خبرنامہ

حمیت نام تھاجس کا گئی تیمور کے گھر سے۔۔اسداللہ غالب

تیمور چلا گیا اور اس کا گھرانہ بھی فنا ہوا۔
ادھر ایک اور شاعر نے کہا: سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف۔
یہ گزرے زمانے کے جذبات ہیں۔
سولہ دسمبر اکہتر کی دوپہر کو 41 بلوچ کے میجر زاہد یاسین کی کمپنی سہجرہ سے پیش قدمی کرتی ہوئی بھارتی فوج کے راستے میں دیوار بنی کھڑی تھی، اسی ہنگام میں خبر ملی کہ ڈھاکہ میں پاک فوج نے سرنڈر کر دیا اور مشرقی پاکستان ہاتھ سے نکل گیا۔میجر زاہد یاسین نے اپنی گن روہی نالہ میں پھینک دی، کہ اب کس کا تحفظ کیا جائے، اسی میجر زاہد یاسین نے چار روز قبل حسینی والہ کے حصار میں بھارتی فوج کو پچھاڑ کر رکھ دیا تھااور قیصرہند کے قلعے کو نصف شب زیر کر کے اس کے اندرفاتحانہ انداز میں قدم رکھا تھا، یہ ایک ناممکن آپریشن تھا۔
ابھی پانچ جولائی کو ہم نے کیپٹن کرنل شیر خاں شان حیدرکی یاد تازہ کی، حامد میر نے اپنے پروگرام میں ایک وڈیو چلائی جس میں بھارتی لیفٹننٹ جنرل، شیر خان کی شجا عت کو خراج تحسین پیش کر رہا تھا اور فلم میں اس کی لاش کو گارڈ آف آنر پیش کرتے دکھایا گیا۔
میں کتنی مرتبہ شیر میسور کا یہ قول دہراؤں کہ شیر کی ایک دن کی زندگی ، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔
میرے مرشد مجید نظامی نے کہا تھا کہ دنیا کشمیر کی جنگ آزادی کو دہشت گردی کہتی ہے تو کہتی رہے مگر وہ اس جنگ میں شریک ہو کر کشمیر کو آزاد کرانے کی جدو جہد جاری رکھیں گے۔
حمیت سے سرشارتیمور رخصت ہوا، میجرزاہد یاسین اورکیپٹن کرنل شیر خان بھی رخصت ہوئے۔شیر میسور بھی ہم سے جدا ہو گئے ا ور مجید نظامی سے بھی ہم محروم ہو گئے۔
اور وہ بھی نہیں ہے جس نے خاک مدینہ کو آ نکھوں کا سرمہ کہا تھا۔
باقی جو رہ گئے، ان میں سے کسی کو مدینہ کاذکر تک زبان پر لانے کی توفیق نہ ہو سکی۔ وہ مدینہ جہاں ہمارے حضور ﷺ محو استراحت ہیں مگر ایک لعین کو کواس گستاخی کی جرات ہوئی کہ وہ بم پھاڑنے وہاں پہنچ گیا جہاں جنید و بایزید کا سانس گم ہو جاتا ہے۔
بم اس نے پھر بھی پھاڑ دیا، اس بم کو سعودی سیکورٹی کے دلیر جوانوں نے اپنے سینوں پر روکا ، مگرپارکنگ میں لگنے والی آ گ کے دھوئیں نے جنت البقیع کے افق کو گہنا دیا۔
یہ سیاہی ہمارا مقدر کیوں بنی۔
اور ہم نے کسی حمیت کا مظاہرہ کیوں نہ کیا، عالم اسلام کہاں خواب خرگوش میں مست رہا۔
وہ بھی ایک وقت تھا جب قبلہ ا ول کو اسرائیلیوں نے نذر آتش کرنے کی کوشش کی، عالم اسلام تڑپ تڑپ گیا،ا سلامی کانفرنس کا ایک ہنگامی اجلاس مراکش میں طلب کیا گیا،اس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی جس شخص نے کی، اسے ہم شرابی اورپاکستان کو دولخت کرنے والے جنرل یحی خان کے نام سے جانتے ہیں مگر مراکش پہنچ کر اس نے دیکھا کہ وہاں ایک بھارتی سکھ بھی اجلاس میں شرکت کے لئے موجود تھا۔ جنرل یحی خان کی حمیت بیدار ہوئی،ا سنے اپنے وفد سے کہا کہ واپسی کے لئے رخت سفر باندھو اورجہاز کے انجن چلا دو۔اس پر مراکش نے بھارتی وفد کے سکھ سربراہ کوبیک بینی و دوگوش وہاں سے چلتا کر دیا۔
قبلہ ا ول کو آگ لگے تو جنرل یحی خان کا پارہ چڑھ جائے اور میرے نبی ﷺ کے روضے کے سامنے بم پھٹے تو ساری امت مسلمہ ٹس سے مس نہ ہو۔میں باقی مسلمان ملکوں کو کیا دوش دوں مگر اپنے ملک ایٹمی پاکستان کو ہر گز معاف نہیں کرسکتا ، کیا اس کے ایٹم بم واقعی شادی بیاہ کے پٹاخوں کے طور پر کام آئیں گے۔
میرے وزیر اعظم لندن میں بیمار پڑے ہیں۔ متباد ل وزیرا عظم ہونے کے دعویدار عمران خان کرکٹ میچ دیکھنے لندن میں ہیں۔جس شخص نے پاک فوج کے سربراہ کو للکارا تھا کہ تم تین سال بعد چلے جاؤ گے، ہم نے توہمیشہ یہاں رہنا ہے، وہ کئی ماہ سے دوبئی ا ور لندن میں گھوم رہا ہے اورا س کا بیٹا بلاول بھی لندن جا چکا۔ پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف نے بھی عیدنماز ادا کی ا ور لندن کا رخ کر لیا، ساتھ ہی حمزہ شہبباز بھی چلے گئے اور وزیرا عظم کی بیٹی مریم بھی لند ن جا پہنچی، گو اس نے تردید کی کہ وہ پاکستان میں ہے۔ایم کیو ایم کا قائد الطاف حسین برسوں سے لند ن میں براجمان ہے اور اس کی پارٹی کے چند اور قائد ین بھی لندن کی عید کے مزے اڑا رہے ہیں۔
ہم میں سے کسی کا دل بھی حب رسول ﷺ میں نہ تڑپا اور ہم نے شہر مدینہ کے سامنے سینہ سپر ہونے کے لئے سعودیہ کا رخ نہ کیا۔
ہم اپنے اپنے مشاغل میں غرق ہیں ۔
اور اللہ کا گھرا ور اس کے بعد محترم تریں،مسجد نبوی کی سیکورٹی کے لئے ہم نے کوئی ایک تدبیر تک نہ کی۔
سلام سعودی سیکورٹی کے جانثاروں کو جو دہشت گرد کے بم کے سامنے سینہ سپر ہو گئے۔
سلام سعودی عرب کی استقامت کو ،ا سکے حوصلوں کو کہ اس نے مصلحت سے کام لیا اور مسجد نبوی میں موجود، دس لاکھ نمازیوں کو ہراساں ہونے سے بچا لیا ورنہ ایسی خوفناک بھگدڑ مچتی کہ ہزاروں نمازی کچلے جاتے۔
اور صد حیف! کہ اس وقت ہمارے ٹی وی چینلز سعودی حکومت کو الزام دے رہے تھے کہ وہ مسجد نبوی کے سامنے دھماکے کی پردہ پوشی کر رہی ہے۔ مگر سعودی ٹی وی نے مسجد نبوی سے تراویح کی لائیو نشریات چلا دیں اور ہمارے ٹی وی چینلز منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔
مگر بم تو وہاں پھٹا تھا، اس کی خبر تو آ ہی گئی، اور ہمارا جو فرض تھا ، وہ ہم نے ادا نہیں کیا، نہ حکومتی سطح پر، نہ عوامی سطح پر،نہ عالم ا سلام کی سطح پر، کوئی مسلمان حکمران حرمت نبوی کے جذبے سے لبریز ہو کر مدینہ نہ پہنچا۔سعودی عرب میں موجود ہمارے صدر ممنون حسین بھی واپس چلے آئے۔ کیا وہ روضے کی جالیوں سے چمٹ کر آہ وزاری بھی نہیں کر سکتے تھے۔
مجھے لگتا ہے کہ ہمارا دشمن ہمیں ایک دوسرے سے جد اکر چکا ہے، ہر ایک کو الگ الگ کر کے مار رہا ہے، اس نے عر ب و عجم کی تفریق کو بھی ہوا دی ہے، سنی ا ور شیعہ کی تفریق کے شعلے بھی بھڑکا دیئے ہیں۔وہ ہمیں رنگ ، نسل ، زبان، علاقے کے تعصبات کا شکار کر چکا ہے۔
کیا وقت تھا کہ مسجد اقصی کو یہودیوں نے آگ لگائی تو پوری امت مسلمہ کے قائدین اسلامی کانفرنس کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو گئے اور اب کیا قامت کا سماں ہے کہ بیت اللہ کے بعد مسجد نبوی کے مقدس تریں مقام کو بم کا نشانہ بنایا گیا مگر ہمارے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔
حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے۔
میری ایک آس باقی ہے۔ کہ لندن سے آنے والابوئنگ777 اچانک اپنا رخ بدل دے اور طے شدہ روٹ سے ہٹ کر مدینہ جا اترے۔
کاش ! ایسا ہو جائے۔ کاش ! ایساہو جائ