خبرنامہ

حسین مبارک پٹیل جنگی مجرم ہے۔۔اسداللہ غالب

بھارتی شہری حسین مبارک پٹیل پاکستان میں اسی طرح داخل ہوا جیسے ہمارے پاکستانی بھائی یونان، ترکی اور یورپ کی سرحد پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کچھ ایرن کے بارڈر پر ہلا ک کر دیئے جاتے ہیں ،بعض یونان کے بارڈر پر گولیوں سے بھون دیئے جاتے ہیں ، کسی کی موت ترک فوجیوں کے ہاتھوں واقع ہو جاتی ہے، کچھ دوبئی کے ساحلوں سے دور لانچوں میں ڈبو دیئے جاتے ہیں ا ور کچھ کنٹینروں میں چھپ کر رودبار انگلستان پار کرتے ہیں تو ان کنٹینروں میں بجلی چھوڑ دی جاتی ہے جس سے بے چارے پاکستانیوں کے جسم کوئلہ بن جاتے ہیں۔
میں ممنون ہوں ایک بار پھر جنرل محمد جاوید کا جنہوں نے بھارتی جاسوس کے مسئلے کو اصلی رنگ میں پیش کیا اور میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔جنرل صاحب کہتے ہیں کہ جب حسین مبارک پٹیل نے غیر قانونی طور پر ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہونے کی کوشش کی تو کوئی ایک گولی ا س کی ساری کہانی ختم کر سکتی تھی۔ در اصل وہ اسی انجام کا مستحق تھا، ساری دنیا غیر قانونی طور پر داخل ہونیو الوں سے اسی طرح نپٹتی ہے۔حسین یوسف پٹیل بھی ا سی سلوک کا مستحق تھا مگر قدرت کوکچھ اور منظور تھا،اس کے ناک نقشے سے یہ ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ وہ مسلمان ہے۔ اس کے پاس ایک بھارتی پاسپورٹ تو موجود تھا جس میں ایران کا ویزہ لگا ہوا تھا اور اس کے کہنے کے مطابق وہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار میں کاروبار کر رہا تھا، ایران میں نہ جانے کتنے ہزار، یا لاکھ بھارتی شہری کاروبار میں مصروف ہوں گے ا ورا ن سب کی حقیقت تک پہنچنا ایرانی حکومت یا اس کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لئے ممکن ہی نہ تھا۔
جنرل جاوید کا یہ دوسرا نکتہ ہے جو ایران کو مجرم ٹھہرانے والوں کو غلط ثابت کرتا ہے۔ یہی بات وزیر داخلہ چودھری نثار نے بھی کی ہے کہ اس سارے معاملے میں ایران کا کوئی قصور نہیں۔ یہاں یہ نکتہ بھی ذہن میں رکھیئے کہ ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا تھا کہ جب بھی پاکستان اور ایران قریب آنے لگتے ہیں تو کچھ قوتیں سرگرم عمل ہو جاتی ہیں ا وررنگ میں بھنگ ڈال دیتی ہیں۔ان دنوں پاکستانی میڈیا پانی کو مزید گدلا کرنے کی ان تھک کوشش کر رہاہے،ا س کی کوشش ہے کہ پاکستان کو تمام دوستوں سے الگ تھلگ کر دیا جائے۔جنرل محمد جاوید کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک پل صراط پر کھڑا ہے، یمن، شام کے تنازعات اس پل صراط کے نیچے جہنم بن کر سلگ رہے ہیں،مگر پاکستان محتاط قدم اٹھا رہاہے۔ٹھیک ہے وہ کھل کر کسی کا طرفدار نہیں بنا ، مگر کسی نے ا سے اپنا دشمن بھی نہیں سمجھا۔ا یرانی صدر نے بھارت کو بھی دوست کہا، اور اب بھارتی وزیر اعظم سعودی عرب میں ہیں جہاں ان کے ساتھ وعدے وعید کئے جائیں گے مگر ہمیں خاطر جمع رکھنی چاہئے کہ کہ پاکستان کے مفادات کو کوئی پس پشت نہیں ڈالے گا۔
آیئے واپس آتے ہیں حسین یوسف پٹیل کے شاخسانے کی طرف۔بھارت نے پہلے تو کہا کہ اس شخص کا کوئی تعلق بھارتی بحریہ سے نہیں، ظاہر ہے جب ا س نام کو کوئی شخص بھارت کا شہری ہی نہیں تو اس کا بھارتی بحریہ سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔بھارت نے اس شخص تک قونصلر رسائی مانگی ، پاکستان نے انکار کیاا ،ا س کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں مگر بڑی وجہ یہ ہے کہ حسین یوسف پٹیل کی شناخت کے ساتھ بھارتی پاسپورٹ کا حامل شخص کوئی جعلی فرد ہے، پہلے تویہ تحقیقات ہو جانی چاہئیں کہ اس شخص کی ا صل شناخت کیا ہے، ا سے جعلی شناخت کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ا ور پھر وہ غیر قانونی طور پر پاکستان کے صوبے بلوچستان کی سرحد میں کیوں داخل ہوا،اس کی اس غیر قانونی آمد کا مقصد کیا تھا، وہ کس مشن پر تھا اوراگرا س کا اپنا یہ دعوی درست ہے کہ وہ درا صل کلبھو شن یادیو ہے جو بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر ہے تو اس سے معاملات ا ور بھی پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ بھارت نے آج تک کسی آئی ایس آئی ایجنٹ کی گرفتاری کا دعوی نہیں کیا،ا س نے کبھی حافظ محمد سعید کو بھی پکڑنے کا دعوی نہیں کیا مگر پھر بھی آسمان سر پہ اٹھائے رکھتا ہے کہ پاکستان نے بھارت میں دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
بھارت سمجھتا ہے کہ ہم نے منہ میں گھنگنیاں ڈال رکھی ہیں،نہیں ایسی بات ہر گز نہیں، ہماری وزارت خارجہ نے بھارتی سفیر کو طلب کر کے کلبھوشن کی دہشت گردی پر سخت احتجاج کیا ہے ا ور یہ بات آج ہی وزیر اطلاعات نے کی ہے، تین روز پہلے انہی وزیر اطلاعات نے فوجی ترجمان جنرل باجوہ کووزارت اطلاعات کے بریفنگ روم میں مدعو کیا اور انہیں موقع فراہم کیا کہ وہ بھارتی جاسوس کی اعترافی وڈیو دکھائیں ا ور اس کی گھناؤنی وارداتوں کا پردہ چاک کریں، وزیر داخلہ نے ان افواہوں کی بھی سختی سے تردید کی ہے کہ شریف برادران کی ملکیتی رمضان شوگر ملز سے کسی بھارتی ایجنٹ کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ہم دوسری بحثیں کھڑی کر کے اصل مسئلے کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ حسین مبارک پٹیل نام کا ایک بھارتی شہری غیر قانونی طور پر پاکستان آیا، یہ اس کی کم بختی ہے کہ وہ ہمارے ہتھے چڑھ گیا۔اور پھرا سنے اپنے سارے جرائم ایک ایک کر کے تسلیم کئے ا ور ان کو اعترافی وڈیو کا حصہ بنایا۔وہ ہمارے ہاں بے گناہوں کے قتل میں ملوث رہا، اس نے دھماکے کرنے والوں کی تربیت کی، انہیں مال دیا اوراسلحہ دیا اور متعین ٹارگٹ پر لانچ کیا، یہ شخص پاکستان کا جنگی مجرم ہے ، اب اس کا جرم خالی یہ نہیں کہ وہ غیر قانونی طور پر ہماری سرحد میں داخل ہو اہے بلکہ ا س نے اپنے جنگی جرائم کا اعتراف کیا ہے جن کی سزا موت سے کم نہیں۔ یہی سزا غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کی ہے، ہمارے ہزاروں پاکستا نی ہر ماہ یہ سزا پوری دنیا میں بھگت رہے ہیں۔ حسین پٹیل کو بھی سرحد پار کرتے ہوئے یہی سزا ملنی چاہئے تھی، مگرا سکی قسمت میں کچھ سانس لکھے ہوئے تھے اور اس نے اپنے سنگین جرائم کو بے نقاب کرنا تھا اور اب وہ ایسا کر چکا،اس ے مزید جو معلومات درکار ہیں ، وہ بھی لے لینی چاہیءں اور پھرا سے پاک ایران بارڈر پر لے جا کر جنگی جرائم کی سزا کے طور پر گولی سے اڑا دینا چاہئے۔
میرے گاؤں کے قریب راجو کے پوسٹ ایک بند پر واقع ہے اور یہاں تلی نامی ،ایک چھوٹی سی بستی بھی موجود ہے، بند سے چند قدم نیچے بین اقوامی سرحدی لکیر ہے، ذرا پاؤں پھسلے تو انسان بھارتی مشین گنوں کی بھینٹ چڑھ سکتا ہے اور ایساہوتا بھی رہتا ہے مگر چند برس قبل چند ماہ کا ایک معصوم بچہ کھیلتے کھیلتے سرحدی لکیر سے نیچے اتر گیا، بھارتی مشین گن نے یہ نہیں دیکھا کہ گھس بیٹھئے کی عمر کیا ہے،اس نے شعلے اگلے اور سینکڑوں گولیوں نے معصوم بچے کے نازک جسم کوریزہ ریزہ کر دیا۔
کیا حسین مبارک پٹیل اس معصوم نازک اندام بچے سے زیادہ بے گناہ ہے ۔
اور یہ بھی سن لیجئے کہ پٹھان کوٹ سانحے کے بھارتی تفتیشی افسر تنزیل احمد کو گزشتہ رات اکیس گولیاں مار کا ہلاک کر دیا گیا ہے۔یہی حشر سمجھوتہ ایکسپریس کے تفتیشی افسر کرکرے کا ہوا۔ اسے ممبئی سانحے کے ابتدائی لمحات میں نشانہ بنایا گیا۔نہ رہے بانس نہ بجے بانسری، یہ ہے بھارت کی تفتیش کا بنیادی اور کامیاب اصول۔کرکرے اور تنزیل اپنے ساتھ نہ جانے کیا کیا انکشافات لیکرا س دنیا سے سدھار گئے۔ہماری تفتیشی ٹیم خالی ہاتھ پٹھان کوٹ سے واپس آ گئی،پاکستان نے سمجھوتہ ایکسپریس کی تفتیش کے لئے آج تک کوئی ٹیم بھارت نہیں بھیجی۔