خبرنامہ

حکومتی لشکر کی پسپائی مگر کہاں تک۔۔۔اسداللہ غالب

پسپائی کی ایک حد ہوتی ہے، اول تو لڑائی میں پسپائی کا تصور ہی محال ہے۔،اگر آپ ایک قدم پیچھے ہٹتے ہیں تو دشمن آپ کو میلوں پیچھے دھکیل دیتا ہے۔
حکومتی لشکر کی برق رفتار پسپائی پر میرے جیسے ا س کے خود ساختہ وکیل صفائی بھی پریشان ہیں ا ور سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ وہ اس حکومت کا دفاع کر پائیں گے تو کیسے۔
دفاع مشکل نہیں تھا مگر حکومت کے نادان دوستوں نے اب اسے ناممکن بنا دیا ہے۔ طلال چودھری، دانیال عزیز اور ما روی میمن نے اگر منطق پیش کرنی ہے اور حکومت کو اپنے قیمتی مشوروں سے نوازنا ہے تو حکومت اپنا بیڑہ غرق ہی سمجھے، طلال چودھری کاجغرافیہ تو کسی کو معلوم نہیں ۔ دانیال عزیز ا ور ماروی میمن بلے کی مشاورت پر بھی مامور تھے اور بلے کا جو حشر ہوا،ا للہ اس سے بچائے۔ وہ تو کوئی معجزہ ہواکہ بلاجان بچا کر بھاگ گیا ورنہ ان مشیران گرامی قدر نے اسے پھانسی پر لٹکو اکر دم لینا تھا ۔اب نواز شریف ان افلا طونوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے، دعا تو یہ ہے کہ اللہ ا سے ان کے مشوروں کے باوجود محفوظ رکھے ۔مگر قرائن ایسے نظر آتے نہیں ہیں۔
کیس سیدھا سادہ تھا ، پانامہ لیکس کی لپیٹ میںآدھی سے زیادہ دنیا آتی تھی، پاکستان کے دوسو سے زائد لوگ اس کڑکی میں پھنسے ہوئے تھے اور ایک سے ایک بڑھ کر قرضے خور، کرپٹ کا نام اس فہرست میں تھا، حکومت انتظار کرتی کہ جس کو ان کرپٹ لوگوں کے خلاف عدالتی چاری جوئی کا شوق ہے ، وہ نیب کے پاس جائیں، ایف آئی اے کے پاس جائیں یا سپریم کورٹ سے رجوع کریں، حسن اور حسین ا س ملک کے شہری نہیں تھے۔ انہوں نے پاکستان کے کسی قانون کونہیں توڑا تھا اور سعودی عرب ا وربرطانیہ کے بھی کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی تھی مگر حکمرانوں کے مشیروں نے اس لڑائی کا دائرہ وزیر اعظم کے بیٹوں تک محدود کر دیا،ا سکے لئے انہوں مے بہت تگ دو کی، اس سے زیادہ کی جتنی عمران خان یا کسی اور نے کی، جب مخالف فریق نے دیکھا کہ حکمرانوں نے خود ہی کڑکی میں سر پھنسا لیا ہے تو وہ لٹھ لے کر پیچھے پڑ گئے۔وزیر اعظم نے پہلی تقریر کی ، جو انہیں نہیں کرنی چاہئے تھی، کی تھی تو اس پہ ثابت قدم رہتے، دوسری تقریر کی، یہ بھی نہیں کر نی چاہئے تھی، کر لی تھی تو ا س پہ ہی قائم رہتے مگر وہ مسلسل پسپائی اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں، اپوزیشن کوعلم ہے کہ یہ ڑرائی عدالت میں صدیوں تک نہیں جیتی جا سکتی۔انہوں تو بیان بازی کا شوق پورا کرناہی تھا ، دھرنوں کا سہار الینا ہی تھا، جلسے پہ جلسہ کرنا ہی تھامگر وزیر اعظم دو تقریروں پر شاکر نہ رہے، لاہور کے گورنر ہاؤس میں میڈیاکو بلا لیا۔بیان بازی حکومت کو زیب نہیں دیتی، اسے عدالتی کمیشن کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے تھا مگر پتہ نہیں انہیں قرار کیوں نصیب نہیں اور کون انہیں مسلسل زبان کھولنے پر مجبور کر رہا ہے۔ ظاہر ہے یہ کام ان مشیران گرامی قدر کا ہے جنہیں اپنے قد کاٹھ کا ذرا بھی علم نہیں۔
حیرت ہے کہ اسی حکومت کے پاس انتہائی زیرک لوگ بھی موجود ہیں خود پرویز رشید، ، اسحق ڈار،عرفان صدیقی، عطاالحق قاسمی، ابصار عالم ۔ایک مالک صاحب بھی تھے جو ادھر ادھر ہو گئے۔یہ سب لوگ ایک طرف اور اکیلے میاں شہباز شریف سب پہ بھاری تھے، کیا وزیر اعظم نے ان سے مشورہ کیا یا سارا انحصار چوسنی گروپ اوروہ بھی موسمی اور فصلی بٹیروں پر۔ خرم دستگیر کے والد ضیا کے آدمی تھے،دانیا ل عزیز خود تو مشرف کے لئے رطب اللسان رہتے، اوپر سے وہ انور عزیز کے فرزند عزیز جنہیں ایک شریف النفس وزایر اعظم محمد خان جونیجو نے کرپشن کے الزام میں کابینہ سے برطرف کیا تھا، ماروی میمن ڈکٹیٹر مشرف کی ترجمان ا ور انکے والد بھی اسی مشرف کے وزیر باتدبیر جناب نثار میمن، شاید ان کے پاس وزارت اطلاعات کاقلم دان تھا۔ یہ توسارابھان متی کا کنبہ ہے۔مجھے اس قطار میں کہیں شہباز شریف نظر نہیں آتے جو صائب مشورہ دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔مگر اس امر کا فیصلہ میں نے تو نہیں کرنا کہ مشورہ کس سے لینا ہے، میرا تو خیال ہے کہ ساری گالیاں کھانے کے باوجود میرا لکھاہو ابھی کسی نے نہیں پڑھا تو مجھے گالیاں کھانے کا کوئی شوق بھی نہیں۔
عمران خان پہلے روز سے کہہ رہے ہیں کہ پہلے احتساب وزیر اعظم کا ہو گا، پھر کسی اور کی باری آئے گی ، وہ ا پنی اے ٹی ایم مشین کو ہر حالت میں بچانا چاہتے ہیں، یہ اے ٹی ایم مشین ہاتھ سے نکل گئی تو نہ بنی گالہ کا خرچہ کوئی اٹھا ئے گا، نہ جہازوں میں کوئی پٹرول بھروائے گا، حضرت عمران خان ہوں گے اور سنسان ویران گلیاں ہو ں گی۔جس پارٹی میں چودھری سرور کو گالیاں پڑیں ، وہ پارٹی کیا ہوئی مگر عمران خان ہیں کہ دباؤ بڑھاتے چلے جا رہے ہیں، اسے جنونی کہہ لو، پاگل کہہ لو ، لاعلاج کہہ لو، مگر اس نے حکمرانوں کو آگے لگا رکھا ہے اور حکمران ہیں کہ بگٹٹ بھاگے چلے جا رہے ہیں۔عمران خان محض ایک کھلاڑی تھا، اسے ہیرو بنا دیا، ہیرو سے لاڈلا سیاستدان بنا دیا، اسے ڈی چوک میں مہینوں تک اودھم مچانے کی کھلی چھٹی دی، اب وہ کہتا ہے کہ ایف نائن میں جلسہ کروں گا، حکومت کہتی ہے، نہ ں کر سکتے، وہ وہیں جلسہ کرتا ہے، پھر لاہور کے چیئرنگ کراس میں جلسے کا اعلان کردیتا ہے، حکومت لاکھ کہتی رہے کہ ا جازت نہیں، وہ وہیں چوکڑی جماتا ہے، وہ ایک مطالبہ کرتا ہے، حکومت اسے بھی مان لیتی ہے، دوسرا مطالبہ کرتا ہے، حکومت پھر سر تسلیم خم کر دیتی ہے، یہ حکومت نہ ہوئی،بنی گالہ کی باندی ہوئی۔حکومت کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں، وزیر اعظم نے کبھی کابینہ کا اجلاس نہیں بلایا تھا، وہ بھی بلانا پڑ گیا، کبھی ارکان اسمبلی کے لئے وقت نہیں نکالا تھا، اب ایک کر کے ہر رکن اسمبلی سے ملاقات ہو رہی ہے۔لاہور کے صحافی وزیر اعظم کی شکل تک بھول گئے تھے، ان کے لئے گھنٹوں کی بریفنگ کا اہتمام کیا۔وارے نیارے ہیں بھئی۔
مگر عمران خان کہیں رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ وزیر اعظم کہہ بیٹھے کہ الزام ثابت ہو گئے تو وہ گھر چلے جائیں گے، عمران نے ڈوری یہیں سے پکڑی ا ور اعلان کر دیا کہ گھر کون جانے دے گا، جیل بھیجیں گے۔ جیل جانا تھا تو اے ٹی ایم مشین نے۔ مگر یہاں معاملہ الٹ نکلا یا بازی ا لٹ گئی۔
میں یہ نہیں کہتا کہ حکومت کیس ہار گئی، حکومت اب بھی پاؤں مضبوطی سے جما لے تو اس کی گرد کو بھی کوئی نہیں پا سکتا۔ عمران خان تو جھوٹ کی سیاست کرتا ہے، بلف کھیلتا ہے۔ میں حیران ہوں کہ جس حکومت نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پی رکھا ہے،تیسری ، چوتھی ،پانچویں یا چھٹی مرتبہ حکومت میں ہے، اس کے پاس وسیع تجربہ ہے ، وہ ایک کرکٹر کے باؤنسرزک کاسامنا کیوں نہیں کر پا رہیِ۔ اس حکومت کے سامنے نہ تو کوئی پی این اے ہے، نہ پی ڈی ایف ہے ، نہ ایم آر ڈی ہے، نہ ایم ایم اے ہے۔ نہ اصغر خان ، نہ مودودی، نہ مفتی محمود ، نہ نوابزادہ نصراللہ خان، نہ چودھری ظہور الہی۔ نہ شاہ احمد نورانی، نہ ولی خان تو ان بچے بچونگڑوں سے ڈر کس بات کا۔ مسلسل پسپائی کیوں اور میرے جیسے خود ساختہ وکلائے صفائی کے لئے گالیاں کیوں۔میرے کان میں تو کہہ دے کہ دفاع کرنے کی چنداں ضرورت نہیں!
مگر حکومت جس قدر پسپا ہونا چاہے ، ہو جائے، عمران کے جھوٹ کے سامنے میں اکیلا بھی رہ گیا تو ڈٹا رہوں گا۔