکامات کہاں سے پیش کئے جاتے، اس پر عدالت کے سامنے وفاقی محکہ داخلہ کے ایک بورڈ کا حکم پیش کر دیا گیا، یہ کیس ابھی عدالت کے سامنے زیر سماعت ہے ا ور اسے فیصلہ کرنے کا اختیار ہے ، اس پر میں کوئی رائے نہیں دے سکتا مگر قوم سے یہ سوال تو پوچھ سکتا ہوں کہ اگر ملک میں مہینوں تک دھرنے دینے کی اجازت ہے، وفاقی دارالحکومت پر یلغار کرنے کی اجازت ہے ا ورا س جرم میں کسی کو نظر بند نہیں کیا گیا تو کشمیریوںکی حمائت کے لئے عوامی شعور کی بیداری کے لئے جلسے جلوس کے انعقاد کا صرف اعلان کرنے والے کو نظر بند کیوں کر دیا گیا، میرا سوال یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان کشمیر کے مطالبے سے دست بردار ہو چکا ہے اور کیاکشمیری مسلمانوں کو بھارتی فوجی درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
پاکستان میں ایسی بھی این جی اوز ہیں جو انسانی حقوق کی چیمپیئن ہیں، وہ غیر قانونی طور پر نظر بند کئے جانے یا پرا سرار طور پر لا پتہ افراد کے حق میں کوشاں رہتی ہیں مگر حافظ سعید کی نظر بندی پر وہ بھی مہر بہ لب ہیں، کیا حافظ سعید کے انسانی حقوق سلب کرنا آئین پاکستان کے تحت جائز ہو گیا۔
میرے مرشد مجید نظامی کشمیر کی تحریک آزادی کے زبردست حامی تھے، انہو ںنے تو یہاں تک پیش کش کی کہ انہیں کشمیر میں درندہ صفت بھارتی فوج کی جموں چھاﺅنی پر ایٹمی میزائل کے ساتھ باندھ کر گرا دیا جائے، ان کامطالبہ بر حق تھا، پاکستان کے میزائل اگر پاکستان کے لئے لڑنے مرنے والوں کا دفاع نہیں کر سکتے تو کیا چودھری شجاعت کے الفاظ میں انہیں شادی بیاہ پر پٹاخے چھوڑنے کے لئے ڈھیر کیا گیا ہے۔
بھارت میں کشمیری لیڈروں کو یا تو نئی دلی کی جیل میں یا گھروں میں نظر بند کر دیا گیا ہے، پاکستان بھی کشمیر کی آزادی کے مطالبے کے علم بردار لیڈروں سے یہی سلوک کرتا ہے تو پاکستان اور بھارت میں فرق کیا رہ گیا۔