خبرنامہ

حالات اکہتر جیسے نہیں ان سے بد تر ہیں،،،،اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

حالات اکہتر جیسے نہیں ان سے بد تر ہیں
Jul 04, 2018
شیئر کریں:
Google+ inShare
حالات اکہتر جیسے نہیں ان سے بد تر ہیں

میاں نواز شریف چالاک بہت بنتے ہیں، مگر پوری سمجھ نہیں رکھتے۔ کہتے ہیں کہ آج ملک کے حالات سترا ور اکہتر جیسے ہیں ۔ اور نتیجہ ویساہی خوفناک نکل سکتا ہے۔ ستر اکہتر میں نواز شریف بیس بائیس برس کے ہوں گے۔ وہ کیا جانتے تھے کہ ملک کس قیامت سے گزر رہا ہے۔اور آج اگر انہیں کسی نے ان حالات کے بارے میں بریف بھی کیا ہے۔ تو بریفنگ دینے والے کی اپنی معلومات کا لیول کیا ہے، کیا بونے مشیر اکبر بادشاہ کے نورتنوں کے برابر ہو سکتے ہیں۔ بالکل نہیں۔ نواز شریف کے مشیر بونوں سے بھی ڈھیلے ڈھالے ہیں۔
دیکھتے ہیں کہ ستر اکہتر میں کیا حالات تھے اور اب کیا ہیں ، ستر کے الیکشن ،پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین اورا ٓزادانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن تھے۔لیکن ایک گڑ بڑ ہوئی کہ الیکشن کے مینڈیٹ پر عمل نہ ہواا ور اس پارٹی کو حکومت نہیں دی گئی جسے قومی اسمبلی میں اکثریت ملی تھی۔ اس سے حالات خراب ہوئے اور پھر ہاتھ سے نکل گئے ، جس کی وجہ سے آدھا ملک ہاتھ سے نکل گیا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ملک کی ایک بڑی پارٹی کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے، پتہ نہیں کہ الیکشن میں اس کا کتنا برا حال کر دیا جائے گا۔ اس میں متعلقہ پارٹی کی اپنی بھی ذمے داری بنتی ہے۔ اس نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ مگر اس کے وزیر اعظم کو نکال باہر کیا گیا، ان کے خلاف دھڑ ادھڑ مقدمے چلے، کسی نے یہ رحم بھی نہیںکیا کہ اس خاندان کی خاتون بیرون ملک ایک ہسپتال میں بے ہوش پڑی ہے اور زندگی اور موت کی کشمکش میںمبتلا ہے۔ ٹھیک ہے اس دنیا میں کوئی بھی کسی پر رحم نہیں کھاتا۔ مگر ن لیگ کے لوگوں کا گھیرائو کیا جا رہا ہے، انکے خلاف مقدمے ہیں۔نیب کے نوٹس ہیں۔جے آئی ٹی ہیں۔ایف آئی اے ہے۔ الزامات کا طومار ہے۔ توڑ پھوڑ ہے۔ مجیب کی پارٹی کے خلاف الیکشن ہو جانے کے بعد کاروائی کی گئی، آج دو ہزار اٹھارہ میں نواز شریف کی پارٹی الیکشن سے قبل ہی آزمائشوں میںمبتلا ہے۔ اس کو رگیدنے کے لئے کئی اتحاد بن رہے ہیں،اور اس کے مقابل ایک نئی پارٹی کے لئے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔ان کا ہر نخرہ برداشت کیا جارہا ہے، ایک شخص ٹانگہ پارٹی کا لیڈر ہے ، وہ انتخابی مہم میں نکلتا ہے تو چیف جسٹس بھی ان کے ساتھ ہو لیتے ہیں مگر ہمیں یہ ماننے کے لئے کہا جاتا ہے کہ چیف جسٹس کسی کی مہم نہیں چلا رہے ، یہ بھی مان لیتے ہیں مگر اس ٹانگہ پارٹی کی حیثیت ہی کیا ہے کہ اس کا لیڈر اپنے قد کاٹھ سے بڑی بڑی دھمکیاں بھی دے رہا ہے۔
میرا تو وہم تھا کہ جس روز شہباز شریف تخت لاہور چھوڑیں گے تو لوگ ان کی جنگلہ بس کی تکا بوٹی کر دیں گے۔میرا وہم غلط ثابت ہوا، شاید اس لئے کہ اس بس کے روٹ پر نصب جنگلے پر تحریک انصاف کے پرچم لہرائے جانے تھے، سارے لاہور میں ایک ہی پرچم ہے اور وہ ہے تحریک انصاف کا پرچم۔ کیا یہ پارٹی اس قدر مقبول ہو گئی کہ اسے لاہور پر بالا دستی حاصل ہو گئی ہے۔مریم نواز ماں کے سرہانے کو نہیں چھوڑ سکتی، وہ اپنا حلقہ کسی مصلحت کی وجہ سے بدلتی ہے تو شور مچتا ہے کہ وہ آبائی حلقے سے بھی شکست سے خوف زدہ ہے۔
ساری مہم جوئی کے باوجود تحریک انصاف کو اکثریت ملنے کی امید نہیں ہے اس لئے عمران نے مخلوط حکومت بنانے کے اشارے دیئے ہیں۔وہ کس کے ساتھ مخلوط حکومت بنائے گا۔ن لیگ سے ، پی پی پی سے ، یا آزاد لوٹوں کو لالچ دے کر۔شہبازشریف مایوسی کا اظہارتو کریں گے ہی۔۔ اس لئے انہوں نے قومی حکومت بنانے کی پیش کش کر دی ہے ا ور نئے معاہدہ عمرانی کی بات بھی چھیڑی ہے۔ مگر کیا شہباز شریف تحریک انصاف اور پی پی پی دونوں کو ملا کر قومی حکومت بنائے گا، جواب آپ جانتے ہیں کہ نفی میں ہے۔ زرداری نے حامد میر کے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ انہیں الیکشن کے بعد ملک میں استحکام نظر نہیں آتا۔ جب ملک میں استحکام نہ ہو تو پھر عدم استحکام ہوتا ہے ۔ ستر اکہتر میں جھگڑا دو پارٹیوں اور دو اکائیوں کے درمیان تھا، آج جھگڑا تین بڑی پارٹیوں اور چار اکائیوں کے ما بین ہے جس میں کراچی کی پانچویں اکائی بھی سر اٹھا رہی ہے اور جنوبی پنجاب بھی الگ بولی بول رہا ہے۔ستر میں ہمارے خلاف صرف ایک بھارت سرگرم عمل تھا، اب بھارت کے ہاتھ امریکہ نے مزید مضبوط بنا دیئے ہیں اور کابل میں نیٹو افواج بھی دھرنا دیئے بیٹھی ہیں۔ چین، سعودی عرب اور ترکی جیسے وفادار دوست بھی ہمارا ساتھ چھوڑ گئے ہیں۔اکہتر میں بھارت کے ساتھ صرف سوویت روس ہی تھا۔ آج سبھی اس کی پشت پر ہیں اور ہمارے کئی طبقات بھی بھارت کے ہم نوا ہیں۔ کل تک صرف بھارتی میڈیا ہی حافظ سعید کی الیکشن مہم کے خلاف زہر گھول رہا تھا، آج سے ہمارا میڈیا بھی یہی زہر اگل رہا ہے۔ میرا سوال ہے کہ جب مودی جیسے دہشت گرد نے بھارتی الیکشن میں حصہ لیا تھا تو ہمارے جغادری تجز یہ کاروں نے اس کی مخالفت کیوں نہ کی۔ان کا منہ کس نے سیئے رکھا۔
لگتا ہے قدرت بھی ہمارا ساتھ نہیں دے رہی۔ اور پورا ملک پری مون سون سے جل تھل ہو گیا ہے، لگتا یہ ہے کہ یہ پری مون سون کا دور ہے یا عمران خان کے دعوے کے مطابق اس نے اپنے صوبے میں ایک ارب نئے درخت لگائے ہیں ، ان کی وجہ سے موسم رحم دل ہو گیا۔یہ موسم بڑا سنگ دل ثابت ہوا ہے، ابھی تو عمران نے وزیر اعظم بن کر ہر جگہ اربوں درخت لگانے ہیں اور یوں پاکستان اور بحیرہ عرب کا لیول ایک ہو جانے کا خدشہ ہے۔ عمران کی حکومت باعث رحمت ہو گی یا باعث زحمت۔ اور اس کے سیاسی نتائج و عواقب کیا ہوں گے۔ ستر میں پاکستان دو لخت ہوا تھا ۔ اگر میاںنواز شریف کے خطرے کی گھنٹی پر یقین کیا جائے توآج پھر وہی خدشات لاحق ہیں جبکہ مجھے خدشہ ہے ، نتیجہ ستر اکہتر سے بدتر ہو سکتا ہے۔اللہ سے رحم کی دعا مانگیں۔ اور کوشش کریں کہ ان خدشات سے بچا جائے اور ملک کو الیکشن کے جمہوری عمل سے مستحکم کیا جائے، زرداری کے منہ میں گھی شکر۔ حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ الیکشن بار بار ہوتے رہے تو ہم جمہوری منزل سے ہمکنار ہو جائیں گے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔