خبرنامہ

حق خود ارادیت کشمیریوں‌کا حق، اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

حق خود ارادیت کشمیریوں‌کا حق، اسداللہ غالب

جنرل محمد جاوید سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے وہ کسی مسئلے کا بالکل نئے پہلو سے تجزیہ کرتے ہیں۔ اللہ نے انہیں اعلیٰ مناصب سے نوازا۔ وہ فوج میں میجر جنرل کے عہدے پر فائز رہے، ایک ٹرم کے لئے واہ آرڈی ننس فیکٹریز کے چیئرمین رہے اور دو مرتبہ اسٹیل ملز کے سربراہ بنائے گئے۔ مگر یہ ان کی اصل شناخت نہیں‘ میں انہیں ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے جانتا اور پہچانتا ہوں۔ وطن کے لئے محبت اور لگن ان کے دل و دماغ میںکوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور ان کا مخاطب خواہ کتنا ہی پاکستان دشمن کیوں نہ ہو، ایک بار ان کے لب و لہجے، خلوص اور منطق سے متاثر ہو کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ میری ان سے جان پہچان کا قصہ نصف صدی پر محیط ہے۔ میں گورنمنٹ کالج کے مجلہ راوی کا ایڈیٹر تھا تو وہ اس میں لکھتے رہے، میرے بعد اجمل نیازی ایڈیٹر مقرر ہوئے اور محمد جاوید ان کے ساتھ مجلس ادارت کے رکن بنے، سعید احمد چمن بھی تھے جو آج کل جے آئی ٹی کی زد میں ہیں۔ خدا انہیں اس آزمائش سے سرخرو کرے، میں نے ان سے زیادہ دیانت دار شخص روئے زمین پر نہیں دیکھا۔ بہرحال محمد جاوید صاحب پاک فوج میں چلے گئے، میںنے اردو ڈائجسٹ جوائن کیا، وہاں مجھ سے سینئر کے طور پر محمد شریف کیانی بھی تھے، ان کے دو ملاقاتی بڑے ریگولر تھے ایک محمد جاوید اور دوسرے اختر علی ڈھلوں، کیانی صاحب ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ محمد جاوید جب فوج میںمیجر جنرل بن کر لاہور میں جی او سی متعین ہوئے تو آئی ایس پی آر میں کرنل سفیر تارڑ کا طوطی بولتا تھا، وہ مجھے بتاتے کہ جنرل جاوید مجھے یاد کرتے ہیں مگر فوج کو ہدایت ہے کہ وہ میڈیا سے دور رہے، اس لئے سلام پہنچا رہا ہوں مگر ملاقات نہیں ہو سکتی، چلئے ابھی نہ سہی، اب وہ ریٹائر ہو کر لاہور آئے ہیں تو لگتا ہے کہ کالج کا دور واپس آ گیا ہے۔ جنرل جاوید بالکل ایک بدلے ہوئے انسان ہیں، اس قدر بے باک، اس قدر راست فکر اور راست گو کہ لگتا ہے وہ آج کے زمانے میں فٹ نہیں ہو سکتے۔
میں اس تمہید کو یہیں چھوڑتا ہوں، انہوں نے دو روز قبل فون کیا کہ آپ کشمیر پر مسلسل لکھ رہے ہیں، یہ بہت اچھی کوشش ہے مگر من حیث القوم ہم کشمیریوں کو بھول چکے ہیں، اور بغداد کے منطقیوں کی طرح یہ فیصلہ کرنے میں مصروف ہیں کہ کوے کی چونچ حلا ل ہے یا حرام؟ دشمن ہماری تباہی کے منصوبے پروان چڑھا رہا ہے اور ہم ایک دوسرے کا گریبان تار تار کر رہے ہیں۔ میںنے ملا قات کی خواہش ظاہر کی، ابھی ان سے دو گھنٹے کی نشست سے واپس آیا ہوں اور اس سے قبل کہ میں ان کی کچھ باتوں کو بھول جائوں جو کہ عمر کا تقاضا ہے، میں لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گیا ہوں۔
جنرل محمد جاوید سے میں نے پوچھا کہ ہم بھارت کے اس پروپیگنڈے کا کس طرح توڑ کر سکتے ہیں کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے۔
جنرل صاحب نے مطمئن انداز میں جواب دیا کہ کشمیر کا مسئلہ حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے۔ کئی برسوں تک ہم کشمیریوں کے ترجمان بنے رہے، پھر شاید تھک ہار کر چپ ہو گئے۔ مگر اب کشمیری اپنے حق میں خود بول رہے ہیں، ہم ان کے ترجمان نہیں، نہ وہ ہمارے اشاروں پر چل رہے ہیں، وہ اپنے بنیادی حق کے لئے جانیں تک قربان کر رہے ہیں۔ وہ حق خود ارادیت پر عمل درآمد کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہ کشمیر کے لئے اقوام متحدہ کی ان قراردادوں کی بیساکھی استعمال نہیں کرتے جن میں کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ بلکہ وہ اپنی زبان سے اپنے زخموں سے، اپنی اندھی آنکھوں سے اپنی مائوں بہنوں کی لٹی عصمتوں سے اور اپنی لاشوں سے رِستے لہو کی زبان سے حق خوداردیت مانگ رہے ہیں، جنرل جاوید نے ذرا توقف کے بعد کہا کہ دنیا کشمیریوں کے حق خود ارادیت سے انکار نہیں کر سکتی۔ اس لئے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے بیسیوں ممالک نے اپنے اس حق کو استعمال کیا اور آزادی حاصل کی۔ ہمیں دُور جانے کی ضرورت نہیں، ہمارے مشرقی حصے نے جب کہہ دیا کہ وہ ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتے تو ہم انہیں اپنے ساتھ طاقت کے استعمال کے باوجود نہ رکھ سکے۔ جنرل صاحب نے کہا کہ بھارت ضرور ایک بڑی طاقت ہے، آبادی، رقبے، وسائل اور اسلحے کے اعتبار سے وہ بڑا ملک نہیں ہے مگر بھارت کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ سوویت روس سے زیادہ طاقتور نہیں، سوویت روس کی ریاستوںنے جب یہ کہہ دیا کہ وہ اب اس کا حصہ نہیں رہ سکتیں تو روس کے سارے ایٹم بم اور میزائل اس کی کوئی مدد نہ کر سکے، سوویت روس ہمارے سامنے پارہ پارہ ہو گیا۔ یہی حال مشرقی یورپ میں ہوا جہاں ایک ملک یوگوسلاویہ سے کئی ملکوںنے جنم لے لیا۔ مشرقی جرمنی ا ور مغربی جرمنی دیوار برلن کو گرا کر ایک ہو گئے۔ یہ تھا حق خودارادیت کا استعمال جس کا راستہ کوئی نہ روک سکا۔
جنرل جاوید نے ایک اور زاویئے سے بات شروع کی۔ کیا ہم نے نہیں دیکھا کہ انڈونیشیا کے بطن سے مشرقی تیمور، سوڈان کے بطن سے جنوبی سوڈان نے جنم لیا، یہ سارے کام اقوام متحدہ کے دست مبارک اسے انجام پائے۔ کشمیر کے سلسلے میں اقوام متحدہ کو نئے سرے سے سوچنا ہو گا، کشمیریوں کی اُمنگوں کی روشنی میں سوچنا ہو گا۔
میں حیران تھا کہ جنرل صاحب کس ادارے سے امید لگا بیٹھے ہیں مگر وہ اپنے موقف پر ڈٹے نظر آئے، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ اب تک کتنے ملکوں کے تنازعات کو سلجھانے لے لئے اقوام متحدہ کی امن افواج نے کارروائی کی ہے‘ ان ممالک میںپاکستان کی افواج نے بھی شرکت کی‘ صومالیہ میں تو ہم نے بیش بہا قربانیاں دیں، اقوام متحدہ پاکستان کی امن افواج کا مداح ہے۔ اسی طرز پر اقوام متحدہ کو کشمیر میں امن افواج اتارنی چاہئیں، بھارت ان کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا، اس کے قدم کشمیری حریت پسندوں نے اکھاڑ دیئے ہیں، رہی سہی کسر عالمی امن افواج نکال دیں گی اور یوں کشمیر کو اسی طرح حق خوداردایت حاصل ہو جائے گا جیسے دنیا کے دوسرے بیسیوں ملکوں کو حاصل ہو چکا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کسی قوم کو اس کی مرضی کے برعکس محکوم نہیں بنایا جا سکتا، سکاٹ لینڈ برطانیہ سے آزادی کا خواہاں ہے، ایک ریفرنڈم وہ ہار گئے مگر دوبارہ ریفرنڈم کا مطالبہ گونج رہا ہے۔ برطانوی عوام کی مرضی نہیں تھی کہ وہ یورپی یونین کا حصہ رہیں، سو انہوں نے علیحدگی اختیار کر لی۔ آج تو امریکہ میں پچاس سے زائد ریاستیں شامل ہیں مگر کسی بھی روز کوئی ریاست امریکہ سے علیحدگی کا حق رکھتی ہے۔ سپین میں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے۔ کینیڈا میں علیحدگی کی تحریک کے جراثیم نمو پکڑ رہے ہیں۔ بھارت کے لئے کشمیر اکیلا مسئلہ نہیں، ایک درجن علاقے آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں، خالصتان کی تحریک ابھی مری نہیں۔ جب یہ سب کچھ ہو سکتا ہے تو کشمیریوں کے حق کو کیوں نہیں مانا جا سکتا، آج نہیں تو کل، کشمیریوں کی آواز پر کان دھرنے ہوں گے، انہیں حق خود ارادیت دیئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
میںنے کہا کہ جنرل صاحب، یہ جو اقوام متحدہ ہے، یہ ستر سال سے اندھی اور بہری ثابت ہوئی، یہ اگر امن افواج کشمیر میںنہ لائے تو دوسرا آپشن کیا ہو سکتا ہے۔
جنرل صاحب نے ترنت جواب دیا کہ ایک اسلامی فوجی اتحاد بنا ہے، چونتیس کے قریب ملک اس میں شامل ہیں، پاکستان، مصر اور ترکی جیسے طاقت ور فوجی ملک بھی اس کا حصہ ہیں، یہ فوجی اتحاد دہشت گردی کے خلاف ہے تو کشمیر بھی دہشت گردی کا شکار ہے۔ اس فوجی اتحاد میں شامل صرف چھ ملک ہی بھارت کا مقاطعہ کر دیں تو اسلامی افواج کو حرکت میں نہیں آنا پڑے گا، بھارت بائیکاٹ کے دبائو کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گا۔
ایک کے بعد ایک تجویز اور نت نیا فارمولا، جنرل جاوید کا زرخیز ذہن اپنے جوبن پر ہے، میںنے سوچا کہ مزید کچھ پوچھا تو کہیں جنرل صاحب آستینیں چڑھا کر خود ہی کشمیریوں کی حمائت میں نہ نکل کھڑے ہوں۔
قومی بے حسی کے سمندر میں جنرل صاحب ایک متلاطم لہر کی طرح ہیں۔